مصر اور غزہ کے درمیان ’فلاڈیلفی راہداری‘ کیا ہے اور اسرائیل اسے کیوں کنٹرول کرنا چاہتا ہے؟

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کا کہنا ہے کہ غزہ اور مصر کے درمیان سرحدی علاقہ ’فلاڈیلفی راہداری‘ اسرائیل کے زیرِ انتظام ہونی چاہیے۔

انھوں نے کہا ہے کہ اسرائیل کی غزہ میں جنگ اور اس خطے میں جھڑپیں کئی مہینوں تک جاری رہ سکتے ہیں۔

نتن یاہو نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ’فلاڈیلفی راہداری، خاص کر جنوب سے غزہ داخل ہونے کا راستہ، ہمارے کنٹرول میں ہونا چاہیے۔ اسے بند رکھا جانا چاہیے۔

’یہ واضح ہے کہ کوئی بھی دوسرا انتظام علاقے کو غیر مسلحہ کرنے کی ضمانت نہیں دے سکتا جو ہم چاہتے ہیں۔‘

مصری مبرین نے متنبہ کیا ہے کہ مصر اور غزہ کے درمیان سرحدی پٹی پر بمباری سے دونوں ملکوں کے درمیان حالات کشیدگی اختیار کر سکتے ہیں۔

اس خطے کو سکیورٹی وجوہات کی بنا پر بفر زون سمجھا جاتا ہے۔

فلاڈیلفی راہداری کیا ہے؟

مصر اور غزہ کی پٹی کے درمیان 14 کلو میٹر کا سرحدی علاقہ ہے جس کے شمال میں بحیرہ روم اور جنوب میں اسرائیلی علاقہ کرم ابو سالم ہیں۔

سنہ 1979 کے مصر-اسرائیل امن معاہدے کے تحت اس راہداری کو بفر زون قرار دیا گیا تھا اور اس کا انتظام اسرائیل کے پاس تھا۔ مگر سنہ 2005 میں اسرائیل نے یہاں سے انخلا کیا۔

اسی سال اسرائیل نے مصر کے ساتھ ’فلاڈیلفی پروٹوکول‘ پر اتفاق کیا۔ اس سے امن معاہدہ منسوخ یا اس میں ترمیم نہیں ہوئی بلکہ دونوں فریقین کی عسکری موجودگی کو محدود کیا گیا۔

پروٹوکول کے تحت مصر نے غزہ کی سرحد پر 750 اہلکار تعینات کیے۔ یہ فوجی فورس نہیں بلکہ پولیس اہلکار ہیں جن کا مقصد دہشتگردی سے نمٹنا اور دراندازی روکنا ہے۔

دو سال بعد حماس نے غزہ کی پٹی کا انتظام سنبھالا اور سرحد کے فلسطینی علاقوں کا کنٹرول لے لیا۔ غزہ پر اسرائیلی سختیوں کے ساتھ فلسطینیوں کی جانب سے راہداری عبور کر کے مصر کی جانب نقل و حرکت بڑھ گئی۔

فلاڈیلفی راہداری

اس کے بعد سے مصر نے سرحدی پٹی پر سکیورٹی سخت کر رکھی ہے۔

کئی برسوں کے دوران اس سرحدی پٹی کے زیرِ زمین سینکڑوں سرنگیں بنائی گئی ہیں۔ اس کے شمال میں سمندر، مشرق اور جنوب میں اسرائیل اور مغرب میں مصر ہیں۔

غزہ کی 23 لاکھ آبادی کے لیے یہ سرنگیں لائف لائن ثابت ہوتی ہیں جن کی مدد سے وہاں کے لوگ نقل و حرکت کر پاتے ہیں۔ غزہ میں جاری جنگ کے دوران یہ دیکھا گیا ہے کہ عسکری گروہ حماس کی فوجی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیل کو خدشہ ہے کہ رہداری کے نیچے موجود سرنگوں کی بدولت حماس کو اسلحہ فراہم کیا گیا ہے۔

گذشتہ دہائی کے دوران مصر نے اپنی شمال مشرقی سرحد میں واقع جزیرہ نما سینا عسکری عناصر کے خلاف فوجی آپریشن کیا تھا۔ اس میں غزہ کی پٹی سے مصر آتی سرنگوں کا نیٹ ورک تباہ کیا گیا تھا۔ مصری حکومت کے مطابق اس کا مقصد تھا کہ سرنگوں کی مدد سے مصر میں عسکری عناصر کی دراندازی روکی جائے۔

مصر نے بارہا حماس پر ان عسکری گروہوں کی حمایت کا الزام لگایا ہے جو مصری فورسز کو نشانہ بناتے ہیں۔ ایسا سابق مصری صدر محمد مرسی کے اقتدار سے جانے کے بعد ہوا جنھیں اخوان المسلمین کی حمایت حاصل تھے اور جن کے حماس سے اچھے تعلقات تھے۔

اس کے بعد سے سرحدی پٹی کے حالات بدلتے رہے ہیں۔ فلسطین کی طرف حماس نے سرحدی علاقوں کو بلڈوز کیا اور خاردار تاریں نصب کیں۔ جبکہ مصر نے سٹیل کی دیوار تعمیر کی اور وہاں مصری شہر رفح اور اس کے قصبوں سے گھروں اور زرعی علاقے ختم کیے تاکہ سینا کے پانچ کلومیٹر کے علاقے تک سرحدی بفر زون کی توسیع ہوسکے۔

فلسطینی اور مصری علاقوں کے بیچ مرکزی گزرگاہ رفح زمینی کراسنگ ہے۔ یہ غزہ کے رہائشیوں کے لیے باہری دنیا تک جانے کا واحد راستہ ہے۔ اسرائیلی حکام نے غزہ کی پٹی اور جنوبی اسرائیل کے درمیان تمام چھ کراسنگ بند کر رکھی ہیں۔

70 روز سے زیادہ تک سرحدی کراسنگ بند رکھنے کے بعد اسرائیل نے اتوار کو امدادی سامان کی ترسیل کے لیے کرم ابو سالم کراسنگ کھولی تھی۔

مصری حکام کے مطابق رفح کراسنگ کے فلسطینی علاقے پر اسرائیل نے چار مرتبہ بمباری کی ہے۔

فلاڈیلفی راہداری

مصر کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟

مصری انتظامیہ نے بارہا اسرائیل کو بفر زون میں فوجی آپریشن کے خلاف متنبہ کیا ہے۔ اسرائیل نے کرم ابو سالم کراسنگ پر ’غلطی سے‘ مصری اہلکاروں کو نشانہ بنایا تھا اور اس واقعے پر اسرائیل معذرت بھی کر چکا ہے۔

اسرائیل کا فلاڈیلفی راہداری کے فلسطینی علاقوں کا دوبارہ کنٹرول سنبھالنا غزہ میں جاری جنگ کے نتائج پر منحصر ہے مگر مشرق وسطیٰ میں علاقائی امور کے ماہر سمیر غطاس ان کا خیال ہے کہ اس کے لیے اسرائیل کو مصر سے سکیورٹی روابط قائم کرنے ہوں گے۔

مصرین سمجھتے ہیں کہ اس کے لیے اسرائیل اور مصر کو اپنے درمیان امن معاہدے کے نئے پروٹوکول پر اتفاق کرنا ہوگا۔ یہ ایسا ہی ایک پروٹوکول ہوگا جیسا 2005 میں جاری ہوا تھا جب 2005 میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی سے انخلا کیا تھا۔

اسرائیلی منصوبے کے باوجود مصر نے اس معاملے پر تاحال اپنا مؤقف نہیں بتایا۔ مصری تجزیہ کار خالد عکاشہ کا خیال ہے کہ سیاسی اعتبار سے موجودہ مصری انتظامیہ روایت پسند رہے گی کیونکہ اس معاملے میں اسرائیل کی حمایت کرنا ایسا ہی ہوگا کہ جیسے وہ فلسطین کے مسئلے پر کوئی سمجھوتہ کر رہا ہے۔

عکاشہ کے مطابق سرحدی پٹی کا انتظام اسرائیل کو دینے کا مطلب ہوگا کہ اسرائیل ہی رفح کراسنگ کو کنٹرول کرے گا۔ یہ واحد راستہ ہے جو فی الحال اسرائیل کے کنٹرول میں نہیں اور اس سے فلسطینیوں پر دباؤ بڑھ سکتا ہے۔

سمیر غطاس کے مطابق مصر کو خدشہ ہے کہ اگر اسرائیل کو فلاڈیلفی راہداری کا کنٹرول مل گیا تو اس سے غزہ کے رہائشیوں کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں جو کہ پہلے ہی کھلے قید میں رہنے پر رہتے ہیں۔ ’بالآخر غزہ کی پٹی کے لوگ وہاں سے نکلنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں