27 دسمبر 2023 کو پاکستان نے بیک وقت کئی میزائل داغنے کی صلاحیت رکھنے والے ’فتح ٹو‘ راکٹ کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔
پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق 400 کلومیٹر تک فاصلے پر مار کرنے والے اس میزائل میں اپنے ہدف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنانے کی صلاحیت ہے۔
اس سے قبل 24 اگست 2021 کو مقامی طور پر تیار کردہ فتح ون راکٹ سسٹم کا تجربہ کیا جا چکا ہے۔
فتح 2 میزائل کی خصوصیات کیا ہیں؟
آئی ایس پی آر کے مطابق فتح ٹو میزائل سسٹم پرواز کی جدید ترین صلاحیتوں سے لیس ہے اور یہ ہدف تک مار کرنے کی جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہے۔
آئی ایس پی آر کے جاری کردہ بیان کے مطابق فتح ٹو اس لحاظ سے منفرد میزائل ہے کہ یہ اپنے ہدف پر ’پریسیژن‘ یعنی بہتر انداز میں نشانہ لگانے کی ٹیکنالوجی کا حامل ہے۔ اس کے مطابق سیٹلائٹ سے منسلک اس میزائل کی فضا میں پرواز کی صلاحیت نے اسے مزید مؤثر بنا دیا ہے۔
آئی ایس پی آر کا دعویٰ ہے کہ ان عوامل کی وجہ سے یہ میزائل داغے جانے کے بعد اپنے ہدف سے نہیں چُوکتا اور داغے گئے ہدف کو درست انداز میں نشانہ بنانے کا حامل ہے۔
فوجی اسلحہ اور سازو سامان کے بعض ماہرین فتح ٹو کو ’فلیٹ ٹرجیکٹری وہیکل‘ قرار دیتے ہیں جس کا ایک مطلب یہ ہے کہ اسے ریڈار پر نہیں دیکھا جاسکتا۔
دفاعی امور کے ماہر بریگیڈئیر (ر) سعد محمد نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فتح ٹو فلیٹ ٹریجیکٹری وہیکل ہے جسے ریڈار پر دیکھنا اور تباہ کرنا زیادہ مشکل ہے۔
وہ کہتے ہیں ’بیلسٹک میزائل کا اپنا راستہ ہوتا ہے، وہ خلا میں داخل ہوتے ہیں اور وہاں سے دوبارہ زمین میں واپس داخل ہوتے ہیں۔ اس عرصے کے دوران دشمن کے ریڈار اس کا پتا لگاتے ہیں اور جوابی کارروائی کرتے ہیں جبکہ اس کی ٹریجکٹری مختلف ہوتی ہے۔‘
انڈیا کا میزائل ڈیفینس سسٹم
بعض ماہرین کی جانب سے فتح ٹو کے کامیاب تجربے کے بعد اسے انڈیا کے جاری دفاع میزائل پروگرام کے مقابلے میں ایک مؤثر ہتھیار قرار دیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ انڈیا بھی گذشتہ کچھ عرصے سے اپنے میزائل کے نظام میں نمایاں بہتری لا رہا ہے۔ انڈیا اپنے دفاعی نظام میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے ’ایس 400 ٹرائمف‘ کے علاوہ مقامی طور پر تیار کردہ اور کم فاصلے پر مارکرنے والا سمر (SAMAR) اور ڈی آر ڈی او کے تیار کردہ ویشوراڈز (VSHORADS) میزائل بھی شامل کر چکا ہے جو انتہائی کم فاصلے پر موجود اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ میزائل سمندری محاذ پر ابھرتے ہوئے خطرات کے مقابلے میں بھی کارآمد ہیں۔
انڈیا کے روزنامہ ’ٹائمز آف انڈیا‘ کے مطابق انڈیا ’ایل آر سام‘ کے نام سے دفاعی میزائل نظام تیار کر رہا ہے۔ یہ نظام روس کے ایس 400 ٹرائمف فضائی دفاعی نظام کی صلاحیتوں کا حامل ہے۔
اس نظام سے طویل فاصلے تک نگرانی اور راڈار کے کنٹرول کی صلاحیت حاصل ہوگی اور 150، 250 اور ساڑھے تین سو کلومیٹر کے فاصلے پر بروقت میزائل کا پتا لگانے اور اسے جھپٹ لینے کی طاقت مل جائے گی۔
انڈیا اپنے دفاعی نظام میں میزائل ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے اپنی فوج، جوہری تنصیبات اور بڑے شہروں کو بچانے کی حکمت عملی پر کام کر رہا ہے۔
انڈیا ایک عرصے سے اسرائیل سے آئرن ڈوم میزائل ڈیفنس سسٹم حاصل کرنے کا خواہاں رہا ہے۔ جولائی 2013 میں اخبار ’ٹائمز آف اسرائیل‘ نے خبر دی تھی کہ اسرائیل نے آئرن ڈوم کی خریداری میں انڈیا کی دلچسپی کے حوالے سے بات چیت بحال کرنے میں آمادگی ظاہر کی ہے کیونکہ اسرائیل اس نظام سمیت ٹیکنالوجی انڈیا کو دینے کے لیے آمادہ ہو گیا ہے۔
انڈین فوج کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل اور دفاعی تجزیہ کار ایچ ایس پناگ کا کہنا کہ ہر ملک آئرن ڈوم کی خواہش رکھتا ہے لیکن یہ پیسوں اور ٹیکنالوجی پر منحصر ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ایک بار جب آپ کے پاس پیسہ اور ٹیکنالوجی آ جائے تو آپ اسے خود بنا لیں گے لیکن وہ خبردار کرتے ہیں کہ ان رپورٹس کو محتاظ نظریے سے دیکھا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انڈیا کے پاس (دفاع سے متعلق) ٹیکنالوجی کی کمی ہے لیکن ’ہر روز اخبارات میں بہت سی کہانیاں چھپتی ہیں جن میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہم نے یہ بنا لیا اور وہ بنا لیا لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہوتے ہیں۔‘
دفاعی امور کے ماہر راہول بھونسلے کہتے ہیں کہ انڈیا کو دارالحکومت دہلی یا تجارتی مرکز ممبئی جیسے اہم علاقوں کی حفاظت کے لیے ایسے نظام کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’لیکن ہمیں اتنا خطرہ بھی نہیں کیونکہ یہ نظام فی الحال راکٹوں کی بیراج کے خلاف بہتر کام کرتا ہے جس کا استعمال مثلا حماس کیا کرتی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان کے پاس ایسا کرنے کی صلاحیت ہے لیکن انھیں اس کا کیا فائدہ ہو گا؟ کیونکہ ظاہر ہے کہ اس کا جوابی ردعمل بھی بہت شدید ہو گا۔‘
راہول بھونسلے کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ یہ ایک کافی مہنگا سسٹم ہے اور کیونکہ انڈیا کے سامنے خطرات بہت مختلف ہیں جس کے حساب سے انڈیا کے پاس پہلے سے ہی ایسے نظام موجود ہیں جو حساس اور اہم بنیادی انفراسٹرکچر کی حفاظت کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں جوہری ہتھیاروں اور میزائل سے متعلق ماہر سید محمد علی نے بی بی سی کو بتایا کہ انڈیا اسرائیلی آئرن ڈوم ٹیکنالوجی تین وجوہات کی بنا پر حاصل کرنا چاہتا ہے۔
ایک وجہ یہ ہے کہ انڈیا کا زمینی رقبہ بہت زیادہ ہے اور اسرائیل سے کہیں بڑا ہے۔ آئرن ڈوم پوٹھوہار حجم کی اسرائیلی گہرائی کے لیے تو بہت اچھا ہے لیکن انڈیا جیسے بڑے رقبے کے ملک کے لیے شاید زیادہ کارگر ثابت نہ ہو۔‘
انھوں نے کہا کہ ’حماس کے راکٹوں کو روکنے کے لیے اسرائیل آئرن ڈوم کو استعمال کر رہا ہے۔ یہ راکٹ پرانی نوعیت کے ہیں جو دوسری عالمی جنگ میں جرمن استعمال کرتے تھے۔‘
سید محمد علی کا کہنا ہے کہ ’انڈیا کو چین اور پاکستان کی جانب سے کہیں زیادہ مقدار میں بڑے اور جدید ہتھیاروں کا سامنا ہے۔ انڈیا کے پاس جدید ترین ایس 400 میزائل بھی موجود ہیں لیکن وہ بھی اسے پاکستانی میزائلوں سے مکمل دفاع فراہم نہیں کر سکتے۔
’فتح ٹو سے پاکستان کو برتری حاصل ہوئی‘
چند انڈین دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ فتح-2 میزائل کے کامیاب تجربے نے عسکری محاز پر پاکستان کو برتری دلا دی ہے، خاص طور پر ہدف کو نشانہ بنانے کے فاصلے کے اعتبار سے۔
انڈیا کے دفاعی امور پر رپورٹنگ کرنے والے پورٹل انڈین ڈیفنس ریسرچ ونگ کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کا یہ نیا میزائل اسے رینج کے اعتبار سے انڈیا پر برتری دیتا ہے جو کہ پاکستانی فوج کے لیے فائدہ مند ہے۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انڈین فوج کے سابق بریگیڈیئر اور توپ خانے کے ماہر راہول بھونسلے کا کہنا تھا کہ ’قابلیت کے اعتبار سے یہ پیشرفت اہم ہے۔‘
انھوں نے نشاندہی کی کہ فتح-2 انڈیا کے پیناکا نامی ملٹی بیرل راکٹ لانچر سے ملتا جلتا ہے اور ’جو کہ پاکستان کی توپ خانے کی صلاحیتوں میں اضافہ کرے گا۔‘
وہ کہتے کہ ہیں کہ لیکن دونوں ممالک کے لیے یہ پیشرفت معمول کے مطابق ہے کیونکہ ’انڈیا سمیت دنیا کی تمام فوجیں ملٹی بیرل راکٹ لانچر سسٹم بنا رہی ہیں۔ یہ سسٹم روس یوکرین جنگ میں بہت کارآمد ثابت ہوئے ہیں۔‘
مقامی اور بین الاقوامی ماہرین دونوں متفق ہیں کہ فتح ٹو گزشتہ دو ماہ کے دوران پاکستان کے ہتھیاروں کے نظام میں دوسرا تجربہ ہے جس کا مقصد دفاعی میزائل سسٹم کو بہتر بنانے کی صلاحیت حاصل کرنا ہے۔
18 اکتوبر 2023 کو پاکستان نے زمین سے زمین پر درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے ابابیل میزائل کا تجربہ بھی کیا تھا جو جنوبی ایشیا میں پہلا میزائل ہے جو کئی جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
جوہری ہتھیاروں اور میزائل ڈیفینس سسٹم کے ماہر سید محمد علی کے مطابق ابابیل اور فتح ٹو کے تجربات پاکستان کی مسلح افواج کی عسکری کارروائی اور تکنیکی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔
’وہ اس نظام پر کافی عرصے سے کام کر رہے تھے، اب وہ اِن کے قابل اعتماد ہونے کی صلاحیت کو پرکھنا چاہتے تھے۔ تکنیکی لوازمات پورے ہونے کے بعد اب وہ یہ ہتھیار فوج کے عملی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔‘
محمد علی کا کہنا ہے کہ ’اس کی ایک وجہ انڈیا میں رواں برس ہونے والے انتخابات کے ماحول میں بی جے پی کی جنگی جنونیت والی ذہنیت ہے جس کا اندازہ سرحد پار سے روز سامنے آنے والے بیانات سے ہوتا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ پاکستان انڈیا کو بتانا چاہتا ہے کہ انڈیا میں انتخابات سے قبل اپنی روایت کے مطابق وہ اگر کوئی فالس فلیگ آپریشن کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں تو پاکستان کی اس نئی فوجی صلاحیت کو ذہن میں ضرور رکھیں۔‘
جنوبی ایشیا میں ہتھیاروں کی دوڑ اپنے عروج پر
بریگیڈئیر (ر) سعد محمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہتھیاروں کی یہ دوڑ نئی نہیں بلکہ سنہ 1947 سے جاری ہے۔‘
سید محمد علی کا بھی کہنا ہے کہ ’دنیا کی عسکری قوتوں میں زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائلوں اور انھیں مار گرانے والے میزائل تیار کرنے کا مقابلہ بہت پرانا ہے۔ یہ مقابلہ جنوبی ایشیا میں دوہرایا جا رہا ہے۔‘
پاکستان اور انڈیا دونوں ممالک ایک دوسرے کی عسکری ترقی پر بہت حساس ہیں اور دونوں ممالک نے اس سلسلے میں عالمی شراکت داروں کے ذریعے مقامی ٹیکنالوجی کی صلاحیت بڑھانے میں سرمایہ کاری کی ہے تاکہ حریف ملک کی جانب سے عسکری ہتھیاروں کی تیاری میں پیشرفت سے پیدا ہونے والی صورتحال کا مقابلہ کیا جا سکے۔