سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی ایون فیلڈ اور العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمات میں احتساب عدالت کی طرف سے ملنے والی سزاؤں کے خلاف اپیلوں کی سماعت آج اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوگی۔
چیف جسٹس عامر فاورق کی سربراہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا دو رکنی بینچ ان اپیلوں کی سماعت کرے گا۔ یہ بینچ قومی احتساب بیورو کی طرف سے ان سزاوں میں اضافہ کرنے سے متعلق درخواستوں کی سماعت بھی کرے گا۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے جولائی سنہ 2018 میں ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے میاں نواز شریف کو 10 سال قید اور آٹھ ملین برطانوی پاونڈ جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ ان کی بیٹی مریم نواز کو سات سال قید اور دو ملین برطانوی پاونڈ جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے ستمبر سنہ 2022 میں مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کی طرف سے ان سزاؤں کیخلاف اپیلوں میں ان دونوں کو اس ریفرنس میں بری کر دیا تھا۔
اس وقت کے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی ضمانت کی درخواست منظور کرلی تھی۔
العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں اس وقت کے احتساب عدالت کے جج محمد ارشد نے دسمبر 2018 میں میاں نواز شریف کو سات سال قید کی سزا سنائی تھی جبکہ فیلگ شپ ریفرنس میں بری کر دیا تھا۔
احتساب عدالت کے جج محمد ارشد کی جولائی سنہ 2019 میں ایک متنازع ویڈیو بھی سامنے آئی تھی جس میں ان کو مبینہ طور پر یہ کہتے سنا گیا کہ ان پر نواز شریف کو سزا دینے کے لیے دباؤ تھا۔
ہائیکورٹ کی اجازت سے علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی وجہ سے میاں نواز شریف کی ایون فیلڈ اور العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں ملنے والی ضمانتیں منسوخ ہونے کے ساتھ ساتھ انھیں اشتہاری بھی قرار دیا گیا تھا۔ تاہم تقریبا چار سال کے بعد وطن واپس آنے اور متعلقہ عدالت میں پیش ہونے پر عدالت نے گزشتہ ماہ ان کی ضمانتیں بحال کر دیں اور ان کو اشتہاری قرار دینے کا حکم نامہ بھی منسوخ کر دیا تھا۔
اعظم نذیر تارڑ اور امجد پرویز سابق وزیر اعظم کی طرف سے دائر کی جانے والی ان اپیلوں پر دلائل دیں گے۔ گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو روزانہ کی بنیاد پر ان اپیلوں کی سماعت کی جائے گی۔
عدالت نے نیب کے پراسکیورٹر سے جب استفسار کیا کہ انھیں ان اپیلوں پر جواب دینے کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا تو نیب کے پراسکیوٹر کا کہنا تھا کہ انھیں مجرم کی طرف سے دائر ان اپیلوں کا جواب دینے کے لیے صرف آدھا گھنٹہ درکار ہوگا۔
اسلام آباد پولیس نے اس ضمن میں سکیورٹی پلان مرتب کیا ہے اور کسی بھی غیر متعقلہ شخص کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ متعقلہ عدالت میں داخلے کے لیے بھی رجسٹرار آفس سے خصوصی پاس جاری کیے جائیں گے۔
واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خلاف یہ مقدمات پاناما لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد درج کیے گئے تھے اور سپریم کورٹ نے یہ احکامات پاناما لیکس سے متعلق دائر درخواستوں پر دیے تھے جن میں سے ایک درخواست گزار سابق وزیر اعظم عمران خان بھی تھے۔