کشمیر پر مودی کا ’ماسٹر سٹروک‘ لداخ میں کیوں اٹک گیا؟

انڈین حکومت نے 5 اگست 2019 کو جب پارلیمنٹ میں دفعہ 370 کے خاتمے کا اعلان کیا، تو وزیراعظم مودی اور اُن کی پارٹی بی جے پی کے حامیوں نے اسے مودی کا ’ماسٹر سٹروک‘ قرار دیا۔

گزشتہ تقریباً پانچ برس کے دوران اس فیصلے کے خلاف کشمیر میں کوئی عوامی مزاحمت نہیں ہوئی، لیکن لداخ خطے میں اس فیصلے کے خلاف گزشتہ چند برسوں سے دبے الفاظ میں جو باتیں ہورہی تھیں وہ اب ایک ہمہ گیر عوامی احتجاجی لہر میں بدل گئی ہے۔

واضح رہے 5 اگست 2019 کے غیرمعمولی فیصلے کے تحت جموں کشمیر کو تقسیم کر کے لداخ کو اس سے الگ کردیا گیا۔ لداخ کو بغیر اسمبلی کے مرکزی انتظام والا خطہ یا یونین ٹیریٹری قرار دیا گیا جبکہ جموں کشمیر کو اسمبلی والی یونین ٹیریٹری بنایا گیا۔

دیرینہ تناوٴ کے بعد بودھ۔ مسلم اتحاد

دشوار گزار ہمالیائی پہاڑوں کے بیچ آباد لداخ دو خطوں، کرگِل اور لیہہ پر مشتمل ہے، جہاں کی مجموعی آبادی تین لاکھ سے بھی کم ہے۔ لیہہ میں بودھ مذہب کے پیروکاروں کی اکثریت ہے جبکہ کرگِل میں شعیہ مسلمانوں کی اکثریت ہے۔

دہائیوں سے دونوں فرقوں کے درمیان مذہبی تناو چلتا آرہا ہے، جس میں اکثر اوقات تشدد بھی شامل ہو جاتا ہے اور نوبت بائیکاٹ تک پہنچ جاتی رہی ہے۔ سنہ 2012 میں چار بودھ خاندانوں کے 22 افراد نے اسلام قبول کرلیا تو لداخ بودھِسٹ ایسوسی ایشن نے مسلمانوں کے سوشل بائیکاٹ کی تحریک چھیڑ دی۔ کئی سال تک مسلمانوں کا مقاطعہ کیا گیا، اُن کے ہوٹل اور دُکانیں بند ہوگئیں اور بیشتر نے ہجرت بھی کرلی۔

اسی دوران لداخ کے بودھوں نے جموں کشمیر حکومت سے علیٰحدگی کی تحریک بھی چلائی اور مطالبہ کیا کہ لداخ کو براہ راست مرکز کے انتظام والی یونین ٹیریٹری بنایا جائے۔

آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد بھی لداخی بودھوں نے جشن منایا۔ لیکن گزشتہ چند برسوں کے دوران لداخ کے بودھ، مسلم اور دیگر مذاہب کے لوگ ایک ہی پیج پر نظر آرہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ سنہ 2019 کے فیصلے نے لداخ کی ثقافت، معیشت اور ماحولیات کو بہت بڑے خطرے سے دوچار کردیا ہے۔

Ladakh

بھوک ہڑتال اور مظاہرے

لداخ کی بودھ اور مسلم آبادی یکساں لہجے اور یکساں شدّت کے ساتھ اب مودی کے ’ماسٹر سٹروک‘ کو چیلنج کررہی ہے۔ بودھوں کی ’لیہہ ایپیکس باڈی (ایل اے بی) اور مسلمانوں کے ’کرگِل ڈیموکریٹک الائینس‘ (کے ڈی اے) نے لداخیوں کے مشترکہ مفاد کی خاطر تحریک شروع کردی ہے۔

ماحولیاتی تحفظ کے لئے کئی برس سے سرگرم رضاکار سونم وانگ چُک اس تحریک کا چہرہ بن چکے ہیں، کیونکہ گزشتہ دو ہفتوں سے لیہہ میں ٹھٹھرتی سردی کے بیچ بھوک ہڑتال پر ہیں۔ کے ڈی اے کے رضاکار بھی کرگِل میں ایتوار سے بھوک ہڑتال شروع کررہے ہیں۔

دونوں گروپوں نے لیہہ اور کرگِل میں گزشتہ ہفتوں کے دوران کئی بڑی ریلیاں منعقد کیں، جن میں لداخ میں انڈین آئین کے چھٹے شیڈیول کے تحت نوکریوں کو صرف لداخی باشندوں کے لئے مخصوص کرنا، لداخ کو ایک باقاعدہ ریاست کا درجہ دینے اور پارلیمنٹ میں لداخ کی ایک سیٹ کو بڑھا کر دو سیٹیں کرنے کے مطالبات شامل ہیں۔

اس سلسلے میں فروری اور مارچ کے دوران ایل اے بی اور کے ڈی اے کے نمائندوں اور انڈین وزارت داخلہ کے درمیان مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے، تاہم وہ ناکام رہے۔

’چین کی سرحد پر لوگوں کو ناراض نہیں کرسکتے‘

نئی دلّی میں مقیم سلامتی امور کے ماہر اور انڈیا کے سابق سفیر برائے قرغزستان پھونسوک ستوبدن خود بھی لداخی شہری ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ لداخی امور کو مودی گورنمنٹ نے ’مِس ہینڈل‘ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’لداخ میں ہماری ساڑھے تین ہزار کلومیٹر سرحد چین سے ملتی ہے اور چین کے ساتھ گزشتہ کئی برسوں سے تناوٴ کی صورتحال ہے، ایسے میں آپ اُن لوگوں کو کیسے ناراض کرسکتے ہیں جو ایسی حساس سرحد پر آپ کے آنکھ اور کان بنے ہوئے ہیں۔‘ انھوں نے انڈین حکومت سے اپیل کی کہ وہ لداخ کے لوگوں کے ساتھ مشاورت کر کے اُن کو لاحق خدشات کا مناسب حل تلاش کریں۔

پھونسوک ستوبدن کے مطابق یونین ٹیریٹری بنا کر اس کو ہزاروں کلومیٹر دُور گجرات، مہاراشٹرا، جھارکھنڈ اور اُڑیسہ سے لائے گئے افسروں کے حوالے کرنا غلط بات ہے۔ وہ کہتے ہیں ’جس بِل کے تحت لداخ کو یونین ٹیریٹری بنایا گیا، اس میں لکھا ہے کہ لیفٹنٹ گورنر کے باقاعدہ مشیر ہونگے، لیکن یہاں اوپر گورنر ہے اور نیچے غیرمقامی افسر ایسے میں لوگوں کا ناراض ہونا یقینی تھا۔‘

سابق سفیر ستوبدن کا کہنا تھا کہ چھٹے شیڈیول اور ملازمتوں یا ماحولیات کا تحفظ ابھی تک ایک سیاسی نعرہ تھا، لیکن اب یہ ایک جذباتی تحریک بن گئی ہے، جو ملکی مفاد میں نہیں۔

Ladakh

چھٹے شیڈیول کا مطلب کیا ہے؟

انڈین آئین میں چھٹے شیڈیول کو سنہ 1949 میں شمال مشرقی ریاستوں آسام، میگھالیہ، میزورم اور تریپورہ میں قبائلی آبادی کو خودمختاری دینے لئے منظور کیا گیا تھا۔ حالانکہ اس شیڈیول کی ایک شِق کے تحت لداخ کو مقامی انتظامی کونسلز بنانے کا اختیار بہت پہلے دیا گیا تھا، لیکن اب وہاں کے لوگ شمال مشرقی ریاستوں کی طرز پر یہ گارنٹی چاہتے ہیں کہ وہ زراعت، ماحولیات، مقامی معیشت اور سیاحت سے جُڑے معاملات میں خود قانون سازی کریں، جو یونین ٹیریٹری سیٹ اپ میں ممکن نہیں ہے۔

چھٹے شیڈیول کی رعایات آرٹیکل 371 کی مختلف شِقوں میں درج اُن رعایتوں سے زیادہ ہیں جو شمال مشرقی ریاستوں ناگا لینڈ اور میزورم کو حاصل ہیں۔ ان رعایتوں کے تحت مرکز مقامی اسمبلی کی رضامندی کے بغیر ماحولیات اور زمین کے استعمال سے متعلق قانون سازی نہیں کرسکتی۔

حالانکہ گزشتہ دنوں انڈین وزیرداخلہ نے ایل اے بی اور کے ڈی اے کے نمائندوں کو یقین بھی دلایا تھا کہ وہ لداخ کو آرٹیکل 371 کے تحت رعایات دینے پر غور کریں گے۔ تاہم لداخ کی آبادی اپنے مطالبات پر بضِد ہے۔

گو کہ لداخ کی 97 فیصد آبادی کی نسلی شناخت قبائیلی ہے۔ انڈین وزارت داخلہ کا ماننا ہے کہ چھٹے شیڈیول کو منظور کرتے وقت اسے صرف شمال مشرقی ریاستوں کے لئے مخصوص کیا گیا تھا۔

’وفاداری کے بدلے دھوکہ نہیں ہوسکتا‘

بھوک ہڑتال پر بیٹھے سونم وانگ چُک کے اتحادی اور کے ڈی اے کے ترجمان سجاد حسین کرگِلی کہتے ہیں کہ ’جب کرگِل کی جنگ ہورہی تھی تو یہاں کی آبادی کے سبھی فرقوں نے انڈین افواج کی مدد کی، رضاکاروں نے سامان اور کھانا پہنچایا۔ یہاں آج تک کوئی انڈیا مخالف مظاہرہ نہیں ہوا، کوئی پتھراوٴ نہیں ہوا، کوئی ہڑتال نہیں ہوئی۔ آج کی تحریک بھی آئینی دائرے میں رہ کر پُرامن طور اپنے مطالبے پیش کررہی ہے۔ آخر وفاداری کا بدلہ دھوکہ تو نہیں ہوسکتا؟‘

واضح رہے سنہ 1990 میں کشمیر میں جو مسلح شورش برپا ہوئی تھی، اُس کا اثر لداخ کے کسی خطے میں دیکھنے کو نہیں ملا۔ لداخ اپنے اندرونی فرقہ وارانہ تناوٴ سے کئی سال تک کشیدہ بھی رہا، لیکن یہ پہلی بار ہے کہ لداخ کے بودھ اور مسلمان شانہ بہ شانہ اپنے جمہوری حقوق کی خاطر سڑکوں پر بھوک ہڑتال کررہے ہیں۔

Ladakh

کیا لداخ کی تحریک انڈیا کے لیے سیکورٹی رِسک ہے؟

لداخ کی تحریک میں شامل لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ انڈیا کی جمہوری اقدار کا پاس رکھتے ہوئے، پرُامن طور پر جائز مطالبات کے لیے سرگرم ہیں۔

تحریک سے جُڑے ایک رضاکار نے بتایا کہ ’چین کی سرحد کے قریب رہنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہر مطالبہ کو چین نواز، یا چین کو مدد کرنے کے مترادف دیکھا جائے۔ ہم بھی انڈیا کا ویسا ہی حصہ ہیں جیسا میزورم اور میگھالیہ۔حکومت کو اپنے ہی لوگوں کو پریشان نہیں کرنا چاہیئے۔‘

تاہم اکثر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ لداخ جیسے حساس ترین خطے میں افراتفری انڈیا کی قومی سلامتی کے مفاد کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ صحافی اور تجزیہ نگار ہارون ریشی کہتے ہیں کہ انڈیا نے گزشتہ برسوں میں میزورم اور ناگالینڈ میں مسلح گروہوں کے ساتھ معاہدے کرکے وہاں حالات کو قابو کیا ہے۔

وہ کہتے ہیں ’لداخ میں تو ویسا مسئلہ بھی نہیں۔ حکومت اور لوگوں کے درمیان کچھ امور میں اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن چینی سرحد پر رہنے والے لوگ اگر خود کو بے بس محسوس کریں تو یہ واقعی ایک رِسک یا خطرہ ہے جو میں سمجھتا ہوں انڈیا متحمل نہیں ہو سکتا۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’نیپال اور مالدیوز میں پہلے ہی چین نا نفوذ بڑھ رہا ہے اور لداخ کی سرحد پر چار سال سے تناوٴ ہے، ایسے میں لداخیوں کو مناسب اور ممکن طریقوں سے مطمعن کرنا بہت ضروری ہے۔‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں