’بحری جہاز ہائی جیک کرنے کی کوشش‘، امریکی بحریہ کے ہیلی کاپٹروں نے بحیرہ احمر میں حوثیوں کی کشتیاں تباہ کر دیں

اتوار کی شام کو امریکی بحریہ نے حوثیوں کی ان تین ’چھوٹی کشتیوں‘ کو تباہ کر دیا ہے، جن کے عملے نے بحیرہ احمر میں امریکی کنٹینر جہاز پر سوار ہونے کی کوشش کی تھی۔

امریکی فوج نے بتایا کہ یمن میں حوثی کنٹرول والے علاقوں سے چار جہازوں نے ’مارسک ہانگزو‘ پر فائرنگ کی اور جہاز کے کچھ میٹر کے فاصلے پر آ گئے تھے۔

قریبی امریکی جنگی جہازوں کے ہیلی کاپٹروں نے ایک ہنگامی کال موصول ہونے کے بعد پھر ان کشتیوں کو ہدف بنایا۔ امریکی بحریہ نے ’سیلف ڈیفنس‘ کی خاطر تین کشتیوں کو ہدف بنا کر سمندر برد کر دیا۔

ان کشتیوں کا عملہ مارا گیا جبکہ چوتھی کشتی علاقے سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔

حوثیوں کے ایک ترجمان نے کہا کہ جہاز نے منع کرنے کے باوجود متعدد کالز پر کوئی کسی قسم کا جواب نہیں دیا۔ ترجمان کے مطابق اس کارروائی کے نتیجے میں ان کے دس کارکن ہلاک یا لاپتہ ہو گئے۔

حوثی فورسز نومبر سے بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر حملے کر رہی ہیں۔ ان فورسز نے اہم سمندری رستے سے گزرنے والے جہازوں پر 100 سے زیادہ ڈرون اور میزائل حملے کیے ہیں۔

ایرانی حمایت یافتہ یمنی باغی گروپ نے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے حملے غزہ میں جنگ کے جواب میں اسرائیل سے منسلک جہازوں پر کیے گئے ہیں۔

یو ایس سنٹرل کمانڈ (سینٹکام) نے کہا کہ جس تجارتی جہاز کو نشانہ بنایا گیا وہ سنگاپور میں رجسٹرڈ ہے اور اس کی ملکیت ڈنمارک کی ایک فرم کے پاس ہے۔

چار حوثی کشتیوں نے یمنی وقت کے مطابق تقریباً ساڑھے چھے بجے (03:30 جی ایم ٹی) بحری بیڑے پر ہتھیاروں سے حملہ کیا۔

کنٹینر جہاز کے 66 فٹ یا 20 میٹر کے اندر پہنچ کر یہ حملہ کیا اور اس کے بعد عملے نے اس جہاز پر

سوار ہونے کی کوشش‘ کی۔ سینٹکام نے کہا کہ بحری جہاز کے عملے نے فوری ہیجانی کیفیت والی کال چلا دی اور پھر سکیورٹی ٹیم نے جوابی فائرنگ کی۔

قریبی یو ایس ایس آئزن ہاور طیارہ بردار بحری جہاز اور ’یو ایس ایس گرویلی ڈسٹرائر‘ کے ہیلی کاپٹروں نے اس کال کے جواب میں مدد فراہم کی۔ انھوں نے چھوٹی کشتیوں کو خبردار کرتے ہوئے فائرنگ کا نشانہ بنایا۔

حوثی باغی

سینٹکام نے کہا ہے کہ ہیلی کاپٹروں نے ’اپنے دفاع میں جوابی فائرنگ کی، چار چھوٹی کشتیوں میں سے تین کو سمندر میں ڈبو دیا گیا اور اس کے عملے کو ہلاک کر دیا گیا۔ سینٹکام نے مزید کہا کہ چوتھی کشتی ’علاقے سے فرار ہو گئی‘ اور امریکی اہلکاروں یا آلات کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

سنیچر کے روز جہاز کو نشانہ بنانے کے بعد 24 گھنٹوں میں ’مارسک ہانگزو‘ جہاز پر یہ دوسرا حملہ تھا۔ سینٹ کام نے کہا ہے کہ حوثیوں کے زیر کنٹرول علاقوں سے جہاز شکن میزائل داغے گئے اور پھر گرویلی اور لیبون نے جوابی حملہ کیا۔

مارسک نے کہا کہ حملہ تقریبا ساڑھے سات بجے (جی ایم ٹی) ہوا۔

انھوں نے تصدیق کی کہ ان کے جہاز کو ’نامعلوم چیز نے ٹکر ماری‘ لیکن ’طیارے پر آگ لگنے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔‘

مارسک، جو دنیا کی سب سے بڑی شپنگ کمپنیوں میں سے ایک ہے، نے بحیرہ احمر کے راستے 48 گھنٹے کے لیے جہاز رانی کو روک دیا۔

اس فرم نے کچھ دن پہلے ہی اس راستے کا استعمال دوبارہ شروع کیا تھا، جب امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے علاقے میں بحری جہازوں کی حفاظت کے لیے ایک مشن شروع کیا تھا۔

اس سے قبل اس کے بحری جہازوں نے جہاز رانی پر حالیہ حملوں کی وجہ سے ’کیپ آف گڈ ہوپ‘ کے قریب سے کافی لمبے ’رُوٹ‘ سے سفر کر رہے تھے۔

امریکی بحریہ کے ایک ایڈمرل نے اے پی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ سنیچر کے روز کا میزائل حملہ 18 دسمبر کو ’گلوبل پٹرولنگ‘ کے آغاز کے بعد پہلا کامیاب حملہ تھا۔

امریکی ادارے سینٹکام نے کہا کہ جب بحری جہاز دفاع میں مصروف تھے تو اس وقت حوثیوں کے زیر انتظام علاقوں سے امریکی بحریہ کے جہازوں پر دو اینٹی شپ میزائل داغے گئے۔

سینٹکام نے کہا کہ یو ایس ایس گرویلی نے اندر جانے والے بیلسٹک میزائلوں کو تباہ کر دیا۔ امریکہ کے مطابق 19 نومبر کے بعد سے یہ حوثیوں کا 23واں ’انٹرنیشنل شپنگ پر غیر قانونی حملہ‘ تھا۔

سینٹکام کے مطابق جس امریکی جہاز کو نشانہ بنایا گیا اس میں کوئی بھی امریکی اہلکار زخمی نہیں ہوا ہے۔

اس کے علاوہ ’یو کے میری ٹائم ٹریڈ آپریشنز‘ (یو کے ایم ٹی او) تنظیم نے یمنی بندرگاہ حدیدہ کے جنوب مغرب میں تقریباً 55 میل پر بحیرہ احمد میں ایک واقعے کے بارے میں بتایا ہے۔

تنظیم نے کہا کہ ایک نامعلوم جہاز نے ’بحری جہاز کے بندرگاہ پر زوردار دھماکوں کے بارے میں اطلاع دی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ان دھماکوں میں کوئی نقصان نہیں ہوا اور عملے کے تمام ارکان محفوظ رہے۔ بحری جہاز علاقے سے نکل کر قریبی بندرگاہ پر پہنچ گیا۔

vido
،فائل فوٹو

کئی ہفتوں کے دوران حوثیوں کے حملوں میں اضافے کی وجہ سے مارسک سمیت بہت سی شپنگ فرموں نے ’ہارن آف افریقہ‘ سے سفر کے بجائے اپنے جہازوں کو بحیرہ احمر سے رخ دور کر دیا۔

مصر میں نہر سویز تک پہنچنے کے لیے، جو بحیرہ روم سے جڑتی ہے، بحری جہازوں کو یمن میں حوثیوں کے زیر کنٹرول علاقوں کے ساحل سے بالکل دور آبنائے باب المندب سے ہر صورت گزرنا ہوتا ہے۔

ایرانی حمایت یافتہ باغیوں نے اس سے قبل غزہ میں جنگ کے جواب میں صرف ’اسرائیل سے منسلک‘ تجارتی جہازوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ حملے فلسطینیوں پر اسرائیلی حملوں کو روکنے کی کوشش ہیں۔

اتوار کے روز ایک بیان میں برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ انھوں نے ایران کے وزیر خارجہ سے کہا کہ تہران ’حوثیوں کی دیرینہ حمایت کے پیش نظر ان حملوں کو روکنے کی ذمہ داری میں برابر کا شریک ہے۔‘

امریکی خبر رساں ادارے اے پی نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں امریکی بحریہ کے وائس ایڈمرل بریڈ کوپر نے کہا کہ ایسا نہیں لگتا ہے کہ حوثی ان کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کی گئی ایک نئی میری ٹائم ٹاسک فورس کے بعد بھی اپنے ’اندھا دھند‘ حملوں کا سلسلہ ختم کر رہے ہیں۔

اس سے پہلے دسمبر میں امریکہ نے ’آپریشن پروسپیئرٹی گارڈین‘ کا آغاز کیا، جو خطے میں جہاز رانی کی حفاظت کے لیے ایک بین الاقوامی اتحاد ہے۔

وائس ایڈم کوپر نے مزید کہا کہ آپریشن شروع ہونے کے بعد سے 1200 تجارتی بحری جہاز بحیرہ احمر سے گزر چکے ہیں، جن میں سے ایک ہفتے تک کسی کو بھی ڈرون یا میزائل حملے کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔

بین الاقوامی ٹاسک فورس کے اعلان کے بعد امریکی محکمہ دفاع نے کہا کہ حوثیوں نے نومبر سے لے کر اب تک 100 سے زیادہ ڈرون اور بیلسٹک میزائل حملے کیے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان حملوں کی کوششوں میں 35 سے زیادہ مختلف ممالک سے منسلک دس تجارتی جہازوں کو نشانہ بنایا گیا۔

بحیرہ احمر دنیا کی سب سے اہم شپنگ لین میں سے ایک ہے کیونکہ یہ یورپ کی منڈیوں کو ایشیا سے جوڑتا ہے۔

تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ حملوں سے قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ یہ مشرق وسطیٰ میں پیدا ہونے والے تیل اور مائع قدرتی گیس کی ترسیل کے لیے سب سے اہم راستوں میں سے ایک ہے۔

یمن کے حوثی کتنی بڑی طاقت ہیں اور ان کے قبضے میں کتنا علاقہ ہے؟

یمن کی سرکاری حکومت صدارتی رہنمائی کونسل ہے اور سابق صدر ہادی نے اپریل 2022 میں اقتدار اس کونسل کے حوالے کیا تھا۔ یہ کونسل سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں واقع ہے۔

تاہم یمن کی اکثریتی آبادی ان علاقوں میں رہتی ہے جہاں کا قبضہ حوثیوں کے پاس ہے اور وہ ملک کے شمالی حصے میں لوگوں سے ٹیکس بھی لیتے ہیں اور اپنے کرنسی نوٹ بھی چھاپتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے حوثی تحریک کے ایک ماہر احمد البحری کا حوالہ دیا ہے، جن کا کہنا ہے کہ 2010 تک حوثیوں کے 100,000 سے 120,000 کے درمیان کارکن تھے، جو مسلح افواج اور غیر مسلح حامیوں پر مشتمل تھے۔

اقوام متحدہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ 2020 میں یمن کے حوثی باغیوں کی طرف سے بھرتی کیے گئے 1500 بچے لڑائی میں مارے گئے اور اس سے اگلے سال کئی سو مزید بچے مارے گئے۔

بحیرہ احمر کے ساتھ یمن کے ساحل کا بڑا حصہ حوثیوں کے قبضے میں ہے اور یہاں سے وہ کشتیوں پر حملے کر رہے ہیں۔

ہشام العمیسی کا کہنا ہے کہ ان حملوں نے سعودی عرب کے ساتھ حوثیوں کے موجودہ امن مذاکرات میں مدد کی ہے۔

وہ کہتے ہیں ’سعودیوں کو یہ دکھا کر کہ وہ (حوثی) دراصل بحیرہ احمر کے آبنائے، باب المندب، کو بند کر سکتے ہیں۔ وہ رعایتوں کا مطالبہ کرتے ہوئے سعودیوں پر زیادہ دباؤ ڈال رہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں