غزہ جنگ: پناہ گزینوں کے کیمپ پر اسرائیلی بمباری میں ’کم از کم 70 شہری ہلاک‘

غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ پٹی کے مرکز میں واقع المغازی کیمپ پر ایک اسرائیلی فضائی حملے میں کم از کم 70 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

ترجمان کے مطابق اموات بڑھنے کا خدشہ ہے کیونکہ اس علاقے میں کئی خاندان مقیم تھے۔

اسرائیلی فوج نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہ بمباری کے بعد آنے والی اطلاعات کی جانچ کر رہے ہیں۔

اسرائیلی اور عرب میڈیا کے مطابق غزہ کے پڑوس میں واقع ملک مصر نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا نیا معاہدہ تجویز کیا ہے۔

بمباری کے بعد درجنوں زخمی افراد کو مغازی کے قریب الاقصیٰ ہسپتال لے جایا گیا۔ فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کچھ بچوں کے چہرے خون میں لت پت ہیں اور باہر لاشوں کے لیے کفن بچھائے گئے تھے۔

وزارت نے کہا کہ اتوار کی شب حملے میں تین گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔ ترجمان اشرف القدرہ کے مطابق بمباری سے گنجان آباد رہائشی بلاک تباہ ہوا ہے۔

ایک والد نے کہا کہ اس نے بمباری میں اپنی بیٹی اور نواسوں کو کھو دیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان کا خاندان محفوظ پناہ حاصل کرنے کے لیے شمال سے مرکزی غزہ آیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’وہ ایک عمارت کی تیسری منزل پر مقیم تھے۔ ان پر دیوار گِر گئی۔ میرے نواسے، بیٹی اور ان کا شوہر، سب ہلاک ہوگئے۔‘

’ہم سب کو نشانہ بنایا گیا۔ شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ کوئی محفوظ جگہ نہیں۔ انھوں نے ہم سے غزہ شہر چھوڑنے کا کہا۔ اب ہم مرنے کے لیے مرکزی غزہ آئے ہیں۔‘

غزہ، بمباری

فلسطینی ہلال احمر نے کہا کہ ’شدید‘ اسرائیلی بمباری کی وجہ سے المغازی اور پناہ گزینوں کے دیگر دو کیمپوں البریج اور النصیرت کے درمیان سڑک بند ہوگئی ہے۔ ’اس سے ایمبولینسوں اور ریسکیو ٹیموں کی طرف سے مدد میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔‘

بی بی سی کو دیے بیان میں اسرائیلی فوج نے کہا کہ اسے ’المغازی کیمپ کے واقعے کے حوالے سے اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔‘

’غزہ کے شہری علاقوں میں حماس کے دہشتگردوں کے آپریٹ کرنے سے پیدا ہونے والے چیلنجز کے باوجود اسرائیلی دفاعی فورسز شہری نقصانات کو کم رکھنے کے لیے ٹھوس اقدام لے گی اور بین الاقوامی قانون پر عملدرآباد کا عزم ظاہر کرتی ہے۔‘

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک جنگ میں 20 ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے ہیں جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ جبکہ 54 ہزار سے زیادہ زخمی ہیں۔ سات اکتوبر کو حماس اور دیگر فلسطینی گروہوں کے اسرائیل میں حملے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے اور قریب 240 افراد یرغمال بنائے گئے ہیں۔

اتوار کو اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے کہا کہ جنگ کی وجہ سے ان کے ملک کو ’بھاری قیمت‘ ادا کرنا پڑی ہے۔

اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ جمعے سے اتوار تک غزہ میں لڑائی کے دوران اس کے ایک درجن سے زیادہ فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ غزہ میں زمینی آپریشن کے آغاز سے اب تک مجموعی طور پر 154 اسرائیلی فوج ہلاک ہوچکے ہیں۔

اس حوالے سے سنیچر سب سے خطرناک دنوں میں سے ایک تھا۔ تاہم نتن یاہو نے کہا کہ لڑائی جاری رکھنے کے سوا ’کوئی راستہ نہیں۔‘

غزہ

اطلاعات کے مطابق مصر کی جانب سے تجویز کیے گئے جنگ بندی کے نئے معاہدے کا اطلاق تین حصوں میں ہوگا:

  • جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں سات سے 10 روز تک لڑائی میں وقفہ ہوگا تاکہ انسانی امداد کی کارروائیاں ممکن ہوسکیں۔ اس دوران حماس اسرائیلی جیلوں میں قید کچھ فلسطینیوں کی رہائی کے لیے تمام یرغمالیوں کو رہا کرے گا۔
  • دوسرا مرحلہ ایک ہفتہ طویل ہوگا۔ اس دوران حماس تمام اسرائیلی خواتین فوجیوں کو رہا کرے گا اور اس کا تبادلہ مزید قیدیوں اور سات اکتوبر سے زیرِ تحویل لاشوں سے ہوگا۔
  • تیسرا حملہ ایک ماہ طویل ہوگا جس میں بقیہ یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔ اسرائیل غزہ کی پٹی سے انخلا کرے گا اور تمام فضائی کارروائیاں روک دے گا۔

اس حوالے سے مصر میں قطری اور امریکی نمائندوں کی موجودگی میں مذاکرات ہوں گے۔

اخبار معاريف کو اسرائیلی ذرائع نے بتایا کہ مصری کوششوں کی بدولت بات چیت ہوسکتی ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ اس کی جانب سے تجاویز پر غور کیا جا رہا ہے۔

دریں اثنا پوپ فرانسس نے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی اپیل کی ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کے حوالے سے پوپ نے کہا کہ ’عیسیٰ کا امن کا پیغام جنگ کی دلیلوں سے غرق کیا جا رہا ہے، وہ بھی اس جگہ جہاں وہ پیدا ہوئے۔‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں