سارہ شریف کے بہن بھائیوں کی تحویل کے معاملے پر پاکستانی اور برطانوی عدالتوں میں کشمکش جاری

سارہ شریف کے بہن بھائیوں کی کسٹڈی سے متعلق معاملے پر برطانیہ اور پاکستان کی عدالتوں کے درمیان پیچیدہ قانونی کشمکش جاری ہے۔

10 سالہ پاکستانی نژاد سارہ شریف اگست کے مہینے میں برطانیہ کے شہر ووکنگ میں اپنے گھر پر مردہ پائی گئی تھیں۔ اُن کے والد، سوتیلی والدہ اور چچا سارہ کے قتل میں ملوث ہونے سے انکار کرتے ہیں۔

اوور لیپنگ کیسز یعنی دو ممالک یا مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ایک ہی نوعیت کے مقدمے میں یہ فیصلہ کیا جانا ہے کہ پاکستان میں موجود سارہ کے بہن بھائیوں کو کہاں رہنا چاہیے۔

میڈیا تنظیموں کی جانب سے اس کیس سے متعلق رپورٹ کرنے کی عدالتی اجازت کے بعد اب اس معاملے کے متعلق اطلاع دی جا سکتی ہے۔

سارہ شریف کے مردہ پائے جانے کے بعد سے لندن ہائیکورٹ میں اس کیس پر سماعتوں کا سلسلہ جاری ہے۔

ان سماعتوں کے دوران سارہ کے بہن بھائیوں کو عدالت کا وارڈ بنایا گیا ہے اور عدالت نے انھیں پاکستان سے برطانیہ واپس بھیجنے کا حکم دیا ہے۔

اس فیصلے کی وجہ سے سرے کاؤنٹی کونسل نے بچوں کی برطانیہ واپسی کے عمل کو محفوظ بنانے کے لیے پاکستان کے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے۔

پاکستان اور لندن میں عدالتی کارروائیاں جاری ہیں جبکہ فی الوقت بچے پاکستان میں ہیں۔

اس کے متعلق رپورٹنگ پر پابندی عائد تھی کیونکہ لندن میں اس معاملے پر قانونی کارروائی جاری ہے لیکن بی بی سی کی صحافی لوئیس ٹِکل اور ہننا سمرز اور پی اے میڈیا کی درخواست کے بعد اس پابندی کو ہٹا دیا گیا ہے۔

سارہ کے والدین نے قتل میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے
،سارہ کے والدین نے قتل میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے

چائلڈ کیئر ہوم

سارہ شریف کے والد عرفان شریف، ان کی سوتیلی والدہ بینش بتول اور ان کے چچا فیصل ملک 10 اگست کو سارہ کے مردہ پائے جانے سے ایک دن قبل اپنے بچوں (یعنی سارہ کے پانچ بہن بھائیوں) کے ساتھ برطانیہ سے پاکستان چلے گئے تھے۔

اس کے بعد پانچ ہفتوں تک یہ بات ایک معمہ بنی رہی کہ آخر یہ خاندان کہاں موجود ہے۔ پھر اچانک پاکستان پولیس نے بچوں کے دادا محمد شریف کے گھر پر چھاپہ مارا اور بچوں کو ڈھونڈ نکالا۔

محمد شریف نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ بچے اس دن سے وہیں مقیم ہیں جب سے وہ پاکستان واپس آئے ہیں اور ان کی دیکھ بھال ان کے اہلخانہ کرتے رہے ہیں۔

ان کا ٹھکانہ معلوم ہونے کے ایک دن بعد ایک پاکستانی عدالت نے حکم دیا کہ بچوں کو پاکستان میں چائلڈ کیئر ہوم میں رہنے کے لیے بھیجا جائے۔

لیکن ان بچوں کے دادا نے پاکستان کی عدالتوں کے ذریعے بچوں کی مکمل تحویل کے لیے لڑنا شروع کیا۔ دوسری جانب سارہ کے والدہ، سوتیلی والدہ اور چچا کئی روز تک پاکستان میں روپوش رہنے کے بعد برطانیہ پہنچے جہاں انھیں گرفتار کر لیا گیا۔

اُن پر سارہ کے قتل، بچی کی موت کا سبب بننے یا اس کی اجازت دینے کا الزام عائد کیا گیا تھا لیکن تینوں نے جرم کے ارتکاب سے انکار کیا ہے۔

عبوری تحویل

19 اکتوبر کو سرے کنٹری کونسل نے لاہور ہائیکورٹ میں اپیل کی کہ انھیں ایک سے 13 سال کی عمر کے سارہ کے بہن بھائیوں کو برطانیہ واپس لانے کی اجازت دی جائے۔

لاہور ہائیکورٹ میں عدالت کا کمرہ کھچاکھچ بھرا ہوا تھا اور وہاں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی اس روز عدالت میں ان فوجداری الزامات سمیت متعدد مقدمات کی سماعت ہو رہی تھی۔

جج نے استدعا کی تھی کہ مقدمے میں مطلوب پانچوں بچے عدالت میں حاضر ہوں۔ ابتدائی طور پر کیس کی سماعت ہونے تک انھیں عقبی کمرے میں رکھا گیا تھا۔

اپنے چیمبر میں تمام فریقین سے بات کرنے کے بعد جج نے بچوں کو ان کے دادا کی عبوری تحویل میں دے دیا۔

اکتوبر سے لے کر اب تک پاکستان میں اس مقدمے سے متعلق کئی بار سماعت ہو چکی ہے اور ابھی تک بچے محمد شریف (سارہ کے دادا) کے پاس ہی ہیں۔

ان کی مستقل تحویل کا مقدمہ ابھی زیر سماعت ہے اور اس کا فیصلہ ابھی زیر التوا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں