انڈیا کی مشرقی ساحلی ریاست اوڈیشہ (اڑیسہ) کے شہر بلانگیر میں واقع دیسی شراب کی فیکٹری میں انکم ٹیکس کی جانب سے مارے گئے چھاپے میں مجموعی طور پر 285 کروڑ روپے کی کرنسی برآمد ہوئی ہے۔
یہ چھاپہ گذشتہ بدھ کو مارا گيا تھا اور برآمد ہونے والی نقدی کی گنتی پانچ روز تک جاری رہی۔ اسی کیس سے جڑی ایک اور کارروائی کے دوران دو بینکوں کے لاکرز سے بڑی مقدار میں سونے کے زیورات بھی برآمد ہوئے ہیں۔ انڈین سٹیٹ بینک کے منیجر بھگت بہیرا کے مطابق یہ لاکرز انڈیا میں شراب کے کاروبار سے منسلک معروف تاجر سنجے ساہو کی ملکیت ہیں۔
محکمہ انکم ٹیکس کی ٹیموں نے کچھ مزید علاقوں میں بھی چھاپے مارے گئے جن کے دوران مزید 48 کروڑ روپے کی نقدی برآمد کی گئی ہے۔
محکمہ انکم ٹیکس کے مطابق ان چھاپوں میں اب تک 333.50 کروڑ روپے برآمد کیے گئے ہیں
یہ نہ صرف اوڈیشہ کی تاریخ کا سب سے بڑا ’کیش ہال‘ ہے بلکہ پورے ملک میں انکم ٹیکس کے چھاپے میں ملنے والی یہ سب سے بڑی رقم بھی بتائی جارہی ہے۔ اس معاملے پر انڈیا میں سیاست جاری ہے اور انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے بھی اس معاملے پر ٹویٹ کی ہے جبکہ سوشل میڈیا پر بھی اس کے چرچے ہو رہے ہیں۔
یہ تمام چھاپے جھارکھنڈ کے راجیہ سبھا (ایوان بالا کے رکن پارلیمان) رکن دھیرج کمار ساہو اور ان کے خاندان سے منسلک کمپنیوں اور مختلف مقامات پر مارے گئے ہیں۔
نوٹ گنتے گنتے مشینیں خراب ہو گئیں
برآمد ہونے والی تمام تر نقدی کو 176 بوریوں میں بھرا گیا۔ یہ نقدی 500، 200 اور 100 روپے کے نوٹوں کی شکل میں ہے اور ان میں بہت سے پرانے اور خستہ حال نوٹ بھی تھے۔
اس سبب سٹیٹ بنک کے 50 سے زائد ملازمین نوٹ گنتی کرنے والی 25 مشینوں کی مدد سے دن رات پیسے گننے میں لگے رہے اور انھیں کل رقم گننے میں پانچ دن لگ گئے۔
نوٹوں کی گنتی میں مصروف ملازمین نے بتایا کہ پرانے نوٹوں کی وجہ سے مشینیں کئی بار خراب ہوئیں اور کئی بنڈلوں کو ہاتھ سے گننا پڑا۔
نوٹوں پر دھول کی تہہ جمی تھی جس کی وجہ سے گنتی کے دوران ملازمین ماسک پہنے ہوئے بھی نظر آئے۔
اب چھاپے میں ملنے والی نقدی کی گنتی ختم ہو چکی ہے۔ لیکن چھاپہ مار کارروائیوں کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا۔
پوچھ گچھ کے دوران سود پاڑا بھٹہ کے مینیجر بنٹی اور ایک اور ملازم سے ملی اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ روز منگل کے دن بھی کئی دیگر مقامات پر چھاپے مارے گئے ہیں۔ اس لیے خیال کیا جا رہا ہے کہ مزید نقدی برامد ہو سکتی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ اوڈیشہ کے ساتھ ساتھ جھارکھنڈ اور مغربی بنگال کے کئی مقامات پر بھی محکمہ انکم ٹیکس نے چھاپے مارے تھے۔ لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ بنگال اور جھارکھنڈ میں چھاپوں میں کتنی رقم برآمد ہوئی ہے۔
تین ریاستوں میں 30 سے زیادہ مقامات پر بیک وقت چھاپہ مار کارروائیوں میں محکمہ انکم ٹیکس کے 100 سے زیادہ افسران شامل تھے۔
ساہو خاندان اور شراب کا کاروبار
شراب بنانے کے ایک کارخانے سے اتنی بڑی رقم کی برآمدگی نے اڈیشہ کے لوگوں کو حیران کر دیا ہے۔ لیکن ریاست کے دیسی شراب کے کاروبار کے ساتھ دھیرج ساہو کے خاندان کا پرانا اور گہرا رشتہ رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ رشتہ تقسیم ہند سے تقریباً 90 سال قبل شروع ہوا تھا جب لوہردگا کے تاجر رائے صاحب بلدیو ساہو (دھیرج ساہو کے والد) نے ریاست بلانگیر کے اس وقت کے بادشاہ سے دوستی کی تھی۔
بادشاہ نے انھیں اپنی سلطنت میں دیسی شراب کی دکان کھولنے کی اجازت دی تھی۔ شاہی خاندان کی حوصلہ افزائی سے ساہو خاندان نے ایک کے بعد ایک دیسی شراب بنانے کے کارخانے کھولنے شروع کر دیے اور اپنے کاروبار کو بڑھانا شروع کر دیا۔
آج صورتحال یہ ہے کہ ضلع میں 62 میں سے 46 شراب کے بھٹے اس خاندان کی ملکیت ہیں۔ یہ سلسلہ آزادی کے بعد بھی جاری رہا۔ ساہو خاندان کی شراب کی سلطنت بالانگیر سے مغربی اڈیشہ کے دیگر علاقوں تک پھیلنے لگی۔
دوسرے اضلاع جیسے کالاہنڈی، نواپاڑا، سمبل پور، سندر گڑھ میں دیسی شراب کے کاروبار کا ایک بڑا حصہ آہستہ آہستہ ساہو خاندان کے قبضے میں آ گیا۔
وقت کے ساتھ ساتھ بلدیو ساہو اینڈ سنز نے دیسی شراب کے ساتھ غیر ملکی شراب کے کاروبار میں بھی قدم رکھا۔
اس کے لیے انھوں نے ایک ذیلی کمپنی بودھ ڈسٹلری پرائیویٹ لمیٹڈ (بی ڈی پی ایل) قائم کی۔
ریاست کے انگریزی شراب کے کاروبار سے وابستہ ذرائع کے مطابق یہ کمپنی شراب بنانے کے لیے درکار 80 فیصد سپرٹ ریاست کے 18 انڈین میڈ فارن لیکر (آئی ایم ایف ایل) کے بوٹلنگ پلانٹس کو فراہم کرتی ہے۔
نہ صرف اوڈیشہ کے بلکہ مغربی بنگال اور جھارکھنڈ سمیت مشرقی ہندوستان کی زیادہ تر ریاستوں میں زیادہ تر بوٹلنگ پلانٹ بھی سپرٹ کے لیے بی ڈی پی ایل پر انحصار کرتے ہیں۔
سپرٹ کی فراہمی کے علاوہ بی ڈی پی ایل ایکسٹرا نیوٹرل الکوحل’ یا ای این اے بھی تیار کرتا ہے، جو غیر ملکی شراب جیسے وہسکی، ووڈکا اور جن بنانے کے ساتھ ساتھ پینٹ، روشنائی اور کاسمیٹکس بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ ان کے پاس دو دیگر کمپنیاں ہیں جنھیں ساہو خاندان کے افراد چلاتے ہیں۔ ان میں سے ایک ‘کشور پرساد وجے پرساد بیوریجز پرائیویٹ لمیٹڈ’ ہے جو آئی ایم ایف ایل کے بہت سے برانڈز فروخت اور تقسیم کرتی ہے اور دوسرا ‘کوالٹی بوٹلرز پرائیویٹ لمیٹڈ’ ہے جو انگریزی شراب کی بوٹلنگ کرتا ہے۔
اتنا پیسہ کہاں سے آیا؟
بی ڈی پی ایل سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ یہ ساری رقم صرف شراب کے کاروبار سے آئی ہے۔
اس شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا: ’مہوا کے پھولوں کا استعمال دیسی شراب بنانے میں کیا جاتا ہے۔ اور جنگل سے مہوا اکٹھا کرنے والے قبائلیوں کو ڈیجیٹل ادائیگی کے بارے میں نہیں معلوم، اس لیے انھیں نقد رقم ہی ادا کی جاتی ہے۔ اسی طرح 60 روپے میں جو دیسی شراب ایک ایک بوتل خریدتا ہے وہ بھی صرف نقد ادائیگی کرتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ یہ کہنا غلط ہے کہ ضبط کی گئی رقم کا شراب کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ یہ کاروبار نقدی رقم کا ہے اس لیے اس میں اتنی بڑی رقم کا ملنا کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’2019 میں بھی ساہو خاندان کے اثاثوں چھاپہ مارا گیا تھا اور تقریباً 35 کروڑ روپے نقد ضبط کیے گئے تھے، لیکن بعد میں اس نقدی کے ذرائع اور اس کے استعمال کا مکمل پتہ لگانے کے بعد محکمہ انکم ٹیکس کو یہ رقم ساہو خاندان کو واپس کرنی پڑی تھی۔‘
لیکن ساہو خاندان کے شراب کی اتنی بڑی سلطنت چلانے کے باوجود کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں ہے کہ برآمد ہونے والی ساری نقدی شراب کے کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی ہے۔
بلانگیر میں دیسی شراب کے کاروبار پر گہری نظر رکھنے والے ایک شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’دیسی شراب پینے والے شخص کے پاس صرف 100 یا 200 روپے کے نوٹ ہوں گے لیکن یہاں ضبط شدہ رقم کا ایک بڑا حصہ 500 روپے کے نوٹوں کی شکل میں ملا ہے۔ ظاہر ہے یہ کالا دھن تھا جو شاید آئندہ انتخابات میں استعمال ہونے والا تھا۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا: ’ساہو برادران کمپنی نہ صرف تمام سیاسی پارٹیوں اور مقامی حکام کے نمائندوں کو چندہ دے رہی ہے، بلکہ یہاں ہر اجتماعی کام جیسے مذہبی پوجا، کھیل یا دیگر اجتماعی تقریبات میں بھی کھلے دل سے پیسہ خرچ کرتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سب کچھ جاننے کے باوجود اس بارے میں آج تک کسی نے منہ نہیں کھولا ہے۔‘
لوہردگا اور رانچی سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ساہو خاندان وہاں بھی اجتماعی کاموں کے لیے کافی رقم خرچ کرتا رہا ہے اور ضرورت مند لوگوں کی مدد بھی کرتا ہے۔
سوشل میڈیا پر کانگریس اور بی جے پی کے درمیان ٹاکرا
جس دن سے انکم ٹیکس کے چھاپے مارے گئے ہیں اس دن سے سوشل میڈیا پر مسٹر ساہو ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ اور اس معاملے پر جہاں بی جے پی جارحانہ نظر آ رہی ہے وہیں کانگریس بظاہر بیک فٹ پر ہے۔
بی جے پی نے اپنے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) ہینڈل سے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں ملنے والی رقم کو دکھایا گیا ہے اور اس کا انھوں نے ’کانگریس کی پیسے کی لوٹ کی پیشکش‘ عنوان دیا ہے۔
اس کے جواب میں انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے کانگریس پارٹی پر نشانہ لگاتے ہوئے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’انڈیا میں کس کو ’منی ہیسٹ‘ کے افسانے کی کیا ضرورت ہے جب آپ کے پاس کانگریس پارٹی ہے، جس کی ڈکیتی کی کہانی 70 سال سے جاری ہے!اس کے جواب میں کانگریس کی رہنما ڈاکٹر شمع محمد نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا: ’کس کو ’منی ہیسٹ‘ افسانے کی ضرورت ہے جب انڈیا کے وزیر اعظم خود سرکاری ملازمین کو ایک نجی فنڈ میں عطیہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں جب قوم کووڈ سے لڑ رہی تھی، تو اسی فنڈ میں مشکوک چینی کمپنیوں سے عطیات قبول کیے گئے اور پھر جمع فنڈز کے متعلق جوابدہی دینے سے انکار بھی ہے!
جبکہ کانگریس کے ترجمان جے رام رمیش نے جواب میں لکھا ہے کہ ملک آپ سے سنہ 1947 سے ہونے والے ’منی ہیئسٹ‘ کے بارے میں جاننا چاہتا ہے۔
انھوں نے لکھا ہے کہ ’آپ کے قریبی دوست اڈانی درآمد شدہ کوئلے اور بجلی کے آلات کی قیمتیں بڑھا کر انڈیا سے 17,500 کروڑ روپے باہر لے جاتے ہیں۔ اور پھر وہ آف شور شیل کمپنیوں کے ذریعے مزید 20,000 کروڑ روپے واپس انڈیا لاتے ہیں اور سیبی کی نظروں میں اپنے سٹاک کی قیمتیں بڑھاتے ہیں۔‘
انگریسی اور مصنف سنجے جھا نے لکھا کہ ’منی ہیسٹ جیسا ملینیئل مذاق کیا گیا ہے۔ واقعی؟ تو پھر الیکٹرول بونڈز، اڈانی گروپ، نوٹ بندی، نیرو مودی، للت مودی، میہل چوکسی، رافیل، اے اے، 40 فیصد سرکار وغیرہ کے بارے میں بتائیے۔ بھائی فہرست بہت لمبی ہے۔‘
بی جے پی کا ای ڈی اور سی بی آئی تحقیقات کا مطالبہ
جھارکھنڈ بی جے پی یونٹ کے ترجمان پرتل شاہ دیو کا دعویٰ ہے کہ برآمد شدہ نقدی کالا دھن ہے۔
انھوں نے جھارکھنڈ کے دارالحکومت رانچی سے فون پر بی بی سی کو بتایا: ’ان کی کمپنی کی بیلنس شیٹ کے مطابق ان کے تمام کاروبار کا سالانہ ٹرن اوور 120 کروڑ روپے ہے، پھر ان کے یہاں سے اتنی بڑی رقم کیسے مل سکتی ہے؟‘
’دھیرج ساہو کے بڑے بھائی گوپال کئی سالوں تک جھارکھنڈ کانگریس کے خزانچی رہے ہیں۔ لیکن ہمیں لگتا ہے کہ دھیرج پوری کانگریس پارٹی کے غیر سرکاری خزانچی بھی ہیں اور ضبط کی گئی رقم کانگریس کے کالے دھن کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ اس لیے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس پورے معاملے کی ای ڈی اور سی بی آئی سے جانچ کرائی جائے۔ یہ معلوم کیا جانا چاہیے کہ کیا یہ منی ٹریل کانگریس ہائی کمان تک پہنچتی ہے؟‘
جبکہ کانگریس کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی کا دھیرج ساہو کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
پارٹی کے ترجمان جے رام رمیش نے سوشل میڈیا پر کہا: ’صرف وہی بتا سکتے ہیں اور انھیں یہ بھی واضح کرنا چاہیے۔ انھیں اس بات کی بھی وضاحت کی جانی چاہیے کہ انکم ٹیکس حکام کے ذریعہ ان کے مقامات سے اتنی بڑی رقم مبینہ طور پر کیسے برآمد کی جارہی ہے۔‘
چھاپے میں بھاری رقم کی برآمدگی کے بعد جہاں بی جے پی جارحانہ نظر آرہی ہے وہیں کانگریس دفاعی انداز میں نظر آرہی ہے کیونکہ ساہو خاندان کے ساتھ پارٹی کا رشتہ بہت پرانا ہے۔
ساہو خاندان اور کانگریس کے درمیان تعلقات
رائے صاحب بلدیو ساہو شراب کے کاروبار میں جانے والے خاندان کے پہلے فرد تھے اور وہ کانگریس پارٹی کے زبردست حامی تھے۔
ملک کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد اور وزیر اعظم اندرا گاندھی سمیت کانگریس کے کئی بڑے لیڈروں کی ساہو خاندان نے مہمان نوازی کی ہے۔
لوہردگا کے پرانے باشندوں کا کہنا ہے کہ سنہ 1958 میں جب ڈاکٹر راجندر پرساد وہاں آئے تھے تو انھیں بلدیو ساہو کی کار میں لے جایا گیا، جو پورے علاقے میں واحد کار تھی۔
اسی طرح جب اندرا گاندھی 1984 میں اپنی موت سے چند ماہ قبل رانچی کے میسرا میں منعقدہ انڈین سائنس کانگریس میں شرکت کے لیے آئیں تو وہ شہر کے ریڈیم روڈ پر واقع ساہو برادرز (سشیلا نکیتن) کے پرتعیش بنگلے میں ٹھہری تھیں۔
دھیرج کے سب سے بڑے بھائی شیو پرساد ساہو (اب متوفی) کانگریس کے ایک بااثر رہنما اور رانچی سے دو بار رکن پارلیمنٹ تھے۔
دھیرج، چھ بھائیوں میں سب سے چھوٹے، فی الحال تیسری بار راجیہ سبھا کے رکن ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ سنہ 2018 میں راجیہ سبھا انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی داخل کرتے ہوئے انھوں نے اپنے حلف نامے میں کہا تھا کہ ان کی کل اثاثہ جات 34.83 کروڑ روپے ہیں۔
اس میں منقولہ جائیداد کا حصہ 2.04 کروڑ روپے ہے۔
حلف نامے میں انھوں نے صرف 27 لاکھ روپے بطور ’کیش ان ہینڈ‘ ظاہر کیے تھے۔
اس لیے ان کے ذریعے چلائی جانے والی کمپنیوں کے احاطے سے سیکڑوں کروڑ روپے کی نقدی کی وصولی بہت سارے سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ ان سوالات کے جوابات تفتیشی اداروں کی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی مل سکیں گے۔