غزہ شہر میں اسرائیل کی فوجی مہم غالباً اپنے آخری مراحل میں ہے۔
اسرائیل کے یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے لیے عارضی جنگ بندی کے معاہدے کے دوران اسرائیلی فوج کی کارروائیاں چار سے نو دن تک رُک گئی ہیں۔ عارضی جنگ بندی کا دار و مدار اس بات پر منحصر ہے کہ حماس کتنے یرغمالیوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔
اسرائیلی ماہرین کو توقع ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے کے خاتمے کے ساتھ ہی غزہ شہر پر کنٹرول حاصل کرنے کی جنگ دوبارہ شروع ہو جائے گی جو مزید ایک ہفتے سے 10 دن تک جاری رہے گی۔
لیکن اس صورت میں کیا ممکنات ہیں جب ایک طرف وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے متنبہ کیا ہے کہ اسرائیلی فوج اپنی توجہ جنوبی غزہ کی پٹی کی طرف موڑ لے گی۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے حماس کو جڑ سے ختم کرنے کا عزم ظاہر کر رکھا ہے۔ یہ فرض کیا گیا ہے کہ گروپ کے سب سے اہم رہنما یحییٰ سنوار اور محمد دیف، ہزاروں جنگجوؤں اور ممکنہ طور پر اسرائیلی یرغمالیوں کی ایک خاصی تعداد کے ساتھ جنوب میں کہیں موجود ہیں۔
اگر اسرائیل جنوب کے ساتھ وہی کرنے کا فیصلہ کرتا ہے جو اس نے پہلے ہی غزہ کے شمال میں کیا ہے، تو کیا مغربی ممالک، خاص طور پر امریکہ، سے اس کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں؟
17 لاکھ بے گھر افراد کی مشکلات میں اضافہ
ایک اندازے کے مطابق اس وقت غزہ کی پٹی کے جنوب کے تقریبا دو تہائی حصے میں 22 لاکھ افراد نقل مکانی کر کے آئے ہیں۔ ان میں سے بہت سے بے گھر اور صدمے کا شکار ہیں۔ کیا یہ صورتحال ایک بڑی انسانی آفت کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے؟
المواسی نامی جگہ کے ریتیلے کھیتوں کے درمیان آباد خیموں کو سینکڑوں فلسطینیوں کے لیے آخری سہارا بھی کہا جا رہا ہے۔
فلسطینیوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (Unrwa) کے مطابق سات اکتوبر سے غزہ پر اسرائیل کے جوابی حملوں کے بعد سے غزہ کی پٹی میں تقریباً 17 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر جنوب میں لوگوں کے ہجوم سے گھرے خیموں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے اہلکاروں نے پہلے ہی اس صورت حال پر تشویش کا اظہار کر رکھا ہے جہاں دسیوں ہزار لوگ سکولوں، ہسپتالوں اور بعض صورتوں میں خیموں میں کسمپرسی کی حالت میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
موسم سرما کی بارشیں قبل از وقت شروع ہونے سے سیلابی صورتحال پیدا کر دی ہے جس سے مسائل میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔
کئی ہفتوں سے اسرائیلی حکام ایک نام نہاد ’محفوظ علاقے‘ کے نام پر ایک ایسے جگہ کی بات کر رہے ہیں جو بحیرہ روم کے ساتھ مصر کی سرحد کے قریب ایک پتلی پٹی نما علاقہ ہے جو زیادہ تر زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
گزشتہ ہفتے خان یونس میں فضائی حملوں کے بارے میں خبردار کرنے والے کتابچے گرائے گئے تھے جن میں لوگوں کو مغرب میں سمندر کی جانب بڑھنے کا کہا گیا تھا۔
جمعرات کو سوشل میڈیا پر کی جانے والی ایک پوسٹ میں، آئی ڈی ایف کے ترجمان ایویکے ایدری نے غزا کے شہریوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ المواصی آپ کے پیاروں کی حفاظت کے لیے مناسب حالات فراہم کرے گا۔‘
لیکن جنگی حالات کے دوران وہاں 20 لاکھ سے زیادہ لوگوں کا پناہ لینا کتنا حقیقت پسندانہ ہے اور کیا المواصی ان حالات کے لیے تیار ہے؟
اس نقشے کی مدد سے کھیتوں، گرین ہاؤسز اور بکھرے ہوئے مکانات کی پیچیدگی اور گنجانیت دیکھی جا سکتی ہے۔
اگرچہ اس کو حتمی طور پر بتانا مشکل ہے تاہم اسرائیل کے مطابق یہ علاقہ چوڑائی میں تقریباً ڈھائی کلومیٹر (1.6 میل) چوڑا ہے جبکہ اس کی لمبائی چار کلو میٹر (205 میل) سے تھوڑی زیادہ ہے۔
اسرائیل میں فلسطین کے امور کے لیے حکومتی سرگرمیوں کے کوآرڈینیٹر کے سابق مشیر ڈاکٹر مائیکل ملشٹین اس جگہ کو انتہائی خوبصورت اور ایسا پھل دار علاقہ کہتے ہیں جو حجم میں بہت چھوٹی ہے۔
امدادی ایجنسیوں کا نقطہ نظر اس سے سخت ہے۔
اقوام متحدہ کے کمیونیکیشنز کی ڈائریکٹر جولیٹ ٹوما کہتی ہیں’یہ زمین کا ایک چھوٹا ٹکڑا ہے۔ وہاں ریت کے ٹیلوں اور کھجور کے درختوں کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔‘
ایک ایسا مقام جہاں بنیادی انفراسٹرکچر کی کمی ہے اور کوئی ہسپتال تک موجود نہیں وہاں لاکھوں بے گھر لوگوں کو آباد کرنے لیے پناہ گاہ قائم کرنے کی کوئی بھی کوشش اقوام متحدہ کے لیے ایک بڑا انسانی چیلینج ثابت ہو گا۔
یاد رہے کہ غزہ کی زیادہ تر آبادی ان پناہ گزینوں سے تعلق رکھتی ہے جو 1948 میں اسرائیل سے بے دخل ہونے کے بعد خیموں میں آباد ہوئے تھے۔
غزہ کی پٹی میں پہلے ہی آٹھ پناہ گزین کیمپ موجود ہیں جو کئی دہائیوں کے دوران گنجان آباد قصبوں میں تبدیل ہو چکے ہیں اور اب اقوام متحدہ کسی اور کیمپ کے قیام کے لیے ذمہ دار نہیں بننا چاہتی۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ یہ امدادی ایجنسیوں پر منحصر ہے کہ وہ 10 کلومیٹر سے زیادہ دور رفع کراسنگ سے المواصی تک مدد کو یقینی بنائیں۔ تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ عملی طور پر کیسے کام کرے گا۔
امریکی حکام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اضافی محفوظ علاقوں پر بات چیت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس میں ممکنہ طور پر غزہ کی پٹی کے انتہائی جنوبی سرے پر الدھنیہ کا علاقہ بھی شامل ہے۔
جمعے سے نافذ العمل ہونے والے یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کی شرائط کے تحت اسرائیل کو ہر روز امداد کے 200 ٹرکوں کو غزہ جانے کی اجازت دینا ہو گی جو حالیہ ہفتوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
تاہم 16 نومبر کو اقوام متحدہ کی 18 ایجنسیوں اور فلسطینی شہریوں کو امداد فراہم کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کے سربراہوں کا ایک بیان اسرائیل کے منصوبوں کو یکسر مسترد کرتا دکھائی دیتا ہے۔
اس بیان میں انھوں نے کہا ہے ’ہم غزہ میں کسی بھی ایسے ’محفوظ زون‘ کے قیام میں حصہ نہیں لیں گے جو تمام فریقین کے معاہدے کے بغیر قائم کیا گیا ہو۔‘
اقوام متحدہ کے حکام کا کہنا ہے کہ فریقین میں اسرائیل، حماس اور مغربی کنارے کی فلسطینی اتھارٹی شامل ہیں۔
المواصی کا نام لیے بغیر، 16 نومبر کے بیان میں خبردار کیا گیا کہ اسرائیل کی یکطرفہ تجاویز بہت سی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔
بیان پر دستخط کرنے والوں میں شامل عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس گیبریئس نے ان منصوبوں کو ’تباہی کا نسخہ‘ قرار دیا۔
انھوں نے کہا ’لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کو اتنے کم انفراسٹرکچر یا سہولیات کے ساتھ اتنے چھوٹے علاقے میں سمونے کی کوشش صرف تباہی ہے جو اُن لوگوں کے لیے بھی صحت کے خطرات میں نمایاں اضافے کا سبب بنے گا جو پہلے ہی تباہی کے دہانے پر موجود ہیں۔‘
اسرائیلی حکام نے اس کا ذمہ دار حماس کو قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ حماس کو ان خطرات کی پروا نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ المواصی ایک ایسا علاقہ ہے جس پر اسرائیلی فورسز نے حملہ نہ کرنے کا عہد کیا ہے۔
آئی ڈی ایف کے ایک ترجمان لیفٹیننٹ کرنل رچرڈ ہیچٹ کہتے ہیں کہ ’یہ سب بہت سنگین ہو گا تاہم وہ زندہ رہیں گے۔‘
اسرائیل کے لیے یہ فوجی حکمت عملی اورضرورت کا تقاضا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح حماس غزہ شہر میں سرایت کر گئی تھی بالکل اسی طرح اس گروپ کے جنگجو اور تنظیم کا بنیادی ڈھانچہ خان یونس اور رفع میں موجود ہیں۔
اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ حملے سے پہلے شہری آبادی کو منتقل کرنا دراصل حماس کو شکست سے دوچار کرنے کا انسانی طریقہ ہے۔
اسرائیل کے سابق قومی سلامتی کے مشیر، ریٹائرڈ میجر جنرل یاکوف امیڈور کہتے ہیں کہ ’اسرائیل کے لوگ اس صورتحال کو پسندیدہ قرار نہیں دے رہے جس میں غزہ کے باشندے المواصی میں آنے والی سردیوں کی بارش میں بھیگ رہے ہوں۔ لیکن اس کا متبادل کیا ہے؟ اگر کسی کے پاس اس کا متبادل موجود ہے کہ اس کے بغیر حماس کو کیسے تباہ کیا جائے تو براہ کرم ہمیں بتائیں۔‘
آنے والے دنوں میں سرد موسم کی سختیاں اور لاکھوں لوگوں کا ہجوم ان مصائب میں مزید اضافہ ہی کرے گا اور اس سے غزہ میں اسرائیل کی فوجی مہم ہر بین الاقوامی تشویش میں اضافہ ہو گا۔
ایک مغربی اہلکار نے شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر مجھے بتایا کہ ’اس علاقے میں ایک نئی بڑی زمینی کارروائی کرنے سے بے شمار شہریوں کی ہلاکتوں اور بے گھر ہونے کا خطرہ ہے جس سے اسرائیل کے لیے بین الاقوامی ہمدردی کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔‘
’سوال یہ ہے کہ مغرب کا صبر کب تک قائم رہے گا۔‘
اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کی حکومت جانتی ہے کہ وہ سات اکتوبر کو حماس کی طرف سے حملے کے بعد مغربی خیر سگالی کے اظہار پر اعتماد کر سکتی ہے۔
لیکن اسرائیلی حکام یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ ہمدردی اور ساتھ کے یہ بے مثال جزبات لامتناہی نہیں ہیں اور یہ کہ جب یرغمالی کے چھوڑنے پر شروع ہونے والی جنگ بندی ختم ہو جائے گی اور اسرائیل اپنی فوجی مہم دوبارہ شروع کرے گا تو اسے تحمل کا مظاہرہ کرنے کے بین الاقوامی مطالبات میں اضافے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
2021 سے 2023 تک اسرائیل کی قومی سلامتی کونسل کی سربراہی کرنے والی ڈاکٹر ایال ہلاتا کہتی ہیں ’مجھے یقین ہے کہ جنگ بندی ختم ہونے کے بعد بین الاقوامی دباؤ انھیں نہیں روک سکے گا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے امید ہے کہ وزیر اعظم نتن یاہو کی حکومت ان کے دباؤ میں نہیں آئے گی۔ اسرائیلی شہریوں کو اپنے رہنماؤں سے یہی توقع ہے۔‘
سردیوں کی آمد کے ساتھ اسرائیل اپنی مہم کے فیصلہ کن اگلے مرحلے کی تیاری کر رہا ہے۔ تاہم شہری آبادی کو درپیش مسائل سے نمٹنے کے طریقہ کار پر اب تک کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ غزہ کی طویل اذیت جاری رہے گی اور شاید پہلے سے زیادہ خراب بھی۔