پاکستان کی غیر یقینی معاشی اور سیاسی صورتحال اور عوام: ’دعا کرتے ہیں کل کے کھانے کا کوئی راستہ مل جائے‘

یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور آصف مسیح ہر روز اس فکر کے ساتھ بیدار ہوتے ہیں کہ وہ اپنے خاندان کے سات افراد کا پیٹ کیسے بھریں گے۔

آصف مسیح نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم خدا سے صرف یہ دعا کرتے ہیں کہ ہمیں کل کے کھانے کا کوئی راستہ مل جائے۔‘

45 سالہ آصف مسیح ایک اندازے کے مطابق ان سات لاکھ مزدوروں میں شامل ہیں جنھوں نے حالیہ برسوں میں بحران سے متاثرہ پاکستان میں کپڑے کی تقریباً 1,600 فیکٹریوں کے بند ہو جانے کے بعد اپنی ملازمتیں کھو دی ہیں۔

یہ ملک کی ٹیکسٹائل فیکٹریوں کا ایک تہائی حصہ ہے جو ملک کی کل برآمدی آمدنی میں 60 فیصد حصہ ڈالتی ہیں۔

رواں سال کے شروع میں عالمی فیشن برانڈز کے لیے کپڑے بنانے والی فیکٹری میں ملازمت سے ہاتھ دھونے کے بعد آصف مسیح نے مزدوری کرنا اور آٹورکشہ چلانا شروع کیا۔

لاہور کے صنعتی علاقے یوحنا آباد میں ایک کمرے کے نیم روشن اپارٹمنٹ میں رہنے والے آصف مسیح اور ان کی اہلیہ شمیم آصف نے بتایا کہ روز مرہ کی اشیا ضروریہ کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ان پر اور ان کے پانچ بچوں پر کیسے اثر انداز ہو رہی ہیں۔ یہ جوڑا اپنی تین بیٹیوں اور دو بیٹوں کا پیٹ پالنے کے لیے مقررہ وقت سے زیادہ گھنٹے کام کرتا ہے اور ان کے بچوں میں سے کوئی بھی سکول نہیں جاتا۔

آصف مسیح بتاتے ہیں کہ ’ہم بس کسی طرح اپنے روزانہ کے اخراجات 500 پاکستانی روپے (پونے دو امریکی ڈالر) میں چلاتے تھے۔ اب حالات بدل گئے ہیں۔ صرف ایک وقت کے کھانے کے لیے ہمیں 1500 روپے درکار ہیں۔‘

ان کی اہلیہ نے مزید بتایا کہ ’ہماری کمائی اتنی نہیں ہے کہ ہم ڈھنگ کا کھانا کھا سکیں تو ہم اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کا خرچ کیسے اٹھا سکتے ہیں؟‘

کراچی میں بجلی بل میں اضافے کے خلاف احتجاج
،کراچی میں بجلی بل میں اضافے کے خلاف احتجاج

آصف مسیح پاکستان کے جاری معاشی بحران سے متاثر ہونے والے لاکھوں افراد میں سے ایک ہیں اور ملک کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف سے ایک اور بیل آؤٹ پیکج مل رہا ہے۔

یہ سنہ 1958 کے بعد سے 23 واں بیل آؤٹ ہے۔ بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق معیشت کی ’نازک صورت حال‘ کے پیش نظر نگراں وزیر خزانہ شمشاد اختر نے آئی ایم ایف سے اضافی قرض لینے کی بات کہی ہے۔

ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، جنوری میں توانائی کی قیمتوں میں مزید اضافے کے امکان اور فروری میں عام انتخابات کے پیش نظر پاکستان کے معاشی افق پر مزید غیر یقینی کی صورتحال ہے۔

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور ٹرانسپورٹ کا گڑھ بھی ہے۔ وہاں کے صنعت کاروں نے چار دسمبر کو دھمکی دی ہے کہ اگر حکومت گیس کے نرخوں میں غیرمعمولی اضافے کو واپس نہیں لیتی تو وہ پیداوار مکمل طور پر بند کر دیں گے۔

توانائی اور دیگر ضروری اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے بعد بہت سے پاکستانی پہلے ہی اضافی آمدنی حاصل کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ یہ جزوی طور پر آئی ایم ایف کی قرض دینے کی شرائط کا نتیجہ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے حکومت کو توانائی کی سبسڈی ختم کرنا پڑی۔

افراط زر کی سطح جون میں ریکارڈ 38 فیصد تک پہنچنے کے بعد نومبر میں یہ 29 فیصد تک گر گئی ہے۔ حالیہ برسوں میں، گندم کا آٹا، گوشت اور چاول جیسی ضروری اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کئی بار دگنے سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

اس صورتحال کو ماہر اقتصادیات اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے غریبوں اور محنت کش طبقے کے لیے ’تباہ کن‘ قرار دیا ہے۔

اگرچہ یوکرین کی جنگ، کووڈ وبا کے بعد معیشت کی سست بحالی اور توانائی کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ نے عالمی سطح پر زندگی گزارنے کی لاگت کو متاثر کیا ہے اور پاکستان میں کپڑے کی 1,600 فیکٹریوں کو بند کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے اپنے بھی مسائل ہیں۔

اپریل سنہ 2022 میں ایک سیاسی بحران اس وقت پیدا ہو گیا جب اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے معزول کر دیا گیا۔ جس کے بعد کئی مہینوں تک احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں اور معاشی سرگرمیاں بھی مفلوج رہیں لیکن اب ملک میں ایک نگراں حکومت آئندہ انتخابات تک انچارج ہے۔

گذشتہ سال مون سون کے موسم میں تباہ کن سیلاب نے بھی 1,700 سے زائد افراد کی جان لے لی اور زرعی اراضی کے وسیع رقبے کو متاثر کیا۔ ورلڈ بینک کے تخمینے کے مطابق اس سیلاب کے کل نقصان اور اقتصادی لاگت تقریباً 30 ارب ڈالر تھی۔

اس دوران پاکستان میں اسلامی شرعی قانون کا سخت ورژن نافذ کرنے کے خواہشمند عسکریت پسندوں کے حملوں اور خودکش بم دھماکوں کے سلسلے کے ساتھ سکیورٹی کے بحران کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔

اپنے متنوع، وسیع جغرافیائی خطے اور نوجوان آبادی کی وجہ سے پاکستان سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش ملک ہونا چاہیے، خاص طور پر لباس یا آٹوموبائل مینوفیکچرنگ پر مبنی صنعتوں کے لیے لیکن موجودہ سیاسی عدم استحکام کے علاوہ پڑوسی ملک افغانستان میں کئی دہائیوں سے جاری تنازعات نے بھی ملک کو متاثر کیا ہے اور لاکھوں افغان مہاجرین نے سرحد عبور کر کے پاکستان میں پناہ لی ہے۔

مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کا تاثر باقی دنیا میں بہت اچھا نہیں ہے۔ امن و امان کے حوالے سے اس کے امیج کا مسئلہ ہے اور یہ بھی کہ یہ کاروبار کرنے کے لیے یہ سازگار ملک نہیں ہے۔‘

قرضوں کی ادائیگی اور درآمدات کے بڑھتے ہوئے بل کے ساتھ رواں سال کے شروع میں اس کے مرکزی بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر تین بلین ڈالر سے نیچے آگئے جو ایک ماہ کی درآمدات کی ادائیگی کے لیے بھی کافی نہیں تھے۔

مہینوں تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد اسلام آباد بالآخر جولائی میں آئی ایم ایف سے تین ارب امریکی ڈالر کی ہنگامی فنڈنگ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے اتحادیوں نے بھی پاکستان کی غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کو بڑھانے میں مدد کی ہے۔

آئی ایم ایف کے قرض دینے کے پروگرام کے جائزے سے پہلے نگراں حکومت نے اکتوبر میں زیادہ تر گھرانوں اور صنعتوں کے لیے قدرتی گیس کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ کیا، تاکہ سرکاری گیس کے نقصانات کو کم کیا جا سکے۔ مثال کے طور پر نصف سے زیادہ گھریلو صارفین کے لیے ایک مقررہ محصول جو 10 روپے ماہانہ ہوا کرتا تھا اسے بڑھا کر 400 روپے کر دیا گیا ہے۔

سوپر مارکیٹ جلدی بند ہو رہے ہیں
،پاکستان میں بجلی کے نرخوں میں کئی گنا اضافہ

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن نارتھ زون کے چیئرمین کامران ارشد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہماری بجلی کی قیمتیں بھی دوگنی ہو گئی ہیں۔ وہ فیکٹریاں جو پیداوار کی بڑھتی ہوئی لاگت کو برداشت نہیں کر پا رہی ہیں، بند ہو رہی ہیں اور جس کے نتیجے میں ہزاروں ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں۔‘

جاری معاشی بدحالی اور روزگار کے مواقع کی کمی نے ہزاروں لوگوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا اور بہت سے لوگوں نے کچھا کھچ بھری کشتیوں میں ناہموار سمندروں میں خطرناک اور غیر قانونی طور پر سفر کیا۔ ایسے ہی ایک سفر کے دوران جون میں جنوبی یونان کے قریب تارکین وطن سے بھرا ایک ٹرالر الٹنے سے سینکڑوں پاکستانی ہلاک ہو گئے تھے۔

ڈیلاویئر یونیورسٹی میں معاشیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر صابرین بیگ نے کہا: ’حکومت نے اپنے شہریوں کا اعتماد کھو دیا ہے۔ معاشی صورت حال سنگین ہے۔ اس لیے لوگ باہر نکلنے کے لیے بہت زیادہ خطرہ مول لینے کو تیار ہیں۔‘

ایک دہائی قبل جب پاکستان شمال مغرب میں اسلام پسند عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ لڑ رہا تھا تو چین کے علاوہ دوسرے ممالک کے سرمایہ کار محتاط تھے۔ چین نے اس دوران پاکستان کی معیشت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ یہاں تک کہ وہ پاکستان کو اپنا ’آہنی بھائی‘ کہتا ہے جو ان کی قربت کی علامت ہے۔

چین نے اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے تحت چین-پاکستان اقتصادی راہداری پر 60 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اس کا آغاز اس نے سنہ 2015 میں کیا تھا۔ یہ بحیرہ عرب میں پاکستانی بندرگاہ گوادر کو چین کے شمال مغربی علاقے سنکیانگ سے ہائی ویز، ریلوے اور پائپ لائنوں کے جال کے ذریعے ملاتا ہے۔

امید ہے کہ چین کی سب سے بڑی بیرون ملک سرمایہ کاری کا یہ منصوبہ پاکستان کی معیشت کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہوگا۔ لیکن تجزیہ کار اس بارے میں تذبذب کا شکار ہیں کہ کیا اس کے بعد سرمایہ کاری سے چینی قرضوں کی ادائیگی کے لیے کافی آمدنی ہو گی۔ آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ پاکستان چین کا 30 ارب ڈالر کا مقروض ہے۔

پروفیسر بیگ نے کہا کہ ’چین کی سرمایہ کاری امید افزا ہے۔ لیکن ہم ادھار کے فنڈز سے انفراسٹرکچر کی تعمیر کر رہے ہیں اور اس لیے شاید ہم خود کو مشکلات سے دوچار کر رہے ہیں۔‘

بہر حال آہنی بھائی کی حمایت کے باوجود فروری کے انتخابات کے بعد جو بھی نئی حکومت اقتدار سنبھالے گی اس کے سامنے معیشت کو بحال کرنے کا بڑا کام ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں