پاکستان میں انتخابات کے انعقاد میں غیر یقینی کا عنصر سماجی و سیاسی بیانیہ بن چکا ہے۔ ملکی سیاسی نظام اور مقتدر اداروں نے بذاتِ خود غیر یقینی کو سیاسی و سماجی بیانیہ بنانے کی کوششوں کے گاہے بہ گاہے ثبوت بھی دیے ہیں۔
یہ معاملہ سنہ 2018 کے الیکشن سے چلا آ رہا ہے۔ اُس وقت عام و خاص کا ایک بڑا طبقہ یقین سے یہ کہتا پایا جاتا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت دس سال کے لیے اقتدار میں آئی ہے۔
اس کے بعد یہ سوال اُٹھتا تھا کہ اگلا الیکشن تو پھر محض کارروائی ہی ٹھہرے گا؟
یہ بیانیہ اتنا زیادہ بنایا گیا کہ گذشتہ دِنوں آصف علی زرداری نے سینیئر صحافی حامد میر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہم عمران کو نہ نکالتے تو وہ ایک فوجی کے ذریعے 2028 تک حکومت بنا لیتا۔
اپریل 2022 میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد الیکشن کے انعقاد میں غیر یقینی میں شدت آئی۔
جولائی میں جب 20 صوبائی حلقوں میں ضمنی انتخابات ہوئے اور اُس میں پی ٹی آئی نے حیران کن کارکردگی دکھائی تو اقتدار سے محروم ہونے کے باوجود پی ٹی آئی کی مقبولیت کا آغاز ہوا۔ پنجاب میں یکے بعد دیگرے وزرائے اعلیٰ تبدیل ہوئے۔
پھر 14 جنوری 2023 کو پنجاب اسمبلی تحلیل ہوئی اور نگراں سیٹ اپ تشکیل پایا۔ 14 مئی 2023 کو پنجاب میں صوبائی انتخابات ہونا تھے، جو نہ ہوئے۔
بعدازاں قومی اسمبلی مُدت سے قبل تحلیل کر دی گئی تاکہ انتخابات کے لیے نوے دِن کا وقفہ لیا جائے مگر الیکشن کمیشن نے نوے روز کے اندر الیکشن کروانے سے معذرت کر لی۔
اس طرح الیکشن کے انعقاد میں جب آئینی مُدت کی پاسداری نہ ہو سکی تو الیکشن میں تاخیر کی غیر یقینی، یقین میں بدلتی چلی گئی۔
یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک بھر میں مقامی سطح پر الیکشن کے حوالے سے سرگرمیاں مفقود ہیں حالانکہ الیکشن کے انعقاد کی تاریخ میں دو ماہ اور چند دِن ہی رہ گئے ہیں۔
اسی طرح بلوچستان کے دو درخواست گزاروں نے الیکشن کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اور عام انتخابات کی تاریخ میں تاخیر کی درخواست کی ہے۔
انھوں نے اپنی درخواست میں صوبے میں سکیورٹی صوتحال اور فروری میں برف باری کا ذکر کرتے ہوئے یہ استدعا کی ہے کہ انتخابات برف باری کے بعد کرائے جائیں۔
آٹھ فروری کی تاریخ کے باوجود افواہیں کیوں؟
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں نوے روز میں عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی تھی، جس میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو صدر مملکت سے مشاورت کا حکم دیا تھا۔
یوں الیکشن کمیشن اور ایوانِ صدر نے متفقہ طورپر 8 فروری کی تاریخ کا تعین کیا۔
بعد ازاں جب نوے روز کے اندر انتخابات کے کیس کو نمٹایا گیا تو چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے انتباہ کیا کہ اگر الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کیے گئے تو ایسا کرنے والے آئین کی خلاف ورزی کے مُرتکب ہوں گے مگر اس انتباہ، الیکشن کی تاریخ اور الیکشن کمیشن کی انتخابی تیاریوں کے باوجود تاخیر کی افواہیں جنم لے چکی ہیں اور یہ بہت معنی خیز بھی ہیں۔
اس بابت سینیئرصحافی اور کالم نگار سہیل وڑائچ نے بھی گذشتہ دِنوں اپنے ایک کالم میں نقطہ اُٹھایا کہ اُمید ہے پاکستان میں دو خلیجی ممالک 20 سے 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے۔
انھوں نے لکھا کہ ’معاشی بہتری اگر آتی ہے تو افواہ ہے کہ الیکشن تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس افواہ کے پیچھے یہ تاثر بھی ہے کہ تحریکِ انصاف کے سیاسی اُبھار کا مکمل تدارک نہیں ہو سکا تاہم سہیل وڑائچ کے خیال میں اگر الیکشن میں تاخیر کی بابت سوچا گیا تو دو رکاوٹیں آئیں گی۔ عدالتی اور سیاسی رکاوٹ۔
الیکشن کمیشن نے گذشتہ روز میڈیا کی سطح پر پیدا ہونے والی الیکشن میں تاخیر کی خبروں کو بے بنیاد قراردیا ہے۔ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق الیکشن کمیشن مذکورہ افواہوں کی پُرزور تردید کرتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکشن میں تاخیر کی خبروں پر موقف کے بعد یہ افواہیں دَم توڑ جائیں گی؟ کیا یہ افواہیں الیکشن کمیشن کے کسی عمل سے پیدا ہوئیں تھیں کہ الیکشن کمیشن نے تردید کی تو یہ افواہیں دَم توڑجائیں گی؟
افواہوں نے جنم کیسے لیا اور الیکشن کمیشن کے موقف کے بعد الیکشن کے انعقاد میں وضاحت ہو گی؟ اس حوالے سے سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی نے اہم نکتہ بیان کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’افواہیں اس لیے پیدا ہوئیں کہ الیکشن کی تاریخ کے باوجود سیاسی جماعتوں نے نچلی سطح پر کسی طرح کی سرگرمیوں کا آغاز اس طریقے سے نہیں کیا جیسا ماضی میں دیکھنے کو ملتا تھا۔
’جیسے ہی الیکشن کی تاریخ سامنےآئی تھی، تو سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ الیکشن کا ماحول طاری کر دیتیں چونکہ ایسا نہ ہو سکا یوں اس طرح کی افواہیں پیدا ہوئیں۔‘
سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’الیکشن کمیشن نے افواہوں کی تردید کے بعد بھی یہ افواہیں اس وقت تک جنم لیتی رہیں گی۔ جب تک سیاسی جماعتیں الیکشن کا ماحول نچلی سطح پر نہیں بناتیں۔‘
تاہم الیکشن کمیشن کے سابق اور وفاقی سیکرٹری کنور دلشاد کہتے ہیں کہ ’الیکشن کمیشن نے انتخابات کے انعقاد کے لیے اپنا لائحہ عمل تیار کر لیا ہے اور 15 دسمبر سے پہلے انتخابی شیڈول جاری کر دیا جائے گا۔‘
لیکن تاخیر کی ان افواہوں کے پیچھے کیا اسباب ہو سکتے ہیں؟ سینیئر تجزیہ کار اور پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ الیکشن میں تاخیر کی باتیں کرنے کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں۔
’ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ شاید یہ ’ٹیسٹ بیلون‘ کے طور پر دیکھ رہے ہوں کہ اگر یہ بات کی جائے تو عوام کے اندر کس حد تک اس کی پذیرائی ہے، لوگوں کا ردِعمل کس طرح کا ہو سکتا ہے؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جن کو انتخابات میں کوئی زیادہ فائدہ نظر نہیں آ رہا وہ اس طرح کی باتیں کر رہے ہوں۔‘
’ابہام پیدا کرنے والے اسٹیبلشمینٹ اور مسلم لیگ ن کے قریبی حلقے ہیں‘
الیکشن میں التوا کی افواہوں پر بات کرنے کے لیے جب ہم نے ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں سے رابطہ کیا تو سب نے ہی بروقت الیکشن کے انعقاد پر زور دیا۔
سنہ 2018 کے انتحابات کے بعد اقتدار میں آنے والی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما شعیب شاہین کہتے ہیں کہ ’ابہام پیدا کرنے والے اسٹیبلشمینٹ اور مسلم لیگ ن کے قریبی حلقے ہیں۔ وہ حیلے بہانوں سے تاخیر چاہتے ہیں۔‘
لیکن اس بارے میں بات کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ نون کی رہنما عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ ’ہماری جماعت الیکشن کمپین ڈیزائن کر رہی ہے، الیکشن کے لیے مرکزی پارلیمانی بورڈ تشکیل دے دیا گیا ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ الیکشن التوا کا شکار نہ ہو۔‘
کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما تاج حیدر نے بھی کیا۔
’ہم نے الیکشن کی تاریخ لینے کے لیے کافی جدوجہد کی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان افواہوں سے قطع نظر ہر جماعت کو الیکشن کا مقررہ وقت پر انعقاد اور اُس کی شفافیت کو اپنی ترجیح بنانا چاہیے۔‘
جمعیت علمائے اسلام ف کے رہنما حافظ حمد اللہ نے سوال اٹھایا کہ وہ لوگ کون ہیں جو الیکشن کا التوا چاہتے ہیں؟
’سب ادارے اور جماعتیں الیکشن کی تاریخ پر اتفاقِ رائے رکھتی ہیں۔ اگرچہ مولانا فضل الرحمٰن نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے کچھ سرد پہاڑی علاقوں کہ وہاں کے لوگ موسم کی سختی کے پیش نظر دوسرے علاقوں میں ہجرت کرتے ہیں، کی بابت کہا تھا کہ تاریخ کو آگے پیچھے کیا جائے مگر جب تاریخ آ گئی تو ہم الیکشن کی تیاری کر رہے ہیں۔‘
کیا پی ٹی آئی مقبولیت کا فیکٹر الیکشن التوا کا سبب ہو سکتا ہے؟
الیکشن میں تاخیر کی ایک بڑی وجہ عمران خان کی مقبولیت کے فیکٹر کا تاثربھی سامنے آ رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ حال ہی میں خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے کنوینشن سے پیدا ہونے والی صورتحال بھی ہو سکتی ہے۔
خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے جلسے کے تناظر میں سابق وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور محمد دلشاد کہتے ہیں کہ جلسے جلوس سیاسی جماعتوں کا آئینی حق ہیں۔
’جلسوں کے کامیاب انعقاد سے الیکشن کے التوا میں جانے کا کوئی جواز نہیں۔ اصل فیصلہ پولنگ ڈے پر ہوتا ہے۔ عطا اللہ شاہ بخاری کے جلسوں میں لاکھوں شرکا ہوتے تھے مگر جب 1946 میں الیکشن ہوئے تو اُن کی پارٹی ایک سیٹ بھی نہ نکال سکی۔‘
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شعیب شاہین کہتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی اور عمران کی مقبولیت کا گراف اس وقت بہت بلند ہے لیکن نون لیگ کے رہنما عابد شیر کا کہنا ہے کہ ’پی ٹی آئی مقبولیت کا فیکٹر قطعی ہمیں خائف نہیں کر رہا اور نہ ہی مقبولیت زیادہ ہے۔‘
دوسری جانب خیبرپختونخوا میں عمران خان کی مقبولیت پر بات کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام ف کے حافظ حمداللہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت کی محض افواہیں ہیں۔
تو کیا پھر انتخابات تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں؟
الیکشن کے انعقاد میں تاخیر کی خبروں میں اگر کوئی صداقت ہے تو اس ضمن میں سب سے بڑی رکاوٹ سپریم کورٹ ہے کیونکہ الیکشن میں شکوک وشبہات پیدا کرنے پر بھی چیف جسٹس نے میڈیا اور دیگر پلیٹ فارم کو متنبہ کررکھا ہے۔
لیکن کیا اس عدالتی رکاوٹ کو ختم کیا جا سکے گا۔۔۔؟ اس بارے میں سینیئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ عدلیہ انتخابات میں تاخیر کا فیصلہ نہیں مانے گی۔‘
تجزیہ کار احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ انتخابات میں تاخیر میں سب سے بڑی رکاوٹ معاشی صورتحال ہے۔
’اپریل سے پہلے حکومت کو آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنا ہوں گے ورنہ اگلے پیسے نہیں ملیں گے۔ آئی ایم ایف منتخب حکومت کے علاوہ کسی سے بات نہیں کرے گی۔ اگر آئی ایم ایف سے پیسے نہ ملے تو دوسرے ذرائع سے بھی نہیں ملیں گے۔ میرا خیال ہے کہ معاشی صورت حال سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔‘
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ’یہ حقیقت ہے کہ جب کسی جماعت کو ہٹا دیا جاتا ہے تو اگلے الیکشن میں اُس کو دوبارہ نہیں آنے دیا جاتا۔ ماضی کے انتخابات سے یہی سبق ملتا ہے۔ اب بھی یہی کوشش ہو گی۔ اگر یہ کوشش کامیاب ہوتی نظر نہ آئی تو آخری حربے کے طورپر اگرچہ امکان بہت چھوٹا ہے کہ الیکشن موخر ہو جائیں۔ میرا خیال ہے کہ جس طریقے سے چیزیں جا رہی ہیں، مینج ہو جائیں گی۔‘
اس حوالے سے اسٹیبلشمینٹ کی کیا سوچ ہے۔۔۔؟ اس بارے میں لیفٹیننٹ جنرل نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ کوئی کیا سوچ رہا ہے، اس پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ قرائن پر بات ہو سکتی ہے۔‘
’انتخابات میں تاخیر پر اسٹیبلشمنٹ کے اندر اور باہر سے الزامات لگیں گے اور اس کے بعد ملک جہاں کھڑا ہے تو وہ اِدھر ہی کھڑا رہے گا۔‘