عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ غزہ میں اب صرف ایک تہائی ہسپتال عارضی طور پر فعال ہیں۔ دوسری طرف فیشن برانڈ زارا کا کہنا ہے کہ اسے ’افسوس‘ ہے کہ اس کی ایک تشہیری مہم کی تصاویر کو غزہ جنگ سے جوڑا گیا۔
ڈبلیو ایچ او کے رچرڈ پیپرکورن نے بتایا کہ ’صرف 66 دنوں میں غزہ میں صحت عامہ کا نظام 36 فعال ہسپتالوں سے سکڑ کر 11 عارضی فعال ہسپتالوں پر آچکا ہے۔ ان میں سے صرف ایک شمال میں جبکہ 10 ہسپتال جنوب میں ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم مزید طبی سہولیات یا ہسپتالوں میں کمی برداشت نہیں کر سکیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ دوبارہ نہیں ہوگا۔‘
رچرڈ پیپرکورن نے کہا کہ غزہ کے ہسپتالوں میں بستروں کی قلت دور کرنے کی ضرورت ہے اور مجموعی طور پر نظام کو ’فعال کرنا ہوگا‘۔
انھیں موجودہ صورتحال پر تشویش ہے مگر وہ امید کرتے ہیں کہ ’صحت کے کمزور انفراسٹرکچر کو باقی رکھنے کی کوشش ہو رہی ہے تاکہ بعد میں ہم اسے وسعت دے سکیں۔‘
دریں اثنا اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر بمباری جاری رکھی ہوئی ہے جس دوران اس کی توجہ جنوبی شہر خان یونس پر مرکوز ہے۔ مصری سرحد رفح کے قریب بھی فضائی حملے جاری ہیں۔ حماس کے اہلکار کا کہنا ہے کہ اس دوران 22 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
امریکہ نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل پر زور ڈالے گا کہ عام شہریوں کی زندگی کو مزید تحفظ فراہم کیا جائے۔ امریکی محکمۂ خارجہ کے ایک اہلکار نے کہا کہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے مزید اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ ’اسرائیل کی حکمت عملی کی جیت اس وقت ہوگی جب وہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرے اور طویل مدتی امن کے لیے کام کرے۔‘
اقوام متحدہ میں فلسطینی پناہ گزین کی ایجنسی کے سربراہ نے خیموں کا دورہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کے لوگوں کے لیے ’جہنم‘ جیسے حالات پیدا ہوچکے ہیں۔ ان کے مطابق خطے میں امدادی سامان کی ترسیل رُک چکی ہے۔
خیال رہے کہ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں 18 ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ حماس کے اسرائیل پر سات اکتوبر کے حملے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ 240 افراد کو یرغمالی بنا لیا گیا تھا۔
زارا کو اپنی تشہیری مہم پر ’افسوس‘
معروف فیشن برانڈ زارا کو ’افسوس‘ ہے کہ اس کی ایک تشہیری مہم سے ’غلط فہمی‘ نے جنم لیا۔ اس مہم کی بعض تصاویر پر اس لیے تنقید کی جا رہی تھی کیونکہ یہ غزہ میں جاری جنگ سے ملتی جلتی ہیں۔
برطانیہ میں اشتہارات کی نگرانی کرنے والی ادارے کو اس حوالے سے کئی شکایات موصول ہوئیں جبکہ اس پر سوشل میڈیا پر بھی تنقید کی گئی جس کے بعد زارا نے اس مہم کی تمام تصاویر حذف کر دی ہیں۔
زارا کی اس مہم کا نام ’جیکٹ‘ تھا۔ اس میں ماڈلز کو پتھروں، تباہ حال پتلوں اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار پلاسٹک بورڈ کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر بعض صارفین نے کہا کہ یہ تصاویر غزہ کی صورتحال سے ملتی جلتی ہیں۔
ایک تصویر میں ماڈل نے سفید پلاسٹک میں لپٹے پتلے کو اُٹھایا ہوا ہے۔
تاہم زارا نے کہا ہے کہ اس مہم کا مقصد وہ نہیں تھا جو بعض صارفین نے اخذ کیا۔ ’یہ مہم جولائی میں بنائی گئی اور اس کی تصاویر ستمبر میں کھینچی گئیں۔‘
زارا کا مؤقف ہے کہ ’یہ تصاویر ایک مجسمہ ساز کے سٹوڈیو میں کھینچی گئیں جہاں کئی نامکمل مجسمے تھے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ کپڑوں کی تیاری کے عمل کو آرٹ کے ماحول سے جوڑا جائے۔‘
خیال رہے کہ اس سے قبل ایم اینڈ ایس نامی برانڈ پر فلسطینی پرچم کے رنگوں میں ایک کرسمس پارٹی کی تصویر پر تنقید کی گئی تھی۔ ایم اینڈ ایس نے بھی معذرت کر کے تصاویر ہٹا دی تھیں۔