صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں میں پیر کی شام سوشل میڈیا پر ایک نوجوان سرکاری افسر کی اچانک موت کی خبر نے ان کے دوستوں، ساتھیوں اور شاگردوں سمیت اُن کی زندگی کی جدوجہد پر مبنی کہانی سے متاثر ہونے والوں کو غمگین کر دیا ہے۔
ملٹری کنٹونمنٹ بنوں میں بطور چیف ایگزیکٹیو آفیسر کام کرنے والے بلال پاشا پیر کو اپنے کمرے میں مردہ حالت میں پائے گئے تھے۔
ڈسٹرکٹ پولیس افسر بنوں افتخار شاہ کے مطابق ’بظاہر یہ خودکشی کا واقعہ لگ رہا ہے‘ تاہم پوسٹ مارٹم ہو چکا ہے اور اس ضمن میں میڈیکل رپورٹ کا انتظار ہے۔
بلال پاشا کی نماز جنازہ منگل کی صبح اُن کے آبائی علاقے عبدالحکیم میں ادا کر دی گئی ہے۔
بلال پاشا کے والد احمد یار نے بی بی سی کو بلال سے اُن کی آخری مرتبہ فون پر ہونے والی بات چیت کی تفصیلات بتائی ہیں۔ وہ خانیوال میں عبدالحکیم نامی گاؤں کے رہائشی ہیں اور خود مزدوری کرتے ہیں اور اپنے گھرانے کے بڑے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’بلال سے میری سنیچر کو بات ہوئی تو وہ بتا رہا تھا کہ اس کا تبادلہ ہو گیا ہے۔‘
فون پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے احمد یار رو رہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ’آٹھ دس روز پہلے ایک دن فون پر بلال کہہ رہا تھا کہ بابا میرا دل چاہتا ہے کہ نوکری چھوڑ کر گھر آ جاؤں یا کچھ دنوں کی چھٹی لے لوں تاکہ دل بھر کر سو سکوں۔ اب راولپنڈی جا کر چھٹی کی درخواست دے کر گھر آتا ہوں۔‘
بلال کی اچانک موت کی خبر نے اکثر افراد کو نہ صرف اس لیے بھی چونکا دیا کیونکہ یہ ایک جوان موت تھی بلکہ اس لیے بھی کہ ان کی جدوجہد کی کہانی نے انھیں سول سروسز کا امتحان دینے والوں کے لیے مشعلِ راہ بنا دیا تھا۔
اس وقت سوشل میڈیا پر بلال پاشا ٹاپ ٹرینڈ ہیں اور ان کے ساتھیوں اور دوستوں کے ساتھ ساتھ ان کے طلبا بھی انھیں خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں۔
’دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے تو بلال زندہ نہیں تھا‘
احمد یار نے بتایا کہ اُن کے پانچ بیٹے تھے جن میں بلال سب سے چھوٹا تھا۔ احمد یار کے ایک بھائی بشیر احمد کی اولاد نہیں تھی اس لیے انھوں نے اپنے بھتیجے بلال کو گود لے لیا تھا اور جوائنٹ فیملی ہونے کے باعث بلال کی پرورش دونوں خاندانوں نے مل کر کی۔
احمد یار نے اتوار اور پیر کے روز کی روداد بی بی سی کو بتائی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’اتوار کے روز فجر کی نماز کے وقت مجھے بلال کا فون آیا تھا، میں حیران تھا کہ اس وقت تو وہ فون نہیں کرتا، معلوم نہیں کیوں فون کیا ہو گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس کے بعد بلال کی بات اپنے دوست سے ہوئی تھی اور وہ یہی بتا رہا تھا کہ وہ اسلام آباد جا رہا ہے، اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتاؤ۔ اس کے بعد جب میں نے بلال کو فون کیا تو بات نہیں ہو سکی کیونکہ بلال نے فون نہیں اٹھایا، میں یہی سمجھا کہ شاید سو گیا ہو گا۔
’اسی طرح پھر گیارہ بجے اور ساڑھے بارہ بجے میں نے دوبارہ کالز کیں لیکن بلال نے فون نہیں اٹھایا۔ مجھے فکر لاحق تھی لیکن یہی سوچتا رہا کہ بلال سویا ہوا ہو گا۔‘
والد کے مطابق ’وہ رات دیر گئے بھی مسجد میں بیٹھ کر بلال کو فون کرتے رہے لیکن رابطہ نہیں ہو سکا۔ پھر میں نے یہی سوچا کہ بلال اٹھے گا تو یہ دیکھے گا کہ بابا نے اتنی کالیں کی ہیں تو خود فون کرے گا، لیکن بلال کا فون نہیں آیا۔‘
احمد یار نے بتایا کہ پیر کے روز صبح میں نے بلال کے ایک دوست کو فون کیا جس نے کمرے میں جا کر دیکھا تو اندر سے دروازہ بند تھا۔
’دوست نے مجھے بتایا کہ جب وہ دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے تو بلال زندہ نہیں تھا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ کیا ہوا ہے ہم سے اس نے کوئی ایسی بات بھی نہیں کی کہ جس سے کوئی پریشانی ظاہر ہوتی ہو۔‘
ان کے مطابق بلال پاشا نے دو، تین سال پہلے شادی کی تھی لیکن کچھ عرصہ بعد ان کی علیحدگی ہو گئی تھی۔
انھوں نے کہ کہ ’بلال میرا بیٹا تو تھا ہی لیکن ساتھ ساتھ بہت اچھا دوست بھی تھا۔ وہ اکثر اپنے دل کی باتیں میرے ساتھ کیا کرتا تھا۔‘
’بلال خوش مزاج لڑکا تھا، ہر محفل کی جان ہوتا تھا‘
دوسری جانب اسسٹنٹ کمشنر بنوں سید ابرار علی شاہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اُن کا بلال پاشا سے فون پر رابطہ نہیں ہو رہا تھا تو انھوں نے سوچا کہ اُن کے دفتر جا کر ان سے مل لیتا ہوں۔
’دفتر آیا تو معلوم ہوا کہ وہ وہاں بھی نہیں آئے، تو میں ان کی رہائش گاہ چلا گیا۔ وہاں پہنچ کر ملازمین سے بلال کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ہم کئی مرتبہ ان کے دروازے پر دستک دے چکے ہیں لیکن اندر سے کوئی جواب نہیں آ رہا۔‘
ابرار کہتے ہیں کہ ’ہم نے دروازہ توڑنے کی کوشش کی، کئی مرتبہ کوشش کرنے کے باوجود بھی دروازہ نہیں ٹوٹا تو ہم کمرے کے پیچھے سٹور کے راستے کمرے میں پہنچے تو بلال مردہ حالت میں تھے۔‘
بی بی سی کے ایک سوال کے جواب میں ابرار نے کہا کہ بلال نے اُن سے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہی جس سے گمان ہو کہ وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ ’بالکل بھی نہیں۔ کبھی ایسا گمان بھی نہیں ہوا، کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ کیسے ہو گیا۔ وہ تو راولپنڈی جانے کی بات کر رہا تھا، پیر کو اس نے چارج ہینڈ اوور کر کے پنڈی جانا تھا۔‘
ابرار اور بلال سول سروسز اکیڈمی کے دوران ہی دوست بنے تھے۔
ابرار کے مطابق ’بلال انتہائی خوش مزاج لڑکا تھا، ہر محفل کی جان ہوتا تھا اور اس کا رویہ ہر وقت ہی دوستانہ رہتا تھا۔‘
’میرے والد ایک دہاڑی دار مزدور ہیں اور مجھے اس پر فخر ہے‘
بلال پہلی مرتبہ جب مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے بعد منظرِ عام پر آئے تو اس دوران سوشل میڈیا پر سی ایس ایس کرنے والوں کے حوالے سے گرما گرم بحث جاری تھی اور یہ کہا جا رہا تھا کہ یہ امتحان ایلیٹ کلاس اور اثر و رسوخ رکھنے والے خاندانوں کے بچے ہی پاس کر سکتے ہیں۔
اپنے منھ بولے والد بشیر احمد کے ساتھ اینٹوں کی دیوار کے سامنے کھڑے بلال پاشا نے اس دوران اپنی جدوجہد کی کہانی سنائی جو دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔
سنہ 2019 میں سی ایس ایس کے امتحان میں وہ 85ویں پوزیشن پر آئے اور محکمہ ملٹری لینڈز اینڈ کنٹونمنٹ میں تعینات ہوئے۔
سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے سے پہلے وہ 17ویں گریڈ کی مختلف سرکاری نوکریاں کر چکے تھے اور، ان کے مطابق، اپنے والد کے کہنے پر ہی وہ سرکاری نوکری کی جانب راغب ہوئے تھے۔
والد کے ساتھ کھڑے بلال نے اس ویڈیو میں اپنی مسلسل محنت اور جدوجہد کی کہانی بتاتے ہوئے کہا کہ ’یہ میرے قابلِ فخر والد بشیر احمد ہیں جنھوں نے ساری زندگی مزدوری کی ہے، الحمداللہ مجھے بہت فخر ہے کہ میں ایک مزدور کا بیٹا ہوں۔‘
’میرے خاندان میں صرف دو تین لوگوں نے میٹرک کیا ہے اور اس کے بعد کوئی بھی انٹر تک بھی نہیں پہنچ سکا۔ میرے والد اور والدہ دونوں نے ہی باضابطہ تعلیم حاصل نہیں کی۔‘
یہ ان کی جانب سے ان لوگوں کو جواب تھا جو اس بات پر زور دے رہے تھے کہ سی ایس ایس صرف اثر و رسوخ رکھنے والے خاندانوں کے چشم و چراغ ہی کر سکتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا تھا کہ ’میں نے مکتب سکول سے پرائمری کی تعلیم حاصل کی۔ پھر سرکاری سکول اور کالج سے میٹرک اور ایف ایس سی مکمل کیا۔‘
مکتب سکول سسٹم کی وضاحت کرتے ہوئے ماضی میں دور دراز علاقوں میں بچوں کو رسمی تعلیم دینے کے لیے یہ سکول مساجد میں بنائے جاتے تھے۔
بلال نے کہا کہ وہ اس سکول سے پڑھے ہیں جہاں چھٹی جماعت میں پہنچ کر چھوٹی اور بڑی اے، بی، سی پڑھائی جاتی ہے۔
سکول کے بعد انھوں نے فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور یہ بھی لگاتار سرکاری تعلیمی وظائف لے کر۔
بلال نے اس ویڈیو کے اختتام پر یہ بھی کہا تھا کہ ’میں لاہور پہنچنے کے بعد ایسے طلبا کے لیے ساتھی سی ایس ایس ٹاپرز کے ساتھ مل کر لیکچرز کا انتظام کروں گا جو اچھی اکیڈمیوں مںی داخلے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
انھوں نے یہ وعدہ پورا کرتے ہوئے یوٹیوب ویڈیوز کے علاوہ بھی مختلف جگہوں پر طلبا کو سی ایس ایس میں تاریخِ امریکہ سمیت مختلف مضمون پڑھائے اور امتحان سے متعلق رہنمائی بھی دی۔
بلال کا یوٹیوب پر چینل ’لرن ود بلال‘ میں انھوں نے نو روز قبل طلبا کے لیے ایک ویڈیو شائع کی ہے جس میں انھوں نے سی ایس ایس کے سکریننگ ٹیسٹ یعنی ایم سی کیوز بیسڈ پریلمنری ٹیسٹ (ایم پی ٹی) کے حوالے سے رہنمائی دی۔
اس ویڈیو تلے شائع ہونے والے کمنٹس میں اور سوشل میڈیا پر مختلف طلبا کی جانب سے شیئر کیے گئے پیغامات میں بلال کی سبھی تعریف کرتے اور ان کی رہنمائی کے باعث امتحانات میں بہتر نتائج پر ان کا شکریہ ادا کرتے نظر آئے۔
’وہ انتہائی نرم مزاج اور بہترین افسر تھے‘
خانیوال کے علاقے عبدالحکیم کے ایک مدرسے سے پرائمری تعلیم حاصل کرنے والے بلال نے ’ہم ٹی وی‘ کے مارننگ شو ’صبح سے آگے‘ میں بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’ہمارے سکول میں انگلش کے مضمون کے لیے زیرو پیریڈ لگتا تھا، امی صبح جلدی اٹھاتی تھیں، میں پہلے اپنے انگلش کے ٹیچر کے گھر جاتا تھا، ان کے بچے کو سکول چھوڑتا تھا اور پھر سر کو سائیکل پر سکول لے کر آتا تھا۔ زیرو پیریڈ سات بجے ہوتا تھا لیکن اس سے پہلے بھی میں اٹھ جاتا تھا۔‘
انھوں نے پروگرام میں مزید بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہر بندے کی کوئی نہ کوئی کمزوری ہوتی ہے لیکن مزہ تب آتا ہے جب آپ اس کمزوری کو اپنی طاقت بنا لیتے ہیں۔‘
’میں جب زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں پڑھ رہا تھا تو دن میں کلاسز لیتا تھا اور شام میں ٹیوشن پڑھایا کرتا تھا۔ یہ میری ایک کمزوری تھی لیکن میں نے اسے اپنی ایک طاقت بنایا۔‘
اس پروگرام میں بلال نے اپنی مرحوم والدہ کو بھی یاد کیا اور کہا کہ ’میں آج جو کچھ بھی ہوں آپ کی دعاؤں کی وجہ سے ہوں اور آپ جب مجھے چھوڑ کر جا رہی تھیں تو آپ نے کہا تھا کہ بلال تم نے ایک بہت بڑا افسر بننا ہے اور آج مجھے دیکھیں میں ایک بہت بڑا افسر بن گیا ہوں۔‘
ان کی کلاس یعنی 47 کامن کی شانزا فائق نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ ’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں اپنے کلاس فیلو کے بارے میں ایسی خبر کبھی پوسٹ کروں گی لیکن یہ بتاتے ہوئے میرا دل ٹوٹ رہا ہے کہ میرے کلاس فیلو اور دوست کی المناک موت ہو گئی ہے۔‘
ان کے ایک اور بیچ میٹ منہاج مہدی نے ایکس پر پوسٹ کیا کہ ’وہ انتہائی نرم مزاج تھے اور ایک بہترین افسر تھے۔‘