جیسے ہی گاڑی جنوبی دہلی کی ایک مصروف سڑک پر ایک ازبک دکان سامنے سے گزری، افروزہ ان فلیٹس کی طرف جانے والی سڑکوں کی یاد تازہ کرنے لگیں جہاں انھیں کبھی یرغمال بنا کر رکھا گیا تھا۔
افروزہ، ازبکستان کے شہر اندیجان سے ہیں، جو جنوری 2022 میں دہلی آئی تھیں۔ انسانی سمگلر انھیں دبئی اور نیپال کے راستے دہلی لائے تھے۔
یہاں انھیں مختلف فلیٹوں اور ہوٹلوں میں رکھا گیا اور سیکس ورکر بننے پر مجبور کیا گیا۔
انھیں اگست 2022 میں دہلی پولیس اور غیر سرکاری تنظیم ’ایمپاورنگ ہیومینٹی’ کی مہم کے بعد رہائی دلائی گئی۔
افروزہ تب سے ایک این جی او کی نگرانی میں رہ رہی ہیں اور ان انسانی سمگلروں کے خلاف قانونی جنگ لڑ رہی ہیں جو انھیں ازبکستان سے دہلی لائے تھے۔
افروزہ کو گھروں کے نمبر تو یاد نہیں تھے لیکن اپنی یادداشت پر زور دینے، کئی گلیوں سے گزرنے اور کئی بار اپنا راستہ کھونے کے بعد، آخر کار وہ دہلی کے علاقے نیب سرائے میں اس اونچی عمارت کے پاس جا کھڑی ہوئیں، جہاں انھیں پہلی مرتبہ لایا گیا تھا۔
ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ بھاری سانسیں لے رہی تھیں۔ لیکن چند منٹوں کے بعد آنکھوں کی یہ نمی غصے میں بدل گئی۔ تیز قدموں سے کئی سیڑھیاں چڑھ کر وہ اس فلیٹ کے دروازے کے باہر پہنچ گئیں جہاں انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
افروزہ کہتی ہیں کہ ’جب مجھے یہاں لایا گیا تو پانچ لڑکیاں پہلے سے ہی موجود تھیں۔ ازبکستان سے مجھے پہلے دبئی، پھر وہاں سے نیپال اور پھر سڑک کے ذریعے دہلی لایا گیا۔ میں تھکی ہوئی تھی اور مجھے دو دن آرام کرنے دیا گیا۔
’مجھے شاپنگ کے لیے لے گئے، چھوٹے کپڑے تحفے کے طور پر لے کر دیے۔ دو دن کے بعد مجھے سیکس کرنے پر مجبور کیا گیا۔ جب میں نے انکار کیا تو مجھے مارا پیٹا گیا۔
افروزہ کہتی ہیں کہ ’دہلی پہنچنے کے بعد میں نے صرف پہلے دو دن آرام کیا، اس کے بعد مجھے ایک دن بھی سکون سے نہیں بیٹھنے دیا گیا۔ کبھی فلیٹ میں رکھا تو کبھی ہوٹل میں۔‘
ہر سال انسانی سمگلر وسطی ایشیا سے سینکڑوں لڑکیوں کو نوکریوں کے بہانے نیپال کے راستے انڈیا لاتے ہیں اور انھیں سیکس ورک پر مجبور کرتے ہیں۔
بہت سی لڑکیوں کو میڈیکل ویزوں اور سیاحتی ویزوں پر بھی لایا جاتا ہے۔
عدالت میں دیے گئے بیان کے مطابق افروزہ سے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ کیا گیا اور دبئی میں نوکری کی پیشکش کی گئی۔ انسانی سمگلروں کو اس کی بیمار ماں اور خاندان کی خراب مالی حالت کا کسی طرح علم تھا۔
افروزہ کہتی ہیں کہ ’میں نے دبئی میں ملازمت کی پیشکش قبول کر لی۔ دہلی پہنچنے تک مجھے معلوم نہیں تھا کہ مجھے اس کام کے لیے لایا گیا ہے۔ اگر مجھے ذرا سا بھی احساس ہوتا تو میں کبھی نہ آتی۔‘
افروزہ جیسی خواتین کی ’باقاعدہ فراہمی‘ اور استحصال کرنے والوں، دلالوں اور انسانی اسمگلروں کے منظم نیٹ ورک کے ذریعے غیر قانونی سیکس ورک کو سہولت فراہم کی جاتی ہے۔
انسانی سمگلنگ کے خلاف کام کرنے والے ہیمنت شرما پوچھتے ہیں کہ ’یہ ایک بڑا سوال ہے کہ غیر قانونی طور پرانڈیا میں داخل ہونے اور ویزا ختم ہونے کے بعد بھی رہنے کے باوجود یہ لوگ پولیس اور تفتیشی ایجنسیوں کی نظروں سے کیسے دور رہتے ہیں؟‘
وسطی ایشیا سے سمگل ہونے والی لڑکیوں کو ایک بڑا چیلنج درپیش ہے کہ وہ نہ تو انڈیا کی مقامی زبانیں بولتی ہیں اور نہ ہی یہاں کسی کو جانتی ہیں۔
انسانی سمگلنگ کا شکار ہونے والی لڑکیوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کے پاسپورٹ چھین لیے گئے تھے اور انھیں ’جیل بھیجنے‘ کی دھمکی دی گئی تھی۔
افروزہ کو انڈیا لانے والی مبینہ انسانی سمگلر عزیزہ شیر، جنھیں کئی دوسرے ناموں سے بھی جانا جاتا ہے، اگست 2022 میں دہلی پولیس کی کارروائی کے بعد فرار ہو گئی تھیں۔
ایک طویل آپریشن کے بعد دہلی پولیس نے ترکمانستان سے تعلق رکھنے والی عزیزہ شیر اور ان کے افغانستان نژاد شوہر شیرگیت افغان کو گوا سے گرفتار کیا۔
پولیس کی تفتیش میں عزیزہ کے کئی دیگر ناموں سے بنے بھارتی شناختی کارڈ اور بینک اکاؤنٹس بھی سامنے آئے۔
مشرقی دہلی کی ڈی سی پی امریتا گولیگوتھ کا کہنا ہے کہ ’عزیزہ ایک اشتہاری مجرم ہیں، دہلی پولیس انھیں پکڑنے کی ایک سال سے کوشش کر رہی تھی۔ ہماری ٹیم کو تکنیکی نگرانی اور انسانی انٹیلیجنس کے ذریعے گوا میں ان کی موجودگی کی اطلاع ملی۔ ’انھیں ایک آپریشن کے بعد گرفتار کر لیا گیا تھا۔‘
اس مہم میں شامل میور وہار تھانے کے اسسٹنٹ ایس ایچ او پرمود کمار اور ان کی ٹیم نے 200 سے زیادہ فون نمبروں کو ٹریک کیا اور آخر کار عزیزہ شیر تک پہنچ گئے۔ ان انسانی سمگلروں کو پکڑنے کے لیے پولیس کو اپنے انٹیلیجنس نیٹ ورک کی مدد بھی لینی پڑی۔
افروزہ صرف عزیزہ کا واحد شکار نہیں ہیں۔ ان جیسی اور بہت سی لڑکیوں کو عزیزہ کے چنگل سے چھڑایا گیا ہے۔
تہمینہ ان میں سے ایک ہیں۔ سال 2020 میں دہلی آنے والی تہمینہ کو بھی نوکری کا لالچ دے کر بلایا گیا۔ لیکن یہاں پہنچنے کے بعد انھیں سیکس ورکر بننے پر مجبور کیا گیا۔
تہمینہ کا ایک ویڈیو بھی دہلی پولیس کی تحقیقات کا حصہ ہے۔ اس ویڈیو میں تہمینہ کو بری طرح پیٹا جا رہا ہے۔ یہ ویڈیو اگست 2022 سے پہلے کی ہے اور پولیس کی تفتیش کے دوران سامنے آئی۔
اس ویڈیو کی تصدیق کرتے ہوئے تہمینہ کہتی ہیں کہ ’میں باس عزیزہ کے چنگل میں بری طرح پھنس چکی تھی۔ ایک بار ایک اچھا گاہک میرے پاس آیا اور میں نے اس سے درخواست کی مجھے ان کے چنگل سے نکالے۔
وہ میری مدد کے لیے عزیزہ شیر کے پاس گیا۔ اس کے بعد مجھے بری طرح مارا پیٹا گیا اور ویڈیو بنائی گئی۔ یہ ویڈیو دوسری لڑکیوں کو دکھائی گئی تاکہ وہ بھی ڈر جائیں۔
ان دنوں تہمینہ کے خلاف گروگرام کی عدالت میں فارنرز ایکٹ (بغیر ویزے کے انڈیا میں رہنے) کے تحت مقدمہ درج ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ دلال نے ان کے خلاف یہ مقدمہ درج کروایا تاکہ وہ انڈیا میں پھنسی رہیں۔
عزیزہ شیر کی گرفتاری کے بعد تہمینہ کو کچھ سکون ملا ہے۔ اس سے پہلے وہ ہر وقت خوف زدہ رہتی تھیں۔
تہمینہ کہتی ہیں کہ ’اس نے مجھے ہمیشہ خوفزدہ رکھا، اس سے میں اتنی ڈری رہی کہ میں اب بھی خوف میں مبتلا ہوں۔‘
سیکس ورک کی وجہ سے تہمینہ کی صحت بگڑ گئی اور انھیں اپنی بچہ دانی کا آپریشن کرانا پڑا۔ تہمینہ کا کہنا ہے کہ جب وہ ہسپتال میں تھیں تو انھیں اکیلا چھوڑ دیا گیا اور مکمل طور پر صحت یاب ہونے سے پہلے ہی دوبارہ کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔
تہمینہ اور افروزہ جیسی لڑکیوں کو بعض اوقات ایک دن میں چھ سے نو گاہکوں کے ساتھ سیکس کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔
بی بی سی نے سمگلروں اور دلالوں کی ڈائریوں کے صفحات دیکھے ہیں جو چارج شیٹ کا حصہ ہیں۔ ان میں ان لڑکیوں کے کام کا حساب بھی ہے اور روزانہ لاکھوں کی کمائی کا بھی۔
ان لڑکیوں کا کہنا ہے کہ انھیں اس کمائی میں سے حصہ نہیں ملتا بلکہ سمگلر اور دلال ان سے جعلی قرض وصول کرتے رہتے ہیں۔
بی بی سی نے دہلی کے ان علاقوں کا بھی دورہ کیا جہاں یہ لڑکیاں سیکس ورک کرنے پر مجبور کی جاتی تھیں۔ پولیس کی کارروائی کے بعد سرگرمیاں ذرا کم تو ضرور ہوئی ہیں لیکن اب بھی جاری ہیں۔
مشرقی دہلی کی ڈی سی پی امریتا گلیگوتھ کہتی ہیں کہ ’ان انسانی سمگلروں کی گرفتاری کے ساتھ ہی نوکریوں کے نام پر لڑکیوں کو ہندوستان لانے اور ان کے پاسپورٹ چھیننے اور انھیں جسم فروشی پر مجبور کرنے کے نیٹ ورک کی ایک کڑی ضرور ٹوٹ جائے گی۔‘
’یہ یقینی طور پر غیر ممالک سے لڑکیوں کو لانے اور ان سے سیکس ورک کروانے کے کام کو متاثر کرے گا۔‘
ساتھ ہی انسانی سمگلنگ کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں کا خیال ہے کہ ابھی بھی بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔
ہیمنت شرما کہتے ہیں کہ ’پہلا چیلنج نیپال کی سرحد پر ہے جہاں سے لڑکیاں انڈیا میں داخل ہوتی ہیں۔ یہ لڑکیاں بغیر ویزا کے دہلی پہنچ جاتی ہیں۔
’اس کے بعد دہلی اور دوسرے بڑے شہروں میں ان سے سیکس ورک کروایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب پولیس کی نظروں سے کیسے دور رہتا ہے؟‘
ہیمنت شرما کہتے ہیں کہ ’دوسرا چیلنج ان لڑکیوں کی بحالی ہے۔ اس سے پہلے فارنرز ایکٹ کے تحت لڑکیوں کو ضمانت دی جاتی تھی اور وہاں سے انھیں حراستی مرکز نہیں بھیجا جاتا تھا۔
’اس بات پر سوچنے کی ضرورت تھی کہ یہ لڑکیاں انڈیا میں کیا کریں گی، کہاں رہیں گی اور قانونی کارروائی مکمل ہونے تک اپنے اخراجات کیسے پورے کریں گی؟‘
تہمینہ اپنے ملک واپس جانے کا انتظار کر رہی ہیں، لیکن ان کے خلاف گروگرام کی عدالت میں فارنرز ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ مقدمہ انھیں پھنسانے کے لیے درج کیا گیا تھا۔
جبکہ افروزہ گرفتار انسانی سمگلروں کے کیس کی گواہ ہیں۔
درحقیقت انسانی سمگلنگ کا شکار ہونے والی زیادہ تر لڑکیاں فارنرز ایکٹ کے تحت مقدمات میں ملوث ہیں۔ سمگلنگ کا شکار ہونے کی وجہ سے انھیں ملک چھوڑنے سے نہیں روکا جاتا لیکن فارنرز ایکٹ کے تحت ملزم بنائے جانے کی وجہ سے انھیں کیس کے اختتام تک ملک چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ وہ قانونی طور پرانڈیا نہیں چھوڑ سکتیں۔
متاثرین کو حتمی گواہی دینے تک ملک سے باہر نہ جانے کا بھی پابند کیا گیا ہے۔
دوسری طرف اس کیس میں ملزم کے وکیل زبیر ہاشمی کا دعویٰ ہے کہ متاثرہ جب چاہے اپنے ملک واپس جا سکتی ہیں۔
زبیر ہاشمی کا کہنا ہے کہ ان کیسز میں متاثرین نے اپنے ملک واپس نہ جانے کے لیے عدالت میں درخواستیں دائر نہیں کیں۔ انھیں روکا نہیں گیا ہے۔‘
تاہم، ہیمنت شرما کہتے ہیں کہ ’ملزمان کو سزا دلانے کے لیے متاثرین کی گواہی بہت ضروری ہے۔ ملزمان کے وکلاء اس گواہی کو ملتوی کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ اس قانونی جنگ سے تنگ آ جائیں۔‘
جبکہ افروزہ اور تہمینہ اپنے ملک واپس آنے کی منتظر ہیں۔ تہمینہ کہتی ہیں کہ ’جیسے ہی میں اپنے ملک پہنچوں گی، سب سے پہلے میں اپنے ملک کی مٹی کو چوموں گی اور کبھی ملک نہ چھوڑنے کی قسم کھاؤں گی۔‘
افروزہ کہتی ہیں کہ ’میں اپنی ماں کو گلے لگا کر دیر تک روؤں گی۔ میں نے انھیں ہر روز بہت یاد کیا ہے۔ میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش اپنی ماں کو گلے لگانا ہے۔
اس بارے میں کوئی ٹھوس اعداد و شمار نہیں ہیں کہ وسطی ایشیا سے کتنی لڑکیوں کو انڈیا سمگل کیا گیا ہے، لیکن کارکنوں کا خیال ہے کہ یہ تعداد کئی ہزار میں ہو سکتی ہے۔
(سیکس ورک کرنے پر مجبور کی جانے والی لڑکیوں کے نام ان کی شناخت کے تحفظ کے لیے تبدیل کر دیے گئے ہیں)