اسرائیلی ڈیفنس فورسز کی جانب سے تصدیق کی گئی ہے کہ حماس نے 17 یرغمالیوں کو مصر کے حوالے کر دیا ہے جن میں 13 اسرائیلی اور چار تھائی لینڈ کے شہری ہیں۔
ان یرغمالیوں کو گذشتہ روز کی طرح ریڈ کراس کے حوالے کیا گیا تھا جن کے ذریعے انھیں مصری حکام کے حوالے کیا گیا ہے۔
حماس کی جانب سے یرغمالیوں کی رہائی ان خدشات کی دوری کے بعد کی گئی ہے جن کے باعث اس تبادلے میں تاخیر ہو رہی تھی۔
قطری اور مصری حکام کی کوششوں کے بعد یہ معاملہ حل ہوا اور حماس کی جانب سے 17 یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہو سکی۔
قطری وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے کچھ دیر قبل اعلان کیا تھا کہ اسرائیل آج رات 39 فلسطینیوں رہا کرے گا اور قطری اور مصری ثالثی کی کوششوں کے ذریعے کچھ دیر قبل پیش آنے والی رکاوٹوں کو دور کر دیا گیا ہے۔
تاحال ان فلسطینیوں کی اسرائیلی جیلوں سے رہائی کی تصدیق نہیں ہوئی ہےـ
خیال رہے کہ کچھ گھنٹے قبل حماس کے ایک سینیئر اہلکار نے دعویٰ کیا تھا کہ حماس کی جانب سے یرغمالیوں کی رہائی میں تاخیر کی جا رہی ہے کیونکہ اسرائیل نے انسانی بنیادوں پر کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔
انھوں نے بی بی سی کے نامہ نگار رشدی ابوالعوف سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ’اسرائیل نے شمالی غزہ میں امدادی سامان کے ٹرکوں کا داخلہ روکا ہے اور اب تک صرف 100 میں سے صرف تین ٹرک شمالی غزہ میں داخل ہو سکے ہیں۔‘
حماس کے اہلکار نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ اسرائیل نے جنوبی غزہ کے اوپر سے ڈرون اڑا کر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی۔
حماس اہلکار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اسرائیل نے رہا ہونے والے فلسطینی قیدیوں کی فہرست میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کیا۔‘
ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے دو فلسطینیوں کو غزہ کے شہر بیت حانون میں ہلاک کیا ہے جہاں فلسطینیوں کو آزادانہ طور پر گھومنے کی اجازت ہے۔ اسرائیل نے ان تمام الزامات کی تردید کی ہے۔
خیال رہے کہ یہ پیش رفت ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ میں چار روزہ وقفے کے معاہدے میں توسیع کا امکان پیدا ہوا تھا۔
سفارتی ذرائع نے کچھ دیر قبل بی بی سی کو بتایا تھا کہ چار روزہ وقفے میں توسیع کے لیے راہ ہموار ہوئی ہے۔ ان کے مطابق جنگ بندی کی نگرانی کرنے والی آپریشنز ٹیم اور قطری حکام پر مشتمل وفد اسرائیل کے دورے پر ہے اور وہ معاہدے میں توسیع پر بات چیت کر رہا ہے۔
موجودہ معاہدے کے تحت حماس 50 اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے 150 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔ اس معاہدے میں جنگ میں وقفے میں پانچ روزہ توسیع کی شرط بھی شامل ہے جس کا مطلب مزید رہائیاں ہوں گی۔ قطر کی ثالثی میں اس عارضی جنگ بندی کے معاہدے کے تحت قیدیوں کا تبادلہ تین ایک کے تناسب سے کیا جا رہا ہے۔
سنیچر کو اسرائیلی حکام کا کہنا تھا کہ اس کی جانب سے 42 فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے حماس مزید 13 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گا۔
بین الاقوامی امدادی ادارے ریڈ کراس کا کہنا تھا کہ جمعے کو غزہ کی پٹی میں حماس کی قید سے 24 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا گیا تھا۔ دوسری جانب اسرائیلی حکام نے 39 فلسطینیوں کو مغربی کنارے کے قریب بيتونيا چیک پوسٹ پر رہا کیا جن میں 24 خواتین اور 15 کمسن لڑکے شامل ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے مغویوں کی رہائی کے حوالے سے کہا ہے کہ ’ہم نے اپنے اوّلین یرغمالیوں کی واپسی کا عمل مکمل کر لیا ہے جن میں مائیں بچے اور دیگر خواتین شامل ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنی ذات میں مکمل دنیا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اپنے تمام یرغمالیوں کی واپسی کے لیے پرعزم ہیں۔‘
حماس کی قید سے رہائی پانے والوں میں اسرائیلی شہری یونی اشر کی اہلیہ ڈورون اشر اور ان کی دو بیٹیاں بھی شامل ہیں جن کی عمریں دو اور چار سال ہیں۔
یونی اشر نے بی بی سی کو بتایا، ’میں اپنے خاندان کو صدمے اور اس ذہنی اذیّت سے نکال کر دوبارہ زندگی کی جانب واپس لانے کے لیے پُرعزم ہوں۔ میں اپنے پیاروں کی رہائی کا اس وقت تک جشن نہیں مناؤں گا جب تک کہ آخری مغوی کی واپسی بھی نہ ہو جائے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’مغوی کے اہل خانہ پوسٹر یا نعرے نہیں ہیں۔ وہ حقیقی لوگ ہیں، اور مغوی کے اہل خانہ آج سے میرا نیا خاندان ہیں، اور میں اس بات کو یقینی بناؤں گا اور سب کچھ کروں گا کہ مغوی کا آخری گھر پہنچ جائے۔‘
اسرائیلی شہری ایتے راوی کے خاندان کے تین افراد کو بھی حماس کی قید سے رہائی ملی ہے تاہم ان کے 78 سالہ کزن ابراہم تاحال قید میں ہیں۔
اپنے خاندان کے تین افراد کی رہائی کے بعد وہ کہتے ہیں’خوش رہنے کی طرف یہ ایک قدم ہے۔‘
انھوں نے بی بی سی نیوز نائٹ کو بتایا ’ تاہم ہم پوری طرح خوش نہیں ہو سکتے۔ یہ اب بھی ایک بہت ہی خوفناک حقیقت ہے جس میں ہم موجود ہیں۔‘
’ بہت سے لوگوں کی موت کے بعد ہو نے والا معاہدہ ہمیں غمزدہ کر رہا ہے‘
دوسری جانب قیدیوں کے تبادلے کے اس معاہدے کے تحت اسرائیلی جیلوں سے مجموعی طور پر 39 فلسطینیوں کو بھی رہائی ملی ہے۔
24 خواتین اور 15 نوجوانوں پر مشتمل گروہ کو مغربی کنارے میں بیتونیہ چوکی کے پار رہا کیا گیا خوشی سے نعرہ لگاتے ایک ہجوم نے ان کا استقبال کیا۔
رہا ہونے والے ایک فلسطینی قیدی کا نام مرہ باکیر ہے جنھیں 2015 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب ان کی عمر 16 برس تھی۔ ایک پولیس افسر پر چاقو سے حملے کا الزام میں انھیں ساڑھے آٹھ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
مرہ باکیر نے صحافیوں کو بتایا ’ معاہدے کی خبر حیرت انگیز تھی تاہم یہ معاہدہ بہت سے لوگوں کی موت کے بعد ہوا ہے جو ہمیں غمزدہ اور بے چین کر رہا ہے۔‘
مرہ کے مطابق انھیں قید تنہائی میں رکھا گیا تھا۔
’مجھے اس بات کا کوئی علم نہیں تھا کہ باہر کیا ہو رہا ہے، نہ غزہ کی صورت حال کے بارے میں کوئی اندازہ تھا۔‘
حراست میں لیے گئے افراد کا انتخاب اسرائیل کی طرف سے مرتب کی گئی 300 خواتین اور نابالغوں کی فہرست سے کیا گیا تھا۔
ان تمام قیدیوں پر پتھر پھینکنے سے لے کر قتل کی کوشش تک کئی الزام عائد ہیں جن میں سے کچھ پر فرد جرم عائد کر دی گئی تھی جبکہ جبکہ دیگر مقدمے کا انتظار کر رہے تھے۔
اس فہرست میں شامل ایک چوتھائی سے بھی کم افراد کو سزا سنائی گئی ہے اور زیادہ تر فلسطینیوں کو مقدمے کی سماعت کے انتظار میں ریمانڈ پر رکھا جا رہا ہے۔
ان قیدیوں میں سے زیادہ تر نوعمر لڑکے ہیں جن میں سے چالیس فیصد کی عمریں 18 سال سے کم ہیں جبکہ ایک نوعمر لڑکی اور 32 خواتین بھی شامل ہیں۔
غزہ میں امداد کی فراہمی پر اتفاق
واضح رہے کہ قطر نے اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدے میں ثالثی کی ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ میں چار روزہ وقفے کے دوران یرغمالیوں کے تبادلے کا آغاز کیا گیا تھا۔
اسرائیلی سرکاری میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ 13 اسرائیلی یرغمالیوں کو ریڈکراس کے حوالے کیا گیا ہے جہاں سے انھیں رفح کراسنگ کے ذریعے پہلے مصر لے جایا جائے گا اور پھر وہاں سے فوجی ہیلی کاپٹرز کے ذریعے اسرائیل لایا جائے گا۔
خیال رہے کہ جنگ میں وقفے کے آغاز کے بعد جمعے کے روز حماس کی جانب سے 13 اسرائیلی شہریوں جبکہ اسرائیل نے اپنی حراست میں موجود 39 فلسطینیوں کو رہائی دی ہے۔
جمعے کی صبح سے شروع ہونے والے اس عارضی جنگ بندی کے دوران حماس کے پاس موجود 50 اسرائیلی یرغمالیوں اور اسرائیل کی جیلوں میں قید 150 فلسطینیوں کی رہائی کے علاوہ غزہ میں امداد کی فراہمی پر اتفاق کیا گیا تھا۔
اسرائیل نے حماس کو مزید یرغمالیوں کی رہائی کی ترغیب دیتے ہوئے جنگ بندی کی مدت میں اضافے کی پیشکش بھی کی ہے۔
یہ سات اکتوبر سے شروع ہونے والی لڑائی میں پہلا وقفہ ہے تاہم اسرائیل نے واضح کیا ہے کہ یہ وقفہ جنگ کا خاتمہ نہیں۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان نے جمعے کی صبح ایک بیان میں کہا ہے کہ ’انسانی ہمدردری کے تحت یہ وقفہ عارضی ہے‘۔
انھوں نے غزہ کے شہریوں کو مخاطب کر کے کہا کہہ ’شمالی غزہ ایک خطرناک علاقہ ہے اور شمال کی جانب سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اپنے تحفظ کے لیے جنوب میں ہی رہیں۔‘
اسرائیلی حکومت نے حماس کا نام و نشان مٹانے کا عزم ظاہر کیا ہے اور تمام یرغمالیوں کی رہائی کی امید ظاہر کی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ یہ معاہدہ غزہ میں موجود اسرائیلی یرغمالیوں کی ’ناقابل بیان آزمائش‘ کا خاتمہ کرے گا اور ’معصوم فلسطینی خاندانوں کے مصائب کو کم کرے گا۔‘
اسرائیلی حکومت متعدد مرتبہ حماس کو ’جڑ سے اکھاڑ پھینکنے‘ اور 200 سے زائد اسرائیلی مغویوں کی واپسی کو اس جنگ کا اہم مقصد بتاتی ہے۔
حماس، جسے اسرائیل، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک دہشت گرد تنظیم قرار دیتی ہیں، نے کہا ہے کہ اس معاہدے سے فلسطینیوں کو شدید اسرائیلی فضائی اور زمینی حملوں کے بعد بحالی کا وقت ملے گا۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق ان اسرائیلی حملوں میں 14,000 سے زیادہ فلسطینی مارے گئے ہیں۔
جمعے کی صبح عارضی جنگ بندی کے آغاز سے چند گھنٹے پہلے تک غزہ پر اسرائیلی حملے جاری تھے اور علاقے سے مسلسل گولہ باری اور فائرنگ کی آوازیں سنی جا سکتی تھیں تاہم مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے لڑائی میں وقفے کی مقررہ مدت کے شروع ہونے کے بعد آہستہ آہستہ خاموشی چھا گئی۔
’50 اسرائیکلی یرغمالیوں کو 12 اور 13 افراد کے گروپ میں رہا کیا جائے گا‘
اسرائیل کی موجودہ اتحادی حکومت نے کافی غوروخوص کے بعد بدھ کی صبح عارضی جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
وزیر اعظم نتن یاہو کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ جنگ میں وقفے کے چار دن کے دوران 50 اسرائیلی خواتین اور بچوں کو وقفوں میں رہا کیا جائے گا، اور ان چار دنوں کے دوران ’لڑائی میں وقفہ ہو گا۔‘
معاہدے کے تحت ان 50 یرغمالیوں کو 12 اور 13 افراد کے گروپ میں چار مواقع پر رہا کیا جائے گا۔ ان افراد میں اسرائیلی شہریوں کے ساتھ ساتھ دہری شہریت کے حامل اسرائیلی نژاد افراد بھی شامل ہیں۔
اسرائیل نے حماس کو مزید یرغمالیوں کی رہائی کی ترغیب دیتے ہوئے یہ پیشکش بھی کی ہے کہ چار روز میں 50 یرغمالیوں کی رہائی کے بعد حماس اگر دس دس یرغمالیوں کے گروپ کو رہا کرے تو ہر گروپ کی رہائی کے نتیجے میں جنگ میں ایک دن کا اضافی وقفہ دیا جائے گا۔
معاہدے کی یہ شق ان یرغمالی افراد کے اہلخانہ کے لیے اہم ہے جن میں سے کچھ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ وہ اس ضمن میں جزوی معاہدہ نہیں دیکھنا چاہتے یعنی وہ چاہتے ہیں کہ تمام یرغمالی رہا کروائے جائیں۔
انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (آئی سی آر سی) نے کہا ہے کہ وہ کسی بھی یرغمالی شہری کی رہائی میں سہولت کاری فراہم کرنے کو تیار ہیں۔ یاد رہے کہ ریڈ کراس نے گذشتہ ماہ دو اسرائیلی نژاد امریکی خواتین اور دو اسرائیلی خواتین کو رہا کروانے میں سہولت کار کا فرض نبھایا تھا۔
غزہ کے اندر کارروائیوں میں مصروف اسرائیلی فورسز پہلے ہی ایک اسرائیلی خاتون مغوی فوجی کو بھی بازیاب کروا چکی ہے جبکہ انھیں دو دیگر خواتین یرغمالیوں کی لاشیں بھی مختلف مقامات سے ملی ہیں۔
اسرائیلی حکومت نے کہا کہ وہ ’تمام یرغمالیوں کی وطن واپسی تک جنگ جاری رکھے گی، (اس دوران) حماس کا مکمل خاتمہ کرے گی اور اس بات کو یقینی بنائے گی کہ مستقبل میں غزہ سے اسرائیلی ریاست کو کوئی نیا خطرہ لاحق نہ ہو۔‘
جنگ میں وقفے کے دوران غزہ میں کیا ہو گا؟
حماس کے اپنے ایک طویل بیان میں اس ضمن میں مزید تفصیلات فراہم کی ہیں کہ ’ہدنا‘ یعنی عارضی جنگ بندی کے دوران ان کی توقعات کیا ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی طیاروں اور ڈرونز کی غزہ کے جنوب میں جاری تمام سرگرمیاں چار دن تک کے لیے رُکنے کی توقع ہے۔
لیکن غزہ کے شمال میں، وہ علاقہ جو حماس کو ختم کرنے کے لیے اسرائیلی کارروائیوں کا بنیادی ہدف رہا ہے، یہ جنگ بندی ہر روز صرف صبح 10:00 شام چار بجے تک کے درمیان ہو گی۔
توقع ہے کہ چار دن کی عارضی جنگ بندی کے دوران اسرائیلی فوج اور ان کے ٹینک غزہ کے اندر اپنی پوزیشنوں پر موجود رہیں گے، تاہم حماس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فورسز نہ تو کسی پر حملہ کر سکیں گی اور نہ ہی کسی کو گرفتار۔
اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں جاری جنگ کے بعد سے 17 لاکھ شہری پہلے ہی اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔ غزہ کے شہریوں کے لیے اس جاری وحشیانہ لڑائی سے جلد چھٹکارا ممکن نہیں۔
اس معاہدے کے تحت چار روز کے وقفے کے دوران امداد لے جانے والے 200 ٹرکوں کو رفح کراسنگ کے ذریعے غزہ میں داخل ہونے کی اجازت ہو گی۔
غزہ میں ہسپتالوں کے جنریٹر، پانی کو صاف کرنے والے پلانٹس اور سیوریج کے پلانٹس کو ایندھن کی اشد ضرورت ہے اور بظاہر غزہ میں عارضی جنگ بندی کے دورانیے میں پہچنے والا ایندھن صرف اس وقت تک موجود رہے گا جب تک کہ جنگ میں وقفہ جاری رہے گا۔
یاد رہے کہ اسرائیل نے حماس کے حملے کے جواب میں غزہ میں بجلی اور پانی کی سپلائی منقطع کر رکھی دی ہے جبکہ خوراک، ایندھن اور دیگر سامان کی ترسیل بھی روک دی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں جنگ کے آغاز سے قبل یہاں امداد کے ماہانہ اوسطا دس ہزار ٹرک آتے تھے مگر گذشتہ ماہ کے دوران صرف 1,399 ٹرکوں کو ہی مصر کے راستے غزہ آنے کی اجازت دی گئی ہے۔ جنگ کے پہلے ہی ہفتے میں اسرائیل نے ایندھن کی سپلائی یہ کہتے ہوئے روک دی تھی کہ حماس اسے چوری کر کے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔
اور اگرچہ یہ معاہدہ غزہ کے لوگوں کو شمال سے جنوب تک محفوظ راستے کی اجازت دے گا، لیکن یہ شمال سے بے گھر ہونے والے لاکھوں لوگوں کو گھر واپس جانے کی اجازت نہیں دے گا۔
رہائی پانے والے فلسطینی قیدی کون ہیں؟
حماس نے کہا کہ اس معاہدے کے تحت اسرائیلی جیلوں میں قید 150 فلسطینی قیدیوں کو بھی رہا کیا جائے گا جو تمام کے تمام بچے اور عورتیں ہیں۔
اسرائیلی حکومت کے بیان میں اس کا ذکر نہیں کیا گیا، لیکن بدھ کی صبح اسرائیل کی وزارت انصاف نے عبرانی زبان میں 300 قیدیوں کے ناموں کی ایک فہرست شائع کی جو اس معاہدے کے تحت رہائی کے اہل ہوں گے۔
فہرست میں 14 سے 17 سال کی عمر کے 123 لڑکے، ایک 15 سالہ لڑکی، 144 بالغ مرد( 18 سال سے زائد عمر کے مرد) اور 32 خواتین شامل ہیں جن کی عمریں 18 سے 59 سال کے درمیان ہیں۔ ان میں زیادہ تر فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج پر پتھراؤ اور اقدام قتل جیسے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اور ان کے ٹرائل کا انتظار کیا جا رہا ہے۔
اس فہرست کو شائع کرنے کی وجہ اسرائیل میں قانونی طریقہ کار ہے۔ اس قانون کے تحت کسی بھی قیدی کی رہائی سے پہلے اسرائیلی شہریوں کو اسرائیلی سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کے لیے 24 گھنٹے کی مہلت دی جاتی ہے۔
اس معاہدے پر عمل درآمد میں فی الحال کسی سنگین رکاوٹ کی توقع نہیں ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اس معاہدے کے منظر عام پر آنے میں تاخیر ہوئی ہے۔
اسرائیل اور فلسطین میں کام کرنے والے انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق اس وقت اسرائیل میں تقریباً 7,000 فلسطینی مختلف الزامات کے تحت قید ہیں۔ 7 اکتوبر کے بعد سے مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس سے تقریباً 3000 فلسطینیوں کو گرفتار کرنے کی اطلاع ہے۔ ان علاقوں میں تشدد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
حماس نے اس ضمن میں اپنے بیان کا اختتام یہ کہتے ہوئے کیا ہے کہ اس معاہدے کا مقصد ’اپنے لوگوں کی خدمت کرنا اور جارحیت کے مقابلے میں ان کی ثابت قدمی کو مضبوط بنانا‘ ہے۔
حماس نے خبردار کیا ہے کہ ’ہماری انگلیاں (بندوق کے) گھوڑے پر ہیں اور ہمارے فاتح جنگجو اپنے لوگوں کے دفاع اور (اسرائیلی) جارحیت کو شکست دینے کے لیے تیار رہیں گے۔‘
معاہدے کی نگرانی کا طریقہ کار
قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ دوحہ میں آپریشنز روم براہ راست اسرائیل، حماس کے سیاسی دفتر اور ہلال احمر کے ساتھ رابطے میں رہے گا جس دوران معاہدے میں کسی بھی خلاف ورزی پر ’دونوں فریقین سے فوراً بات چیت ہوگی‘ تاکہ عملدرآمد دوبارہ یقینی بنایا جاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایسا ماحول بنایا جائے تاکہ یرغمالیوں کی منتقلی محفوظ ہو۔
قطر کو امید ہے کہ عارضی وقفہ مزید یرغمالیوں کی رہائی کا سبب بن سکتا ہے تاکہ ’جنگ بندی کے مزید اقدامات کیے جاسکیں۔۔۔ اور غزہ میں مستقل طور پر لڑائی کا خاتمہ ہوسکے۔‘