’میں عمران کا نمائندہ، نامزد اور جانشین کے طور پر اس وقت تک رہوں گا جب تک عمران خان واپس نہیں آئیں گے۔‘
29 نومبر کی سہہ پہر یہ الفاظ تحریک انصاف کے نامزد چیئرمین بیرسٹر گوہر نے اُس وقت ادا کیے جب سینیٹرعلی ظفر نے اُن کی بطور پی ٹی آئی چیئرمین نامزدگی کا اعلان کیا۔
یہ رواں سال اگست کی ہی بات ہے جب تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اجلاس میں متفقہ قرارداد منظور کی گئی کہ ’عمران خان تاحیات پارٹی چیئرمین‘ ہوں گے۔
اس وقت عمران خان کو اٹک کی جیل میں قید ہوئے ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا اور ان کی عدم موجودگی میں پارٹی کے سینیئر رہنما شاہ محمود قریشی پارٹی کی باگ دوڑ سنبھالنے میں مصروف تھے۔ مگر پھر صورتحال بدلی اور شاہ محمود قریشی بھی سلاخوں کے پیچھے پہنچ گئے۔
بیرسٹر گوہر کی نامزدگی کے بعد بہت سے لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ سینیئر رہنماؤں کے ہوتے ہوئے سیاست کے میدان میں کم معروف پارٹی رہنما کو اتنا بڑا عہدہ کس حکمت عملی کے تحت تفویض کیا؟ اور عمران خان کے اس فیصلے کا تحریک انصاف کی اندرونی سیاست پر کیا اثر پڑے گا؟
کسی سیاسی شخصیت کے بجائے وکیل ہی کیوں؟
سابق وزیر اعظم عمران خان اس وقت راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں اور دور اقتدار میں ان کا ساتھ دینے والے بیشتر لوگ نو مئی کے واقعات کے بعد یا تو تحریک انصاف چھوڑ کر دوسری پارٹیوں میں شامل ہو چکے ہیں یا پھر قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ بعض گذشتہ کئی ماہ سے روپوش ہیں اور چند سیاست کو ہی خیرباد کہہ چکے ہیں۔
ایسے میں جب الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو دوبارہ انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کا حکم دیا تو تحریک انصاف کی قانونی ٹیم نے ’عمران خان سے مشاورت‘ کے بعد ناصرف دو دسمبر کو ان انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا بلکہ نئے چیئرمین کی نامزدگی بھی کی گئی۔
تحریک انصاف کے مطابق ان تمام اقدامات کا مقصد مستقبل میں قانونی چیلنجز سے نمٹنا اور اپنے انتخابی نشان ’بلے‘ کو محفوظ بنانا ہے۔
عمران خان کی جانب سے کسی سیاسی شخصیت کو نگران چیئرمین کے عہدے کے لیے کیوں نہیں چنا گیا؟ اور موجودہ صورت حال میں تحریک انصاف میں اہم عہدوں پر وکلا ہی کیوں دکھائی دے رہے ہیں؟
صحافی اور اینکر عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ ’اس بارے میں خود تحریک انصاف کے اندر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔
عاصمہ شیرازی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی ہیں اور وہ تاحال سزا یافتہ بھی نہیں، اسی طرح سے پی ٹی آئی کے صدر پرویز الہی ہیں اور ان کو بھی ابھی کسی کیس میں سزا نہیں سنائی گئی، تو بجائے اس کے کہ وہ پارٹی کو ایک فعال جماعت بناتے اور ایک مضبوط چیئرمین کو اپنی جگہ لے کر آتے جن کی جماعت کے ساتھ ایک طویل وابستگی ہے، مگر ایسا نہیں ہوا۔
تجزیہ کار عارفہ نور کہتی ہیں کہ تحریک انصاف کو اس وقت بہت سی قانونی رکاوٹوں کا سامنا ہے اور موجودہ صورتحال میں کسی سیاستدان کو اس عہدے کے لیے نامزد کرنا بظاہر پارٹی کو مزید مشکلات کا شکار کر سکتا تھا جبکہ اس کے برعکس اس قانون دان کے اس عہدے پر ہونے کی صورت میں اس کا احتمال کم ہو سکتا ہے۔
سینیئر صحافی سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’بیرسٹر گوہر بہت معروف نہیں۔ انھوں نے پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے 2008 میں الیکشن لڑا۔ حالانکہ اس وقت عدلیہ بحالی کی تحریک چل رہی تھی اور وہ ماضی قریب میں ہی پی ٹی آئی میں شامل ہوئے۔‘
سہیل وڑائچ کے مطابق ’عمران خان نے سوچ سمجھ کر ہی ان کو چیئرمین بنانے کا فیصلہ کیا ہو گا، تو امید کرنی چاہیے کہ وہ بریک تھرو کریں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ویسے تو اس صورتحال میں ’نیچرل چوائس‘ شاہ محمود یا پرویز الہی کو ہونا چاہیے تھا تاکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ راستہ کھولنا کچھ آسان ہوتا۔
’یہ خوش خیالی ہے کہ وکیل الیکشن جتوا دیں گے ‘
الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ بندیوں کا کام پایہ تکمیل تک پہنچنے کو ہے جس کے بعد انتخابی شیڈول کا اجرا کیا جانا ہے۔ الیکشن کمیشن نے صدر کی مشاورت کے بعد متفقہ طور پر آٹھ فروری کو عام انتخابات کے لیے پولنگ کی تاریخ کا اعلان بھی کر رکھا ہے جس کے بعد مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت مختلف چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی سرگرمیوں میں تیزی آ رہی ہے۔
ایسے میں تحریک انصاف کو جلسے جلوسوں کے انعقاد میں دشواری اور مرکزی لیڈرشپ کا قید میں ہونا، پی ٹی آئی کی انتخابات میں بڑی کامیابی کے حصول پر سوال اٹھا رہا ہے۔
تو کیا کسی قانون دان کی چیئرمین شپ یا عارضی سربراہی میں پی ٹی آئی کے لیے انتخابی مہم چلانا آسان ہو گا؟
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’وکیل سٹینڈ تو لیتے ہیں، موقف پر ڈٹ جاتے ہیں مگر یہ ’خوبی‘ اور انتخابات میں جیتنا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔‘
’یہ آپ کی نمائندگی تو کر لیں گے لیکن یہ خیال کہ وکیل آپ کو الیکشن جتوا دیں گے یہ خوش خیالی ذیادہ ہے۔ جس وکیل کا حلقے میں اثر ہو گا وہ ہی جیت پائے گا۔‘
انھوں نے اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا ’ہمارے ہاں دو طبقات ایسے ہیں جن کے لیے تجربہ ثابت کرتا ہے کہ ان کو بے بس کرنا مشکل ہوتا ہے: ایک تو وکیل اور دوسرا جاگیردار۔‘
’وکیلوں کو اگر دیکھیں کہ اگر ان کے پاس حکومت کی حمایت نہ بھی ہو تو اپوزیشن ان کے ساتھ شامل ہو جاتی ہے۔ عدالتیں بھی عموماً وکلا کمیونٹی کو فیور کرتی ہیں اور عام طور پر وکیل بہت زیاہ اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ میں بھی نہیں آتے۔ تو تحریک انصاف کی جانب سے یہ ایک ڈھال سمجھی گئی ہے کہ وکلا کو استعمال کیا جائے۔‘
تحریک انصاف کے ترجمان رؤف حسن کے مطابق عمران خان کی جگہ نئے چیئرمین کا تقرر عارضی بنیادوں پر کیا گیا فیصلہ ہے۔
’پارٹی میں تقسیم بڑھے گی‘
نامزد چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان عمران خان کی قانونی ٹیم کے اہم رکن ہیں، جن کے ذمے تمام قانونی امور کو سنبھالنا ہے اور وہ پارٹی کے قانونی امور پر فوکل پرسن بھی ہیں۔
دوسری جانب عمران خان سمیت تحریک انصاف کی سینیئر قیادت کا پابند سلاسل ہونے نے جماعت کے اندر انتظامی امور میں بھی بے ترتیبی کی صورت حال پیدا کر رکھی ہے۔ ایسے میں بیرسٹر گوہر، جن کی پارٹی سے وابستگی کا عرصہ چند سال سے زیادہ نہیں، کیسے ایک جماعت کو اپنے ساتھ لے کر چل سکیں گے اور فیصلہ سازی کر کے اپنی بات منوا سکیں گے؟
اس حوالے سے جب سوال کیا گیا تو عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ ’اس وقت تحریک انصاف کے اندر کتنی ہی آوازیں اٹھی ہیں۔ ایک خبر دیتا ہے، دوسرا تردید کرتا ہے اور تیسرا وضاحت جاری کرتا ہے۔ تو یہ ایک انتشار کی کیفیت ہے۔‘
’ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ موجودہ صورتحال میں کسی مضبوط شخصیت کو آگے لایا جاتا جو پارٹی کے معاملات کو آگے لے کر چلتی یا فیصلہ سازی کرتی۔ ایک کؤنسل بھی ہو سکتی تھی۔ کم از کم ایسی شخصیت ہوتی جس کی سب بات مانتے۔ ابھی تو لگ رہا ہے کہ اس نامزدگی کے بعد شاید تقسیم پارٹی کے اندر ابھی مزید بڑھے گی۔‘
ماضی میں پارٹی سربراہ کی عدم موجودگی میں انتخابات
ہم نے تجزیہ کاروں سے سوال کیا کہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ مقید ہیں اور اُن کی پارٹی جس بدنظمی اور مشکلات کا شکار رہی ہے تو ماضی میں بھی کیا ایسی مثالیں موجود ہیں اوراس کا نتیجہ کیا نکلا تھا؟
سہیل وڑائچ نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان کی سیاست میں اس نوعیت کی صورتحال ماضی میں بھی بڑی سیاسی جماعتوں کو درپیش رہی ہے۔
’جب جنرل پرویزمشرف کا زمانہ تھا تو پیپلز پارٹی پر بھی ایسی ہی مشکلات آئی تھیں۔ اس وقت مخدوم امین فہیم کو آگے لایا گیا تھا۔ یہی تجربہ مسلم لیگ ن میں بھی ہوا۔۔ ایسے تجربات سیاسی پارٹیاں مختلف وقت میں کرتی رہی ہیں۔‘
سہیل وڑائچ نے مزید کہا کہ ’گمنام لیڈر کو آگے لانے کا تجربہ کامیاب بھی رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب کسی ایسے فرد کو لایا جاتا ہے جس کا سیاسی قد بہت بڑا نہیں ہوتا تو ایسا شخص پارٹی سے وفادار رہتا ہے۔‘
اسی سوال پر عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو جب ہٹایا گیا تو ان کی جگہ ان کے ایک ورکر پرویز رشید کو چیئرمین بنایا گیا لیکن وہ سیاسی پریشر کا بوجھ نہ اٹھائے پائے، جس کے بعد بیگم نصرت بھٹو صاحبہ کو چیئرمین بنانا پڑا۔
’جب پارٹیاں مضبوط ہوتی ہیں اور نیچے تک فیصلہ سازی کی قوت ہوتی ہے تو معاملات مختلف ہوتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’عمران خان کو کافی عرصے سے پتہ تھا کہ ان کے ساتھ یہ ہونا والا ہے تو ان کی جماعت تقسیم کا شکار ہے تو ان کے لیے یہ بہت بڑا امتحان ہو گا کہ ان کی جماعت الیکشن میں کیسے جائے گی۔ اور بطور جماعت تحریک انصاف کیسے آگے بڑھے گی تو ایسے میں ان کی جماعت کے لیے امتحان ہی امتحان نظر آ رہے ہیں۔‘