ایک زمانے تھا جب دنیا کے خلائی مشن کے کنٹرول رومز میں یہ جملہ بہت استعمال ہو تا تھا ’ناکامی آپشن نہیں ہے‘۔
2023 میں ایلون مسک کی سٹارشپ خلائی طیارے کے پھٹنے کے بعد ’ریپڈ انشیڈیولڈ ڈس اسمبلی‘ بہت استعمال ہونا شروع ہو گیا ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے یہ لفظ سپیس شپ ’پھٹنے‘ کی سنگینی کو کم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا اور یہ واقعہ ایک دفعہ نہیں بلکہ دو دفعہ پیش آیا۔
ایلون مسک کی کمپنی سپیس ایکس کی جانب سے تیار کیے جانے والی سپیس شپ میں تاریخ کے سب سے زیادہ طاقتور راکٹ موجود ہیں۔ اس کی لمبائی 397 فٹ جبکہ اس کی چوڑائی 29.5 فٹ ہے اور اس میں کل 39 انجن ہیں۔ اس کی لانچ کے دو مراحل ہیں اور یہ 150 ٹن وزن اور یہ 100 لوگوں کو خلا میں لے کر جا سکتی ہے اور بعد میں انھیں واپس زمین پر بھی لا سکے گی۔
سپیس ایکس کا ارادہ ہے کہ وہ سٹارشپ کا استعمال کر کے متعدد سیٹیلائٹس کو خلا میں پہنچائیں گے۔ ناسا نے اسی خلائی طیارے کا ایک اور ورژن اپنے خلابازوں کو چاند تک پہنچانے کے لیے کمیشن کیا ہے اور شاید ایک دن یہ مریخ کے پہلے مقینوں کو بھی اپنی منزل پر پہنچائے۔
لندن کی ایٹریم سپیس کنسورشیم، کمرشل سیٹیلائٹس اور لانچرز کی انشورنس کرتی ہے۔ اس کے انڈر رائٹر ڈیوڈ ویڈ کہتے ہیں ’ایسے لانچ آلات کو مکمل طور پر دوبارہ استعمال کرنے کا خیال بہت زیادہ پرجوش ہے اور اس پیمانے پر تو بہت بڑا ہے۔‘
اپریل میں امریکی ریاست ٹیکساس میں پہلے سٹارشپ کی لانچ ہوئی، راکٹ پرواز کے چار منٹ بعد تباہ ہو گیا اور اس کا ملبہ خلیج میکسیکو کے اوپر گرا جبکہ خلائی جہاز کے لانچ پیڈ کو بھی نقصان پہنچا۔
اس کے بعد اس میں ہزاروں تبدیلیاں لائی گئیں اور نومبر میں دوسری پرواز آٹھ منٹ تک رہی اور پھر یہ بھی تباہ ہو گیا۔ اس کے باوجود سپیس ایکس نے اس پرواز کو کامیاب قرار دیا۔
ڈیوڈ ویڈ کا کہنا ہے کہ سٹارشپ کی دوسری پرواز ان کی توقعات سے بہتر تھی ’وہ ناقابل یقین حد تک اچھا کام کر رہے ہیں۔‘
جب 2000 کے اوائل میں ایلون مسک نے اس کمپنی کی بنیاد رکھی تھی تو اس کمپنی نے خلائی راکٹس کے کاروبار کو بدلنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن ان کے فیلکن ون طیارے کی پرواز بھی ناکام تھی اور ان کے دوبارہ سے استعمال کرنے والے لانچرز کے خیال کے بارے میں لوگ زیادہ مثبت نہیں تھے۔
20 سال بعد ان کے کچھ راکٹس 18 بار پرواز کر چکے ہیں اور سپیس ایکس کا لانچرز کی مارکیٹ پر مکمل غلبہ ہے۔ اس کے علاوہ سپیس ایکس خلابازوں کو مسلسل اپنے ڈریگن سپیس کرافٹ سے بین الاقوامی سپیس سٹیشن تک لے کر جاتا ہے۔
سپیس کوسٹ امریکی ریاست فلوریڈا کو وہ حصہ جہاں سے ناسا اپنے خلابازوں کو خلا میں بھیجتا رہا ہے۔ ویب سائٹ سپیس اپ کلوس کے مینیجنگ ایڈیٹر جنھوں نے فلوریڈا میں ہونے والی لانچ کو بھی کوور کیا ہے، کین کریمر کہتے ہیں ’10 سال پہلے جب شٹل ریٹائر ہونے کے بعد 10 ہزار لوگوں کی ملازمت ختم ہو گئی تھی سپیس کوسٹ مر گیا تھا۔ لیکن گذشتہ چار سے پانچ سالوں میں یہ دوبارہ ٹھیک ہو رہا ہے اور سپیس کمپنیاں واپس آ رہی ہیں۔ اب یہاں رونقیں آ گئی ہیں اور یہ سپیس ایکس کی وجہ سے ہوا ہے۔‘
آج کل کیپ کنیورل سے ہفتے میں ایک بار لانچ ہوتی ہے۔ لیکن سپیس ایکس کی کامیابی اور عزم کے باوجود کین کریمر کو ناسا کے سٹارشپ کو بطور دیوہیکل قمری لینڈر کے طور پر استعمال کرنے کے منصوبے پر شک ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اس پر بہت کام کرنا پڑے گا اور یہ کافی پیچیدہ ہے۔ انھیں سیدھا لینڈ کرنا ہو گا اگر ٹیڑھا لینڈ ہوا تو خلاباز مارے جائیں گے۔ اس سے پہلے کہ ایک سٹارشپ چاند پر پہنچے 16 مرتبہ لانچ کروائی جائے گی۔‘
اور اپالو 17 کے کمانڈر جین سرنان کے آخری قدموں کے نشان چھوڑنے کے 51 سال بعد، چاند ایک بار پھر شہ سرخیوں میں ہے۔ شاید حیران کن بات یہ ہے کہ دہائیوں میں سب سے زیادہ پرجوش مشن کی قیادت روایتی خلائی سپر پاورز نے نہیں بلکہ انڈیا نے کی۔ 23 اگست کو چندریان 3 نے چاند کے جنوبی قطب پر پہنچنے والا پہلا مشن بن کر تاریخ رقم کر دی۔
ناسا کی سابق سائنسدان اور دلی میں قائم تعلیمی کمپنی سٹیم اینڈ سپیس کی شریک بانی ملا مترا کہتی ہیں ’یہ عالمی سطح پر اہمیت کا حامل تھا۔ چاند کے جنوبی قطب پر اترنا زیادہ مشکل تھا کیونکہ اس میں زیادہ گڑھے ہیں۔ تو انڈیا نے یہ ثابت کیا کہ وہ اس مشن اور اس سے متعلق ٹیکنالوجی بنا سکتا ہے اور کم خرچے پر بنا سکتا ہے۔‘
لینڈنگ کی لائیو کوریج حب الوطنی کے جذبے سے بھری ہوئی تھی، جس میں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کو لینڈر کو چاند کی سطح کو چھوتے ہی ملک کا پرچم لہراتے دکھایا گیا تھا۔ مشن روور کے چھ پہیوں پر انڈین خلائی ایجنسی اسرو کا لوگو اور نشان ابھرا ہوا تھا جس کی وجہ سے چاند کی زمین پر اس کے پہیوں نے یہ نشان چھوڑا۔
چندریان 3 پر کام کرنے والے سائنسدانوں اور انجنیئرز اس کامیابی پر فخر کر سکتے ہیں۔ صرف 14 دن کی چارجنگ کے باوجود روور نے بڑے سائنسی عمل کیے۔ اس نے چاند کی سطح پر سلفر ڈھونڈا، زلزلے کو رجسٹر کیا اور سطح اور اس سے چند سینٹی میٹر نیچے کے درمیان 60 ڈگری سینٹی گریڈ کا فرق دریافت کیا۔
مترا کہتی ہیں کہ ’یہ ممکنہ طور پر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ چاند کی سب سے اوپر کی مٹی ایک بہت اچھی انسولیٹر ہو سکتی ہے۔ یہ زیر زمین پانی تلاش کرنے کے لحاظ سے امید افزا بات ہے جو برف کی شکل میں ہو سکتی ہے۔‘
آسانی سے دستیاب برف کی موجودگی کی تصدیق سے مستقبل کے مشنز اس پانی کا استعمال کر کے ہوا کے لیے آکسیجن اور ایندھن کے لیے ہائڈروج نکال سکیں گے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ناسا چاند پر اپنے لوگوں کو دوبارہ بھیجنے کے مشن ’آرٹمس 3‘ کے لیے چاند کے قطب جنوبی پر جانا چاہتا ہے۔
1960 کے مقابلے میں روس اب خلا کے سفر کی دوڑ میں اتنا سرگرم نہیں ہے۔ چاند کے جنوبی قطب پر انڈیا کو شکست دینے کی اس کی کوشش لونا 25 چاند سے ٹکرا گئی اور اس کا سویوز خلائی جہاز بہت پرانا ہو چکا ہے۔
لیکن چین اس دوڑ میں امریکہ کے قریب آ رہا ہے۔ مئی میں چین کے تیانگونگ سپیس سٹیشن پر چھ خلاباز موجود تھے، اس سے پہلے بین الاقوامی سپیس سٹیشن میں چین کے 11 خلاباز تھے، یعنی ایک ہی وقت میں خلا میں چین کے 17 خلا باز تھے جو ایک ریکارڈ بن گیا۔ چین خاموشی سے اگلی نسل کے جدید راکٹ اور خلائی طیارے تیار کر رہا ہے۔
کین کریمر خبردار کرتے ہیں کہ ’اگر قانون ساز ناسا کا بجٹ کم کرتے رہے تو پراجیکٹ آرٹمس زیرالتوا ہو جائے گا، اس سے سٹارشپ اور بلیو اوریجن لینڈر بھی زیرالتوا ہو جائیں گے۔ چین ہم سے پہلے چاند پر پہنچ سکتا ہے، وہ ہم سے پہلے چاند کے قطب شمالی پہنچ سکتا ہے۔ اور یہ بہت برا ہو گا، بہت برا۔‘
جہاں خلا کی سفر کی دوڑ کا درجہ حرارت بلند ہو رہا ہے وہاں ہی کچھ بنیادی سوالات ہیں جو ملکوں کے بیچ سیاست کو نظرانداز کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ناسا کا اوسیرس ریکس مشن زندگی کی ابتدا کے بارے میں سراغ تلاش کر سکتا ہے۔ اس نے سیارچہ بینو سے چٹان کے نمونے اکٹھے کیے اور ستمبر میں زمین پر اس کے مواد کا ایک کیپسول واپس لایا۔
سائنس دانوں کو امید ہے کہ 500 میٹر چوڑا (1,650 فٹ) سیارچہ تقریباً 4.6 ارب سال پہلے نظام شمسی کی تشکیل کے بارے میں نئی بصیرت فراہم کرے گا اور ممکنہ طور پر یہ بھی بتائے گا کہ ہم انسان یہاں کیسے پہنچے۔
2023 کے آخری دنوں میں ناسا نے اعلان کیا ہے کہ وہ اوسیرس ریکس خلائی طیارے کو سیارچے اپوفس کا مطالعہ کرنے کے لیے ایک نئے مشن پر بھیجے گا۔
دوسری جانب یورپین سپیس ایجنسی کی ٹیلی سکوپ یوکلڈ کائنات کی فطرت کی جانچ کر رہی ہے۔ یوکلڈ کی پہلی تصویروں کو نومبر میں شائع کیا گیا جس میں تفصیل کے ساتھ آسمان کا وسیع علاقہ نظر آ رہا ہے۔
تاہم ٹیلی سکوپ استعمال کرنے والے کوسمولوجسٹس کو جو نظر آ رہا ہے اس سے زیادہ جو نہیں نظر آ رہا ہے اس میں دلچسپی ہوتی ہے۔
کائنات کا صرف پانچ فیصد حصہ ایٹمز کا بنا ہوا ہے جس کا ہم پتا لگا سکتے ہیں۔ باقی کو ہم ’ڈارک میٹر‘ یعنی تاریک مادہ اور ’ڈارک اینرجی‘ یعنی تاریک توانائی کہتے ہیں۔
ڈارک میٹر ہر چیز کو اپنی جگہ پر رکھنے میں مدد دیتا ہے اور ڈارک اینرجی وہ پراسرار توانائی ہے جس کی وجہ سے کائنات وسیع ہوتی جاتی ہے۔
برطانیہ میں واقع لنکاسٹر یونیورسٹی میں فلکی طبیعیات کے پروفیسر اسوبل ہُک کا کہنا ہے کہ ’یہ طبیعیات کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
’یہ انتہائی مایوس کن ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ یہ کیا ہے اور یقینی طور پر ڈارک اینرجی کے لیے کوئی حقیقی نظریاتی وضاحت نہیں ہے جو ہمیں قائل کر سکے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’اگر آپ صرف یوکلڈ جیسے مشن میں شامل لوگوں کی تعداد کو دیکھیں تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ کتنا اہم ہے۔ دنیا بھر میں ہزاروں لوگ اس میں شامل ہیں، جو ان سوالوں کا جواب جاننا چاہتے ہیں۔‘
اپریل میں، سائنس دانوں نے چلی میں اٹاکاما کاسمولوجی ٹیلی سکوپ کا استعمال کرتے ہوئے ڈارک میٹر کی تقسیم کا ایک نیا نقشہ تیار کیا۔ اس ٹیلی سکوپ کو اب بند کر دیا گیا ہے۔
اگلے چھ سالوں میں، یوکلڈ اربوں کہکشاؤں کا مشاہدہ کرے گا تاکہ نظر آنے والی کائنات کے کم از کم ایک تہائی کا نقشہ بنایا جا سکے۔
اگرچہ یہ گمشدہ مادے کو نہیں دیکھ سکے گا لیکن یوکلڈ یہ دیکھ کر اس کے اثر کا پتہ لگا سکتا ہے کہ اس کی کشش ثقل روشنی کو کس طرح موڑتی اور بگاڑتی ہے۔ اس رجحان کو گریویٹیشنل لینسنگ کہا جاتا ہے۔
اسوبل ہُک کہتی ہیں کہ ’ڈارک میٹر کے متعلق یہ ہمیں بتائے گا کہ وہ کہاں ہے اور اس کا نقشہ دے گا۔ ڈارک میٹر اور ڈارک اینرجی کیا ہے ہم اس کے اثرات کو دیک کر ممکنات کو دیکھیں گے۔‘
سال کا اختتام ایک ایسا وقت ہوتا ہے جب ہم اپنے پیاروں کے بارے میں سوچتے ہیں تو ایسے میں ہم دور کی دنیا میں بھیجے گئے اپنے روبوٹس کو کیسے بھول سکتے ہیں۔
کیوروسیٹی اور پریزرویرنس روور اب بھی مریخ پر اپنا کام کر رہے ہیں، جونو مشتری کے گھومتے بادلوں کی کھوج کر رہا ہے، سولر اوربٹر سورج کے قریب ہے اور شاید سب سے اہم، وائجر ون اور ٹو ہیں جو خلا کی گہرائیوں میں جا رہے ہیں اور یہ کبھی واپس نہیں آنے والے۔
جہاں تک 2024 کا سوال ہے اس سال میں ہم بے تابی سے مزید روبوٹک قمری مشنز دیکھیں گے۔ یوروپا کلپر کو مشتری کے برف سے ڈھکے چاند کے سفر پر بھیجا جائے گا اور یورپ کا نیا آرین 6 بھی اپنی اڑان بھرے گا۔
نئے سال میں دہائیوں میں سب سے زیادہ دلچسپ انسانی خلائی مشن بھی دیکھا جائے گا، وہ ہے ناسا کا آرٹیمس 2۔ آرٹیمس 2 مشن چار خلابازوں کو 21 دنوں کے لیے خلا کی گہرائی اور چاند کے گرد بھیجے گا۔
اگر یہ مشن کامیاب رہا تو اس کی مدد سے 1972 کے بعد پہلی بار انسان کے چاند کے دورے کو ممکن بنایا جا سکے گیا لیکن اس کا دارومدار سٹارسپ کی کامیابی پر ہے۔ شاید تیسری بار یہ کامیاب ہو جائے؟