آج کے اِس تیز رفتار دور میں بھی جنوبی پنجاب کے شہر لیہ سے صوبائی دارالحکومت لاہور پہنچنے میں لگ بھگ آدھا دن لگ جاتا ہے، اور لالا ہرکِشن لال تو سنہ 1882 میں اِس سفر پر نکلے تھے۔ وہ بھی پیدل!
13 اپریل 1864 کو پیدا ہونے والے ہر کشن لال کو والدین کی وفات کے بعد چچا لالا ہرجس رائے نے پالا اور پڑھایا۔ ہرکشن لال خود بھی لائق طالبعلم تھے اور وظیفہ لیتے تھے۔
وظیفے پر ہی انھیں لاہور کے ایک کالج میں داخلہ لینا تھا لیکن سفر کے لیے پیسے نہ تھے چنانچہ وہ پیدل ہی چل پڑے۔
اُن کے بیٹے کے ایل گابا کے مطابق انھوں نے ’کئی دن سفر کیا، زیادہ تر پیدل اور کہیں کوئی چھکڑا مل جاتا تو اس پر۔ دن میں سفر کرتے اور رات کو سڑک کنارے پُلوں پر سو جاتے۔‘
کتب فروشوں کا مقروض جو بینکوں کا مالک بنا
گابا لکھتے ہیں کہ ‘1890 میں انگلستان میں لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لیے رقم کی امید میں ہندوستان واپس آئے۔ ان میں سے زیادہ تر قرضے کتب فروشوں کے تھے۔ سو گورنمنٹ کالج میں ریاضی اور اورینٹل کالج میں فارسی پڑھانے لگے۔ سنہ 1891 میں دوبارہ بیرون ملک گئے اور اس کے بعد 1892 میں پہلے ڈیرہ اسماعیل خان اور پھر لاہور میں وکالت شروع کی۔
سنہ 1896 میں انھوں نے اپنے چند دوستوں سے مدد طلب کی، جن میں سے ایک دیال سنگھ مجیٹھیا تھے اور بھارت انشورنس کمپنی شروع کی، جو ایک مقامی شخص کی اپنی نوعیت کی پہل کاری تھی۔ اس سے ایک سال قبل انھوں نے پنجاب نیشنل بینک کی بنیاد رکھی تھی۔
بینک کے پہلے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں مجیٹھیا چیئرمین اور لالا ہر کشن اعزازی سیکریٹری تھے۔ لالا لاجپت رائے انارکلی لاہور میں آریا سماج مندر کے سامنے قائم اس بینک کے پہلے کھاتے دار بنے۔ ان کے چھوٹے بھائی بینک کے مینیجر تھے۔
لاہور سے باہر پہلی شاخ 1900 میں راولپنڈی میں کھولی گئی اور سنہ 1904 میں بینک نے کراچی اور پشاور میں اپنی شاخیں قائم کیں۔
لالا ہرکشن لال، مجیٹھیا کے اخبار دی ٹربیون کے ٹرسٹی بھی تھے۔
انھوں نے 1901 سے 1906 تک، کئی کمپنیاں اور مالیاتی ادارے قائم کیے جیسے پنجاب کاٹن پریس کمپنی، پیپلز بینک آف انڈیا، امرتسر بینک، کان پور فلور ملز، سنچری فلور ملز، صابن کے کارخانے، اینٹوں کے بھٹے، آرے، برف خانے اور لانڈری۔ پنجاب نیشنل بینک سمیت کچھ ادارے اب بھی کام کر رہے ہیں۔ یہ بینک پاکستان بننے سے پہلے ہی دلی منتقل ہو گیا تھا۔
لاہور میں آٹھ آنے فی یونٹ بجلی
دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ اس وقت کی پنجاب حکومت سرکاری دفاتر میں بجلی کی فراہمی چاہتی تھی۔ حکومت نے خود سے کئی بار اس ضمن میں کوشش کی جو ناکام رہی۔
سنہ 1910 میں اس کے لیے اشتہار دیا گیا جس میں یہ یقین دہانی بھی کروائی گئی کہ کامیاب بولی دینے والے کو لاہور شہر میں بجلی فراہم کرنے کا لائسنس بھی دیا جائے گا۔ اس اشتہار کے جواب میں بہت سی مقامی اور برطانوی کمپنیوں کے ٹینڈر آئے۔
اسی طرح کے کاروبار میں مصروف ’دلی الیکٹرک ٹرام ویز اینڈ لائٹنگ کمپنی لمیٹڈ‘ کے پاس لائسنس حاصل کرنے کا یہ بہترین موقع تھا۔ تاہم اس کمپنی کے لندن آفس نے ٹینڈر واپس لینے کا فیصلہ کیا۔
اس وقت لالا ہرکشن لال اس کمپنی کے لوکل بورڈ کے ڈائریکٹر تھے۔ 24 فروری 1911 کو اس فیصلے کا علم ہونے پر، لالا نے یہ کام خود ہی کرنے کا انتخاب کیا۔
ٹینڈر جمع کرانے کے لیے صرف چار دن باقی تھے۔
لالا نے اپنے بینک، پیپلز بینک آف انڈیا، کے نام پر ٹینڈر جمع کروا دیا جو اسی سال جولائی میں منظور ہو گیا۔
حکومت کی شرائط میں سے ایک یہ تھی کہ پندرہ منٹ سے اوپر بجلی جانے پر ہر بار 25 سے 200 روپے جرمانہ ہو گا۔
فروری 1912 میں لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی پانچ لاکھ روپے کے سرمائے سے قائم ہوئی۔ 21 مارچ 1912 کو رجسٹرڈ ہوئی۔ لا لا کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے پہلے چیئرمین بنے۔
تاریخ دان احمد سعید کے مطابق نومبر 1912 میں لاہور الیکڑک سپلائی کمپنی نے بجلی کی سپلائی کا سلسلہ شروع کیا اور گول باغ میں ایک افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔ افتتاح پنجاب کے لیفٹننٹ گورنر(1908-1913) لوئی ڈین نے کیا۔
تب کی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ ڈین نے اپنی تقریر میں کہا: ’لاہور کو بجلی سے روشن کرنے کے منصوبے کا اعلان ہر ممکنہ جگہ کیا گیا تھا تاکہ کوئی ایسا شخص اس کا بیڑا اٹھائے جو عوامی جذبے سے معمور ہو۔ تاہم یہ ایک ایسا کام تھا جسے خود ہندوستانی عوام نے انجام دیا۔ بنیادی طور پر ایسا جناب ہرکشن لال کی پہل کی وجہ سے ہے کہ یہ منصوبہ اتنی کامیابی سے شروع ہوا ہے۔‘
اگرچہ سپلائی تو 18 نومبر کو شروع کردی گئی تھی لیکن لائسنس کا گزٹ نوٹیفیکیشن 25 نومبر کو ہوا۔
سرکاری عمارتوں کو سب سے پہلے بجلی دی گئی۔ کنکشن کے لیے درخواستیں تیزی سے آئیں۔ چند ماہ کے اندر (31 مارچ 1913 کو ختم ہونے والے مالی سال کے اختتام تک) صارفین کی تعداد 98 تک پہنچ گئی تھی۔ اگلے سال تک یہ تعداد 542 اور اس کے بعد کے سال میں یہ بڑھ کر 884 ہو گئی۔
کمپنی نہ صرف اس مختصر وقت میں تمام ابتدائی اخراجات نمٹانے میں کامیاب رہی بلکہ ساڑھے سات فیصد منافع کمانے کا اعلان بھی کیا۔
بجلی کی طلب بڑھ رہی تھی اور مشینوں کی تبدیلی بھی درکار تھی لیکن پہلی عالمی جنگ کی وجہ سے کافی مشکلات تھیں۔ اس کے باوجود کمپنی، اپنے وسائل کے محتاط استعمال سے، سال 1915-16 کے لیے نو فیصد کے منافع کا اعلان کرنے میں کامیاب رہی۔ اگلے سالوں میں یہ بڑھتا گیا۔
احمد سعید اپنی کتاب ’لاہور اک شہرِ بے مثال‘ میں لاہور سے چھپنے والے اخبار ’بندے ماترم‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’بجلی لگانے کے لیے سرکلر روڈ پر بنسی لال اینڈ کمپنی قائم ہوئی جسے بجلی لگوانے کے لیے صرف اتنا لکھ دینا کافی تھا کہ ہمیں اتنے لیمپوں اور پنکھوں کی ضرورت ہے اور آپ کا کام ہو جاتا تھا۔‘
’سرکاری دفاتر کو چار آنے فی یونٹ اور عوام کو چھ آنے اور آٹھ آنے فی یونٹ کی شرح سے بجلی فروخت کی جاتی تھی۔ جو لوگ مقررہ وقت پر اپنا بل ادا کرتے ان سے کمپنی آٹھ آنے یونٹ کی بجائے چھ آنے وصول کرتی۔‘
’گھروں اور دفاتر وغیرہ میں بجلی ’روشن کرنے‘ کے اوقات پہلے سوا چھ بجے شام سے ساڑھے پانچ بجے تھے۔ پیسہ اخبار میں میونسپل کمیٹی کے سیکریٹری ہربھجن داس کے ایک اشتہار سے پتا چلتا ہے کہ 25 جنوری 1922 سے یہ آٹھ بجے شام سے ساڑھے چھ بجے صبح تک مقرر کیے گئے۔‘
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’مرقع چغتائی کا منصوبہ زیر تکمیل تھا۔ مالی وسائل کم تھے۔ جرمنی سے پرنٹس اور باقی کتاب یہاں لاہور سے چھاپنے کا فیصلہ ہوا۔ پیسہ محدود ہونے کی وجہ سے ایک چھوٹا سا پریس خریدا گیا اور دوبھائیوں، ایم اے رحمان چغتائی اور عبدالرحیم چغتائی نے پرنٹنگ خود کرنے کا فیصلہ کیا۔ محلہ چابک سواراں میں گھر میں پریس لگایا گیا، لیکن بجلی کا کنکشن دستیاب نہیں تھا۔ ہرکشن لال کو ایک درخواست بھیجی گئی۔ مصور کے لیے خصوصی رعایت کے ساتھ ان کے گھر پر بجلی کا کنکشن دیا گیا۔‘
سازش کا مقدمہ اور چپل میں عدالت حاضری
ہرکشن لال کا اثر و رسوخ، شہرت اور خوش قسمتی ہر ایک کو نہ بھائی۔
کے ایل گابا لکھتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے دیکھا کہ وہ لیفٹیننٹ گورنر کے ساتھ نمائش کا افتتاح کرنے ایک ہی ہاتھی پر سوار ہو کر جاتے ہیں۔ لاہور میں اپنی نوعیت کی صرف دو موٹر کاروں میں سے ایک میں سفر کرتے ہیں، جبکہ ان کے کئی حریف سائیکل، تانگہ یا فیٹن استعمال کرتے ہیں۔
’لالا جی کے پاس بھی ایک فیٹن تھا۔ اسے دو کی بجائے چار گھوڑے کھینچتے تھے۔ وہ کبھی کبھی اونٹ گاڑی بھی استعمال کرتے جو لیفٹیننٹ گورنر کی گاڑی سے مشابہ تھی۔۔۔ تو ان لوگوں نے سوچا کہ لالا کی اہمیت کم کرنے کا یہی وقت ہے۔‘
گابا کے مطابق سنہ 1913 میں آریا سماج کے ارکان نے اپنے اخبار ’آریا پتریکا‘ کے ذریعے ان کے بینک کے کھاتے داروں میں اضطراب اور خوف و ہراس پیدا کیا۔
لیفٹیننٹ گورنر مائیکل او ڈوئیر کو ہرکشن لال سے خاص بیرتھا۔ اپریل 1915 میں، پنجاب میں مارشل لا میں خلل ڈالنے کے الزام میں، لالا کو گرفتار کر کے جلا وطن کر دیا گیا اور پھر ایک خصوصی ٹریبونل کے ذریعے ان پر سازش اور بغاوت سمیت مختلف الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا۔
تب بجلی کمپنی اپنے نئے ترقیاتی منصوبے کو عملی شکل دینے میں مصروف تھی۔ لالا گرفتار ہوئے تو رائے بہادر موہن لال نے اسے چلایا۔
گابا لکھتے ہیں کہ لالا کے نجومی نے انھیں بتایا تھا کہ اگر مقدمہ او ڈوئیر کے دور میں ختم ہو گیا تو انھیں اور ان کے دوستوں کو پھانسی ہو جائے گی۔ دوسری صورت میں، وہ چھوٹ جائیں گے۔ دونوں صورتوں میں، لالا نے سوچا کہ اپنا وقت گزارنے کا بہترین طریقہ سونا ہے۔
’لالا بے پرواہی سے، نائٹ سوٹ اور چپل میں عدالت میں حاضر ہوتے اور کارروائی کے دوران خراٹے لے کر ججوں کو غصہ دلاتے۔‘
تاہم لالا نے دو سال کی کم سزا بھی پوری نہیں کی۔ مونٹاگو-چیمسفورڈ اصلاحات (1919) کے نفاذ کے بعد اور مونٹاگو کی سفارش پر عام معافی کا اعلان کیا گیا، ہرکشن لال اور ان کے ساتھیوں کو رہا کر دیا گیا۔ لالا نے جیل سے رہا ہونے پر کمپنی کی سربراہی پھر سنبھالی۔
پنجاب کا ’سب سے بڑا سرمایہ دار کوڑی کوڑی کو محتاج ہو گیا‘
سنہ 1919 ہی میں لالا ہرکشن لال کو پنجاب حکومت کا وزیر زراعت اور صنعت مقرر کر دیا گیا۔ موہن لال دوبارہ کمپنی کے چیئرمین بنے۔ ان کی موت کے بعد لالا ملک راج بھلا چیئرمین مقرر ہوئے۔
ڈھائی سال وزیر رہنے کے بعد ہرکشن لال کاروبار کی جانب واپس آ گئے۔
گابا لکھتے ہیں کہ ذاتی دولت کے لحاظ سے پنجاب میں بھی لالا سے کم از کم آدھ درجن آدمی زیادہ امیر تھے۔ لیکن تنوع اور ذاتی اثر و رسوخ میں ملک میں بہت کم لوگ ان کے ہم پلہ تھے۔
ان کے مطابق ’ایک اہم بینک، ایک انشورنس کمپنی (جو سالانہ کاروبار اور پریمیم آمدن میں ہندوستان میں پہلی تین میں سے ایک تھی)، چھ یا سات فلور ملیں، چینی کے کارخانے اور بجلی سپلائی کمپنیاں، مختلف ایجنسیاں اور سٹور۔ وہ ہندوستان میں ممکنہ طور پر کسی دوسرے شخص سے زیادہ کمپنیوں کے چیئرمین تھے۔ ان کی آمدن بہت زیادہ تھی۔‘
’ان کی ملوں میں ہزاروں ملازمین تھے۔ ان کے کاروبار نے یورپ میں برآمد کنندگان اور مینوفیکچررز کی توجہ مبذول کروائی۔ صوبائی حکومتیں صنعتی اور اقتصادی سکیموں کو فروغ دینے کے لیے ان سے مشورے لیتیں۔‘
لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی نے بجلی فراہمی کا دائرہ کامیابی کے ساتھ ذیلی کمپنیوں کے ذریعے سیالکوٹ، روہتک اور حصار، راوڑی اور سرسا، پشاور، لاڑکانہ، کٹنی اور بلاس پور، فرخ آباد، سراج گنج اور شاہدرہ تک پھیلا دیا۔
کمپنی نے شاہدرہ پاور سٹیشن سے 1930 سے 1933 تک امرتسر کو بھی بجلی فراہم کی۔ وہاں حکومت کے ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ میں تاخیر تھی۔ یہ فراہمی تب بند ہوئی جب ہائیڈرو الیکٹرک سسٹم فعال ہو گیا۔
1931 کی کساد بازاری سے ہر کاروبار کی طرح ان کا کاروبار بھی متاثر ہوا۔
یہی وہ وقت تھا جب ان کے محسن سر شادی لال کی جگہ سر ڈگلس ینگ پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ شادی لال ہرکشن لال کے تئیں مثبت رویہ رکھتے تھے اور ان کے خلاف شکایات سے صَرفِ نظر کرتے۔
مگر ینگ نے ہرکشن لال کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی حوصلہ افزائی کی۔ انھیں توہین عدالت، دیوالیہ پن اور ریسیور شپ (باقی داری) کا مجرم قرار دیا گیا۔
سوم آنند لاہورسے دلی منتقل ہوئے تھے۔ 1976 میں چھپی اپنی کتاب ’باتیں لاہور کی‘ میں لکھتے ہیں: ‘ہرکشن لال دولت و ثروت کی جس مسند پر بیٹھے تھے وہ جلد ہی ان سے چھن گئی۔‘
’پنجاب کا سب سے بڑا سرمایہ دار کوڑی کوڑی کو محتاج ہو گیا۔ ایک زمانہ تھا کہ لاہور کی سیاسی و سماجی زندگی کا کوئی ذکر ہرکشن لال کا نام لیے بغیر مکمل نہیں ہوتا تھا۔‘
ان آزمائشوں کے دوران ہی میں ہرکشن لال 13 فروری 1937 کو وفات پا گئے۔
کے ایل گابا اپنے والد پر لکھے مضمون میں کہتے ہیں: ’کیا لالا ہرکشن لال اپنے وقت کے سب سے بڑے ناکام یا کامیاب ترین آدمی تھے؟ شاید وہ دونوں ہی تھے۔‘
’چاہے وہ کامیاب تھے یا ناکام، اس سے اختلاف نہیں کیا جائے گا کہ وہ اپنے وقت کے سب سے غیر معمولی آدمیوں میں سے ایک تھے۔‘
وہ لکھتے ہیں: ’وہ کفایت شعار تھے لیکن شاہانہ میزبانی کرتے۔ وائسرائے کو اپنی گفتگو اور وائسرائن کو اپنے ہیرے کے بٹنوں کی چمک سے حیران کرتے۔ مانچسٹر اور برمنگھم کے حوالے سے سوچتے لیکن سودیشی لحاظ سے کام کرتے۔‘
’ہر آدمی بھکاری ہے‘
لاہور کی کوینز روڈ پر گنگا رام ہسپتال کے سامنے جہاں اب فاطمہ جناح میڈیکل کالج ہے، لالا کا شان دار گھر تھا۔
اسی گھر کے حوالے سے کے ایل گابا لکھتے ہیں: ’اگرچہ لالا ہرکشن لال نے ایک محل بنایا تھا لیکن خود ایک چھوٹے سے کمرے میں رہنے کو ترجیح دی جو بیڈروم، ڈریسنگ روم اور نیم دفتر تھا۔‘
’اس کمرے کی سجاوٹ کے لیے انھوں نے ایک مصور کو پنجاب کا سفر کرنے اور بھکاریوں کی تصویریں بنانے کا حکم دیا۔‘
’تقریباً ایک سو ایسی تصویروں کے درمیان وہ رہتے اور کام کرتے تھے۔ پوچھا جاتا کہ یہ سب کیا ہے، تو وہ کہتے: ہر آدمی بھکاری ہے۔ میں نے زندگی کا آغاز غربت میں کیا تھا اور میرے اردگرد یہ تصویریں مجھے کبھی بھولنے نہیں دیں گی کہ میری ابتدا کیا تھی۔‘