نگران حکومت کے تمام جماعتوں کو ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ کے دعووں کے باوجود پی ٹی آئی کو انتخابی مہم میں مشکلات کا سامنا کیوں؟

’جلسہ گاہ جانے والے تمام راستوں پر پولیس نے رکاوٹیں لگا رکھی تھیں۔ وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ ’اوپر سے‘ آرڈر ہے کہ پی ٹی آئی کو جلسہ نہ کرنے دیا جائے۔ جلسہ تو ہم نے اپنی حکمت عملی سے کامیابی سے کر لیا لیکن اس کے فوری بعد پولیس نے گرفتاریاں بھی کیں اور گھروں پر چھاپے مارنے شروع کر دیے۔‘

یہ کہنا ہے تحریک انصاف کے ضلعی صدر عنایت اللہ خٹک کا جنھوں نے اتوار کے روز خیبرپختونخوا کے ضلع کرک میں ورکر کنوینشن کا انعقاد کیا تھا تاہم مقامی انتظامیہ نے جلسے کے بعد ان سمیت درجنوں پارٹی ورکرز کے خلاف انسداد دہشت گردی سمیت مختلف دفعات میں مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’ہمیں روکنے کے لیے گولیاں تک چلائی گئیں، ورکرز کو مارا پیٹا اور دھمکایا گیا لیکن ہم نے جلسہ گاہ تک پہنچنے کی حکمت عملی پر عمل کر کے کامیابی سے جلسہ کیا۔ جس کے بعد کرک کے ہر تھانے میں ہمارے خلاف دہشت گردی کا پرچہ کاٹ کر ایف آئی آر درج کر لی گئی۔‘

عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ہی پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی مہم اور عوامی رابطوں میں تیزی آئی ہے تو وہیں 2018 کے عام انتخابات میں اقتدار حاصل کرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو جلسے یا کنوینشن کی اجازت ملنا ہی مشکل دکھائی دے رہا ہے۔

ملک کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے یوں تو دو ٹوک کہا ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی عمل میں مساوی مواقع یعنی ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ کے مواقع حاصل ہیں لیکن زمینی حقائق ان کے بیان کے برعکس دکھائی دے رہے ہیں۔

پاکستان کے نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کو انٹرویو میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’کسی نے کسی جماعت کو نہ سیاسی جلسوں سے روکا نہ کسی اور سرگرمی سے۔ نو مئی کے توڑ پھوڑ جلاؤ گھیراؤ کے باعث کچھ لوگ قانون کا سامنا کر رہے ہیں، کچھ قید کاٹ رہے ہیں تو یہ قانونی کارروائیاں ہیں اور میرے اختیار سے باہر ہیں۔‘

پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر اگر نظر ڈالیں تو ایک جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری چترال، دیر بالا اور ایبٹ آباد سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں اپنی انتخابی سرگرمیوں میں مشغول نظر آ رہے ہیں۔

دوسرے منظر میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور شہباز شریف صوبہ بلوچستان سمیت مختلف علاقوں میں پارٹی تنظیم سازی اور رابطوں میں مصروف ہیں۔

ایسے میں 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں برسر اقتدار آنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی انتخابی مہم پر نظر ڈالیں تو انھیں جلسے جلوس سمیت عوامی اجتماعات کی اجازت ملتی دکھائی نہیں دے رہی بلکہ ایسا کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاون کیا جانا بھی معمول ہے۔

اس کی حالیہ مثال گزشتہ دو روز کے دوران خیبرپختونخوا کے علاقے دیر بالا اور کرک میں ہونے والے پی ٹی آئی کے جلسوں میں دیکھی گئی۔

آخر ملک کے نگران وزیر اعظم کے اعلان کے باوجود دیگر جماعتوں کے برعکس پاکستان تحریک انصاف کو انتخابی مہم کے لیے مشکلات کا سامنا کیوں ہے۔ ہم نے اسی سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔

لیکن پہلے پی ٹی آئی کے کرک اور دیر بالا میں جلسوں کے بارے میں جان لیں۔

پی ٹی آئی جلسہ
،تحریک انصاف کے ضلعی صدر عنایت اللہ خٹک کے مطابق کرک میں جگہ جگہ پولیس کارکنوں کو روک رہی تھی

’رکاوٹوں کے باعث پلان بی تیار تھا جس پر عمل کر کے جلسہ گاہ پہنچے‘

پی ٹی آئی ضلع دیر کے صدرعنایت خٹک نے بتایا کہ انھوں نے سات نومبر کو مقامی انتظامیہ کو تحریری درخواست دی تھی کہ انھیں ٹاون ہال کرک میں 26 نومبر کو ورکرز کنوینشن کی اجازت کے لیے این او سی جاری کیا جائے تاہم دو ہفتے تک انھوں نے جواب نہ دیا جس کے بعد انھوں نے یاد دہانی کے لیے پھر درخواست دی جس پر انتظامیہ نے جواب دیتے ہوئے معذرت کر لی اور پھر پارٹی ورکرز کی گرفتاریوں کے لیے چھاپے مارے جانے لگے۔

عنایت خٹک نے بتایا کہ ’پولیس نے جلسے والے دن پورا علاقہ بلاک کر دیا۔ مرکزی روڈ بھی بند کر دی لیکن ہم نے ان کو جلسہ گاہ لانے کی حکمت عملی بنا رکھی تھی جس کے تحت ہم دو بجے کے قریب جلسہ گاہ تک آئے۔ اس دوران ورکرز کو روکنے کے لیے پولیس نے گولیاں تک چلائیں ہم تعداد میں بہت ذیادہ تھے اس لیے پھر پولیس پیچھے ہٹ گئی۔‘

’جلسہ کامیابی سے ہوا تاہم جیسے ہی ہمارے لوگ نکل کر گئے انھوں نے پکڑ دھکڑ شروع کر دی۔‘

پی ٹی آئی کرک کے ایک اور ضلعی عہدیدار مزمل احمد اتوار کے جلسہ کےانتظامات میں پیش پیش تھے۔

بی بی سی سے بات چیت میں انھوں نے کہا کہ صبح آٹھ بجے سے ہی پولیس نے علاقےکا محاصرہ شروع کر دیا تھا اور اسی علاقے میں 12 بجے جماعت اسلامی کا ایک جلسہ ہوا جس کے ختم ہوتے ہی علاقے میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی۔

’جلسہ کرنے کا ہمارا پلان بی اور پلان سی تیار تھا جس کے تحت رکاوٹوں کے باوجود ہم جلسہ گاہ کے قریب پہنچ گئے۔ ہماری تعداد زیادہ تھی جس پر پولیس نے پحچھے ہٹ کر راستہ دے دیا۔ ہم نے پر امن طریقے سے جلسہ کیا۔ جیسے ہی ورکرز باہر نکلے پھر انھوں نے پکڑنا شروع کر دیا۔‘

پی ٹی آئی رہنما مزمل احمد کے مطابق اس وقت تک کرک کے مختلف تھانوں میں پی ٹی آئی کے 600 کے قریب کارکنان پر دفعہ 144 کی خلاف ورزی سمیت مختلف دفعات کے تحت مقدمے درج کیے جا چکے ہیں جبکہ 50 سے زائد کارکنان بھی گرفتار کیے گئے ہیں۔

کرک میں تحریک انصاف کے جلسے سے ملتے جلتے حالات سنیچر کو دیر بالا میں بھی دیکھنے کو ملے تھے جہاں ورکرز کنوینشن کا انعقاد کیا گیا تاہم ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اس کنوینشن کو دفعہ 144 کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔

دیر بالا میں ورکرز کنوینشن کا انعقاد روکنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی جس سے پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شیر افضل مروت کوخطاب کرنا تھا، پولیس نے کارکنوں کو پنڈال تک پہنچنے سے روکنے کی کوشش کی تو صورتحال کشیدہ ہو گئی اس موقع پر پولیس اور کارکنوں کے درمیان جھڑپ کی بھی اطلاعات ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما شیر افضل مروت سے ہم نے سوال کیا کہ لوئر دیر میں انتظامیہ نے جلسے کا این او سی دیا تھا ؟ جس پر انھوں نے کہا کہ ہم نے پرائیوٹ پراپرٹی میں یہ اجتماع کیا تھا، این او سی کی ضرورت حکومت یا سرکاری ملکیت پر جلسے کے لیے درکار ہوتی ہے۔

’پی ٹی آئی کے سابق ممبر اسمبلی صبغت اللہ کے حجرے سے متصل پرائیوٹ پراپرٹی میں یہ اجتماع کیا گیا اور دفعہ 144 کا نفاذ تو سڑک یا عوامی جگہ پر ہوتا ہے، اس کا بہانہ بنا کرہمارے کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔‘

انھوں نے الزام لگایا کہ ’اس علاقے سے نو کلو میٹر کے فاصلے پر بلاول بھٹو نے پورے پروٹوکول کے ساتھ جلسہ کیا مگر تحریک انصاف کے لیے ان کا معیار دوہرا ہے۔‘

جلسے کی اجازت نہ ملنے پر انتظامیہ کا مؤقف

تحریک انصاف کے ضلعی صدر کی جانب سے ورکرز کنوینشن کے لیے اجازت نامے کی پہلی درخواست سات نومبر کو ڈپٹی کمشنر کے آفس میں جمع کروائی گئی۔ جس پر 23 نومبر کو ڈپٹی کمشنر کرک کی جانب سے جواب موصول ہوا کہ وہ سکیورٹی سمیت بعض دیگر وجوہات کے باعث یہ جلسہ نہیں کر سکتے۔

اس حوالے سے بی بی سی نے ڈپٹی کمشنر کرک کے آفس میں رابطہ کیا جس پر انتظامیہ کی جانب سے بتایا گیا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے انھیں جلسے کی درخواست موصول ہوئی جس پر ڈی پی او آفس سے بھی سکیورٹی کور کے تحت رپورٹ طلب کی گئی اور اس رپورٹ کی روشنی میں انھیں جلسہ کی اجازت نہ دی جا سکی۔

’گورنمنٹ خیبرپختونخوا سول انتظامیہ کے سیکشن 14 کے تحت ٹاون ہال کرک میں پی ٹی آئی کو جلسے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘

کرک انتظامیہ کے اہلکار کے مطابق ڈی پی او نے انتظامیہ کو اپنی رپورٹ میں بتایا کہ

  • پارا چنار میں تنازعات کے باعث ضلعی پولیس کی بڑی تعداد وہاں تعینات ہے
  • کرک میں پولیو مہم جاری ہے جس کی وجہ سے پولیس اہلکار ڈیوٹی پر ہیں۔
  • ریاست مخالف عناصر اور امن و امان کی صورتحال کے تناظر میں پولیس مصروف عمل ہے اس لیے جلسے میں سکیورٹی دینا ممکن نہیں۔

انتظامیہ کے اہلکار کا یہ بھی کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے جلسے میں بڑی تعداد میں اجتماع متوقع ہوتا ہے اور اس تناظر میں سول انتظامیہ کے سیکشن 14 پر عمل کرنا ممکن نہ تھا۔

جب ان سے دریافت کیا گیا کہ اس جلسے سے کچھ ہی گھنٹے قبل وہاں جماعت اسلامی کا جلسہ بھی منعقد ہوا تو اس کی اجازت کیسے دی گئی؟

اس پر ان کا موقف تھا کہ جماعت اسلامی نے انتظامیہ سے اجازت نہیں لی اور ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

پی ٹی آئی

’نہیں لگتا کہ انتخابات تک صورتحال میں تبدیلی آئے گی‘

صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے اس حوالے سے بی بی سی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو صاف نظر آ رہا ہے کہ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کے خلاف کیسز ہیں اور اس کے باعث ان تمام معاملات کا تانا بابا موجود ہے اور انھیں لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں مل رہی۔

انھوں نے کہا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ انتخابات تک اس صورتحال میں تبدیلی آئے گی۔‘

سہیل وڑائچ نے مزید کہا کہ ’اس وقت تحریک انصاف کو چاہیے کہ پیشرفت کے لیے ایسے صلح پسند لوگوں کو درمیان میں لائے جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے کر کے صلح صفائی کے مواقع مہیا کروا سکیں۔‘

سہیل وڑائچ کے مطابق ’ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ اس کی مثال بے نظیر کے دور میں دیکھیں جب ایسی ہی رکاوٹوں پر وہ مخدوم امین فہیم کو درمیان میں لائیں۔‘

’اور یہی کردار نواز شریف کے لیے راجا ظفر الحق نے ادا کیا تھا۔ ایسی حکمت عملی اپنانے سے ہی تحریک انصاف کا راستہ کھل سکے گا۔‘

’اس کے بغیر بات نہیں بنے گی‘

دوسری جانب صحافی اور اینکر عاصمہ شیرازی نے اس بارے میں کہا کہ ’مساوی مواقع نہ ملنے پر انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھیں گے اور اگر پی ٹی آئی کو انتخابی مہم کی اجازت نہیں ملی اور ان کے خلاف کریک ڈاون ختم نہ ہوئے تو انتخابات کا ماحول بن نہیں پائے گا اور اس کے بغیر بات نہیں بنے گی۔‘

عمران خان کی مقبولیت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’بلاشبہ عمران خان مقبول تو ہیں لیکن 2018 میں اتنے ہی مقبول اس وقت نواز شریف بھی تھے۔ بہرحال دیکھتے ہیں کہ کس طرح ووٹرز کو مقبولیت کے تناظر میں راغب کیا جائے۔‘

ان کے مطابق ’مقبولیت کو ووٹر کے ووٹ کی صورت میں سامنے آنا بھی ضروری ہے اور اس سے سیاسی جماعتیں آگاہ ہوتی ہیں۔‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں