ثانیہ مرزا نے جمعہ کی شام ایک جذباتی سوشل میڈیا پوسٹ پوسٹ کی جس میں انھوں نے لکھا کہ وہ اپنے پیشہ ورانہ کیریئر کا الوداعی نوٹ لکھ رہی ہیں۔
آسٹریلین اوپن ڈبلز کے ڈراز آئندہ چند روز میں جاری کیے جائیں گے۔ اس سے ثانیہ مرزا کے پیشہ ورانہ کیریئر کے آخری مرحلے کا آغاز خواتین کے ڈبلز مقابلوں میں قازقستان کی انانا ڈینیلینا اور مکسڈ ڈبلز میں روہن بوپنا کے ساتھ ہو گا۔
گزشتہ سال جنوری میں ثانیہ نے اعلان کیا تھا کہ 2022 ان کا آخری سیزن ہو گا لیکن وہ پٹھوں میں چوٹ کی وجہ سے آخری گرینڈ سلیم میں حصہ نہیں لے سکیں۔
ایسے میں ان کی ریٹائرمنٹ کا منصوبہ کچھ مہینوں کے لیے ملتوی کر دیا گیا تھا اور اب انھوں نے دو ٹورنامنٹس میں شرکت کے بعد کھیل کو الوداع کہنے کا اعلان کیا ہے۔
آسٹریلین اوپن کے بعد ثانیہ مرزا 19 سے 25 فروری تک دبئی ڈیوٹی فری ٹینس چیمپئن شپ میں بھی شرکت کریں گی۔
میلبورن اور دبئی، یہ ٹینس ٹور کے دو مراکز ہیں اور ساتھ ہی گزشتہ تین دہائیوں کے دوران ثانیہ کے سپورٹس کیریئر کی عکاسی کرتے ہیں۔
ثانیہ مرزا کو ہم نے 18 سال پہلے میلبورن میں دیکھا تھا جب وہ ٹھیک 18 سال کی ہی عمر میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ تیسرے راؤنڈ میں ثانیہ سرینا ولیمز کو شاٹ سے جواب دے رہی تھیں۔
اس وقت یہ بھی دیکھا گیا تھا کہ ان کے فارہینڈ شاٹس کسی بھی دوسری انڈین خاتون کھلاڑی سے زیادہ جارحانہ ہیں۔
ثانیہ کا کمال
ان کے مختصر سکرٹس اور بولڈ پیغامات والی ٹی شرٹس بھی ان کی پہچان بنیں۔
ثانیہ ٹاپ لیول پر ٹینس کھیل رہی تھیں۔ ثانیہ نے وجے امرتراج (سب سے زیادہ رینکنگ 18ویں) اور رمیش کرشنن (سب سے زیادہ رینکنگ 23ویں) کے بعد انڈیا کی ٹاپ کھلاڑی بننے کا کارنامہ بھی دکھایا۔
رمیش کرشنن کے 22 سال بعد ثانیہ ٹاپ 30 کھلاڑیوں میں جگہ بنانے والی پہلی انڈین کھلاڑی بن گئیں۔ اس کے بعد 16 سال گزر چکے ہیں اور ثانیہ ٹینس کورٹ میں موجود ہیں۔
27 اگست 2007 کو ثانیہ دنیا کی 27ویں رینکنگ کھلاڑی بن گئیں۔ انھوں نے حیدرآباد میں منعقدہ ڈبلیو ٹی اے ٹائٹل جیتا اور تین بار ڈبلیو ٹی اے کے فائنل میں پہنچی۔
اگلے چار سالوں تک وہ دنیا کی ٹاپ 35 کھلاڑیوں میں شامل رہیں اور اس کے بعد اگلے چار سالوں تک ان کا شمار دنیا کی ٹاپ 100 کھلاڑیوں میں ہوتا رہا۔ لیکن گھٹنے اور کلائی کی چوٹوں نے ان کے سنگلز کیریئر کا خاتمہ کر دیا۔
لیکن اس کے بعد ثانیہ نے ڈبلز ٹینس میں مزید سرخیاں حاصل کیں۔
کئی ٹائٹل جیتے
ڈبلز ٹینس میں انھوں نے 43 ڈبلیو ٹی اے ٹائٹل جیتے اور 2015 میں دنیا کی نمبر ایک کھلاڑی بننے کا کارنامہ بھی انجام دیا۔ انھوں نے چھ گرینڈ سلیم ٹائٹل بھی جیتے۔
ثانیہ نے مکسڈ ڈبلز میں تین گرینڈ سلیم حاصل کیے جب کہ مارٹینا ہنگس کے ساتھ مل کر اسی سال ومبلڈن، یو ایس اوپن اور آسٹریلین اوپن ٹائٹل جیتے۔
43 ڈبلیو ٹی اے ٹائٹل جیتنے کے علاوہ ثانیہ 23 بار ڈبلیو ٹی اے ڈبلز کے فائنل میں پہنچی ہیں۔ یہاں تک کہ 2022 میں، انھوں نے جمہوریہ چیک کی لوسی ہراڈیکا کے ساتھ کلے کورٹس پر دو ڈبلیو ٹی اے فائنلز میں بھی حصہ لیا۔
ثانیہ اگلے ماہ اپنے کیریئر کا آخری میچ دبئی میں کھیلیں گی جہاں وہ اپنا زیادہ تر وقت اپنے بیٹے اور شوہر (پاکستانی کرکٹر شعیب ملک) کے ساتھ گزارتی ہیں۔
میلبورن سے دبئی کا سفر منظم نظر آتا ہے لیکن یہ ثانیہ کی شخصیت کے بالکل برعکس ہے۔ کیونکہ اپنے کیریئر میں انہیں وقتاً فوقتاً کئی تنازعات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
انڈین ٹینس کی پہلی سپر اسٹار
انھیں انڈین ٹینس کی پہلی خاتون سپر سٹار کہا جاتا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیڈمنٹن کھلاڑی ثائنہ نہوال انڈین کھیلوں کی دنیا کی پہلی خاتون سپر سٹار تھیں۔
چونکہ ٹینس ایک بین الاقوامی کھیل ہے، اس لیے ثانیہ کی مقبولیت ثائنہ نہوال سے زیادہ بڑھی۔
دو دہائیاں قبل ثانیہ اپنے دور کی انڈین خواتین کھلاڑیوں سے بہت مختلف تھیں۔ وہ نئی نسل کی ایتھلیٹ تھی، پراعتماد، بے باک، بے خوف۔
میں نے پہلی بار 2005 میں انڈیا ٹوڈے میگزین کے لیے ان کا انٹرویو کیا۔
اس وقت انھوں نے کہا تھا کہ ’کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان لڑکیوں کو منی سکرٹ نہیں پہننا چاہیے، جب کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کمیونٹی کو تم پر فخر ہے۔‘
ثانیہ کو جو کرنا تھا، وہ دو دہائیوں سے کر رہی ہے۔ خاص طور پر ثانیہ کے تیز رفتار فور ہینڈ شاٹس، جن کی یاد دیر تک رہے گی۔
تنازعات کا سایہ
ان کے شاٹس کا تاثر انڈین ٹینس کی تاریخ میں انمٹ رہے گا۔ ہم نے ثانیہ مرزا کو ’سوسائٹی‘ جیسے میگزین کے صفحات پر بھی دیکھا ہے کیونکہ وہ ٹینس کی کھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سپر سلیبریٹی بھی ہیں۔
لیکن ثانیہ مرزا کو ان کی سب سے بڑی خاصیت کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے جمعہ کو ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے اپنی جذباتی پوسٹ میں بھی اس کا ذکر کیا ہے۔
ثانیہ جب چھ سال کی تھیں تو حیدرآباد کے نظام کلب کورٹ کے کوچ سے ان کی لڑائی ہو گئی کیونکہ کوچ ان کو عمر میں بہت چھوٹا سمجھتا تھا۔
ٹینس کورٹ میں مقابلے کے دوران ثانیہ کا انداز بالکل مختلف ہوتا تھا۔ جب میچ مشکل ہو جاتا تو ثانیہ اپنے بال باندھ لیتی اور دباؤ پڑنے پر کورٹ میں لڑنے کے لیے تیار ہو جاتی۔
اور ٹینس کورٹ کے باہر، وہ اس قسم کی عورت تھی جسے بتایا جا رہا تھا کہ کیسے رہنا ہے۔ جنھیں بلا ضرورت کئی تنازعات کا سامنا کرنا پڑا۔ جو قدامت پسندی سے ایسے ناقابل یقین طریقے سے لڑ رہی تھی کہ ان کو باڈی گارڈز کے ساتھ چلنا پڑا۔ لیکن دو دہائیوں تک ثانیہ پیچھے نہیں ہٹیں۔
اس لیے جب وہ اپنا آخری میچ کھیلتی ہیں تو ان کو سب کی حمایت ملنی چاہیے۔
اپنے کھیل کے کیریئر اور زندگی کے دوران، ثانیہ نے انڈین کھیلوں، خواتین کھلاڑیوں، مرد ہم منصبوں اور ان لاکھوں لوگوں کے لیے جنھوں نے ان کے کھیل اور جدوجہد کو دیکھا، کے لیے تاریخ رقم کی۔