صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں 12 دسمبر کی صبح قریب تین بجے درابن کے علاقے میں چھ حملہ آوروں نے بارود سے بھری گاڑی ایک تھانے کی عمارت سے ٹکرائی جہاں سکیورٹی فورسز کے اہلکار تعینات تھے۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کا کہنا ہے کہ اس خودکش حملے میں 23 فوجیوں کی ہلاکت ہوئی ہے جبکہ جوابی کارروائی میں چھ دہشتگرد مارے گئے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق ’چھ دہشتگردوں‘ نے درابن میں سکیورٹی فورسز کی پوسٹ پر حملہ کیا، ان کے اندر داخلے کی کوشش کو ناکام بنایا گیا جس کے بعد ’دہشتگردوں نے بارود سے بھری گاڑی عمارت کی دیوار سے ٹکرائی اور خودکش دھماکہ کیا۔‘
آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’دھماکوں کے نتیجے میں عمارت گِر گئی اور اس سے 23 فوجی اہلکار ہلاک ہوگئے جبکہ جوابی کارروائی میں تمام چھ دہشتگرد ہلاک ہوئے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ تھانے کے ساتھ واقع سکول کی عمارت کو بھی دھماکے سے شدید نقصان پہنچا ہے۔
اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم تحریکِ جہاد پاکستان نے قبول کی ہے۔ سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں تنظیم کے ترجمان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یہ حملہ ’مولوی حسن گنڈا پور نے کیا ہے جہاں ان کے ساتھ حملہ آور تھانے کے اندر داخل ہو گئے تھے۔‘
میانوالی ایئربیس پر حملہ
ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ ماضی قریب میں کسی حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان یا دولت اسلامیہ کے بجائے ایک نئے شدت پسند گروہ تحریکِ جہاد پاکستان نے قبول کی ہو۔
نومبر میں پاکستان کے شہر میانوالی کی ایئربیس پر شدت پسندوں کے جس حملے میں تین جہازوں کو نقصان پہنچا تھا اس میں بھی اسی تنظیم کا نام سامنے آیا تھا۔
اس سے پہلے مئی میں بھی پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے مسلم باغ میں ایف سی کیمپ پر حملے کی ذمہ داری اسی تنظیم نے قبول کی تھی۔
اس حملے کے بارے میں آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق حملہ آور جدید اسلحہ سے لیس تھے اور ڈیرہ حملے کے بعد تنظیم کی جانب سے کارروائی کی جو مبینہ ویڈیو جاری کی گئی اس میں بھی حملہ آوروں کو اندھیرے میں دیکھنے کی صلاحیت والی عینکیں اور سنائپر بندوقیں استعمال کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ ایک ایسی تنظیم ہے جس کے بارے میں حکام اوریہاں تک کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے عہدیدار بھی ماضی قریب تک یا تو کچھ نہیں جانتے تھے یا شاید بتانے سے گریزاں رہے۔
اکثر تجزیہ کار اسے ایک پراسرار تنظیم قرار دے رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس تنظیم کے ترجمان ان حملوں کی ذمہ داریاں تو قبول کرتے ہیں لیکن وہ اپنی تنظیم کے خدوخال کے بارے میں کچھ نہیں بتاتے۔
یہ تنظیم اس سے پہلے چمن، بولان، سوات کے علاقے کبل اور لکی مروت میں حملوں کی ذمہ داریاں بھی قبول کر چکی ہے لیکن ان میں کم از کم دو حملے ایسے ہیں جن میں اس تنظیم کی موجودگی کے شواہد نہیں ملے تھے۔
یہ تنظیم کب اور کیسے سامنے آئی؟
اس تنظیم کا نام چند ماہ پہلے ہی سامنے آیا جب اس تنظیم نے صوبہ بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں سکیورٹی فورسز پر حملے کی ذمہ داری پہلی بار قبول کی تھی۔
سینیئر صحافی اور خراسان ڈائری کے ڈائریکٹر نیوز احسان اللہ ٹیپو نے اس بارے میں بتایا تھا کہ اس سال فروری میں انھیں ٹیلی فون پر پیغام موصول ہوا تھا جو بظاہر کسی یورپی ملک کے نمبر سے تھا۔
’کال کرنے والے شخص نے اپنا نام ملا محمد قاسم بتایا اور کہا کہ انھوں نے ’تحریک جہاد پاکستان‘ کے نام سے تنظیم کی بنیاد رکھی ہے لیکن اس تنظیم کے بارے میں مزید کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس کے دو دن بعد موبائل فون پر ایک میسج آیا جس میں کہا گیا کہ بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر حملے کی ذمہ داری وہ اپنی تنظیم کی جانب سے قبول کرتے ہیں۔
پاکستان، افغانستان اور وسطی ایشیا میں شدت پسندی اور اس سے جڑے مسائل پر گہری تحقیق کرنے والے تجزیہ کار عبدالسید نے بی بی سی کو بتایا کہ ’تحریک جہاد پاکستان‘ اب تک ایک پراسرار تنظیم ہے جس کی قیادت، ارکان اور وجود کے کوئی شواہد نہیں۔
بعض صحافیوں کو بھیجے گئے مختصر تحریری پیغامات کے ذریعے اس تنظیم کے قیام کا اعلان کیا گیا اور ایک سوشل میڈیا اکاؤنٹ یا کچھ صحافیوں کو تحریری پیغامات بھیج کر شدت پسند حملوں کی ذمہ داریاں قبول کی گئی ہیں۔
اب تک اس تنظیم کے سربراہ و ترجمان کے نام متعارف کیے گئے ہیں لیکن ان کے ماضی یا حقیقی کردار ہونے سے متعلق کوئی شواہد نہیں۔
اس تنظیم کے ترجمان اپنا نام ملا محمد قاسم لکھتے ہیں، جنھوں نے صحافیوں کی درخواست اور کوشش کے باوجود اب تک کسی سے بات نہیں کی اور فقط تحریری پیغامات بھجوائے ہیں۔
حملوں کی ذمہ داری میں کتنا سچ، کتنا ابہام؟
پاکستان میں اب تک سات ایسے حملے ہوئے ہیں جن کی ذمہ داری اس تنظیم کے ترجمان نے قبول کی ہے۔ ان حملوں میں سے دو حملے ایسے ہیں جن میں اس تنظیم کے ملوث ہونے کے شواہد نہیں ملے تھے۔
ان میں ایک حملہ بولان میں اس سال مارچ کے مہینے میں پولیس کی گاڑی کے قریب ہوا تھا جس میں ایک شہری سمیت نو اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ تحریک جہاد پاکستان نے اس کی ذمہ داری قبول کی لیکن کوئی تفصیل نہیں بتائی۔
اس کے بعد داعش نے اپنے ویب پیچ ’عماق‘ پر اس حملے کی تفصیل جاری کرتے ہوئے ذمہ داری قبول کی تھی۔
اس کے بعد اپریل میں خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں کبل کے مقام پر انسداد دہشت گردی کے تھانے میں دھماکے ہوئے تھے جس میں 17 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اس حملے کی ذمہ داری بھی تحریک جہاد پاکستان نے ایک پیغام کے ذریعے قبول کی تھی لیکن اس کے بعد تحقیقات سے معلوم ہوا کہ یہ دھماکے تھانے کےاندر پڑے ہوئے بارودی مواد سے ہوئے تھے اور باہر سے کسی حملہ آور کے آنے کے شواہد نہیں ملے تھے۔
اس کے علاوہ اپریل ماہ خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت میں پوسٹ گریجویٹ کالج پر حملہ ہوا تھا، جس میں جدید اسلحہ استعمال کیا گیا تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری بھی ’تحریک جہاد پاکستان‘ کے ترجمان ملا محمد قاسم نے قبول کی اور کہا تھا کہ یہ حملہ ان کے کمانڈر ابوذر نے کیا تھا۔
تنظیم کے بارے میں طالبان کی رائے
اس بارے میں سرکاری سطح پر مکمل خاموشی ہے۔ چند ماہ قبل بھی جب محکمہ انسداد دہشت گردی کے حکام سے اس بارے میں رابطے کی کوشش کی گئی لیکن تو انھوں نے اس تنظیم کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔
سرکاری ذرائع کا کا کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ اس تنظیم کا، کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان یا القاعدہ وغیرہ سے تعلق ہو۔ ذرائع نے بتایا کہ اس تنظیم میں کون لوگ ہیں، یہ کسی کو نہیں بتایا گیا۔
کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان محمد خراسانی نے بھی اس بارے میں بتایا تھا کہ انھیں اس تنظیم کے بارے میں کوئی معلومات نہیں اور وہ خود اس تنظیم کے لوگوں سے رابطے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
اسی بارے میں اپنے آپ کو ٹی ٹی پی ژوب کے علاقے کا عہدیدار ظاہر کرنے والے خالد سر بکف مہمند نے بتایا تھا کہ اس طرح کی کوئی تنظیم وجود نہیں رکھتی بلکہ یہ صرف سوشل میڈیا (فیس بک) کی حد تک موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی تنظیم ہوتی تو ان کے عہدیدار ہوتے، کوئی سربراہ ہوتا، کوئی تنظیمی ڈھانچہ ہوتا، صرف حملوں کی ذمہ داری لینے سے کوئی تنظیم نہیں بن جاتی۔‘
تجزیہ کاروں کے لیے غیر واضح صورتحال
پشاور میں سینیئر صحافی مشتاق یوسفزئی کا کہنا تھا کہ اس تنظیم کے بارے میں کوئی واضح معلومات تو نہیں لیکن ان کی معلومات اور ملنے والی اطلاعات کے مطابق یہ تحریک طالبان پاکستان سے ہی جڑے لوگ ہیں اور اسی تنظیم کا دوسرا نام ہو سکتا ہے۔
’طالبان جن حملوں کی ذمہ داری نہیں لینا چاہتے وہ اس تنظیم کے نام سے قبول کرا لیتے ہیں۔ اس خطے میں کسی دوسری تنظیم کے وجود کے آثار نظر نہیں آتے اور ان علاقوں میں جس طرح کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں وہ طریقہ بھی ٹی ٹی پی سے ہی ملتا جلتا ہے۔‘
تحقیق کار اور صحافی عبدالسید کا کہنا ہے کہ اس تنظیم کے حملوں کی ذمہ داری سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تحریک طالبان پاکستان کا کوئی ہمدرد گروپ ہے یا اس کا کوئی خفیہ منصوبہ ہے۔
’مثلاً اس نے اب تک صوبہ خیبر پختوانخوا کے ضلع لکی مروت اور بلوچستان کے ژوب ڈویژن میں دو بڑے حملوں کا دعویٰ کیا جہاں پر تحریک طالبان کا آپریشنل نیٹ ورک موجود ہے مگر تحریک طالبان نے اس تنظیم یا اس کی کارروائیوں پر کسی تشویش یا ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ اگرچہ یہ اس کے لیے خطرہ سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ ان تنظیموں کی تاریخ و سیاست بتاتی ہے کہ یہ اپنے کسی حریف کو باآسانی برداشت نہیں کرتے۔‘
’اسی طرح دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ یہ بڑی نوعیت کے حملے تھے، جو یقیناً کسی بڑی منظم تنظیم کی ہی کارروائیاں معلوم ہوتی ہیں۔‘
تحقیق کارعبدالسید کا کہنا تھا کہ دوسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ تحریک جہاد پاکستان نے بلوچستان میں تحریک طالبان کی حریف عالمی شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ کی پاکستان شاخ یا داعش پاکستان کے خودکش حملہ کی ذمہ داری قبول کی جس کا بظاھر مقصد داعش کے دعوے کو کمزور دکھانا تھا مگر اب تک تحریک جہاد پاکستان نے تحریک طالبان کے کسی ایسے حملے سے متعلق ذمہ داری قبول نہیں کی۔
احسان اللہ ٹیپو محسود کا کہنا ہے کہ ان کی نظر میں اب تک اس تنظیم کے نام سے جو ذمہ داریاں قبول کی گئی ہیں ان میں ابہام پایا جاتا ہے اور اس کے لیے جو پیغامات کی حد تک اس تنظیم سے رابطہ ہوا، اس بارے میں کوئی ٹھوس جواب اب تک نہیں ملا۔
عبدالسید کا ماننا ہے کہ مستبقل قریب میں اس بات کا اندازہ ہو جائے گا کہ تحریک جہاد پاکستان کی حقیقت کیا ہے کیونکہ اگریہ تحریک طالبان کی خفیہ تنظیم ہے تو یقیناً یہ تعلق زیادہ عرصہ پوشیدہ نہیں رہ سکتا اور یہ اگر تحریک طالبان کے اندر سے ہی کسی بغاوت یا اس کا مدمقابل کوئی نیا گروپ ہے تو وہ بھی جلد واضح ہو جائے گا۔