اسرائیل اور حماس کے مابین غزہ میں سات ہفتے سے جاری لڑائی میں چار روزہ وقفے کا آغاز ہو گیا ہے۔
جمعے کی صبح سے شروع ہونے والے اس عارضی جنگ بندی کے دوران حماس کے پاس موجود 50 اسرائیلی یرغمالیوں اور اسرائیل کی جیلوں میں قید 150 فلسطینیوں کی رہائی کے علاوہ غزہ میں امداد کی فراہمی پر اتفاق کیا گیا ہے۔
جمعے کی شام پہلے مرحلے میں 13 اسرائیلیوں کو رہا کیا جائے گا جبکہ اسرائیلی جیلوں سے چار روز میں 150 خواتین اور بچے بھی آزاد ہوں گے۔
اسرائیل نے حماس کو مزید یرغمالیوں کی رہائی کی ترغیب دیتے ہوئے جنگ بندی کی مدت میں اضافے کی پیشکش بھی کی ہے۔
اگر یہ عارضی جنگ بندی قائم رہتی ہے تو سات اکتوبر سے شروع ہونے والی لڑائی میں یہ پہلا وقفہ ہو گا تاہم اسرائیل نے واضح کیا ہے کہ یہ وقفہ جنگ کا خاتمہ نہیں۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان نے جمعے کی صبح ایک بیان میں کہا ہے کہ ’انسانی ہمدردری کے تحت یہ وقفہ عارضی ہے‘۔ انھوں نے غزہ کے شہریوں کو مخاطب کر کے کہا کہہ ’شمالی غزہ ایک خطرناک علاقہ ہے اور شمال کی جانب سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اپنے تحفظ کے لیے جنوب میں ہی رہیں۔‘
اسرائیلی حکومت نے حماس کا نام و نشان مٹانے کا عزم ظاہر کیا ہے اور تمام یرغمالیوں کی رہائی کی امید ظاہر کی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ یہ معاہدہ غزہ میں موجود اسرائیلی یرغمالیوں کی ‘ناقابل بیان آزمائش’ کا خاتمہ کرے گا اور ‘معصوم فلسطینی خاندانوں کے مصائب کو کم کرے گا۔’
اسرائیلی حکومت متعدد مرتبہ حماس کو ‘جڑ سے اکھاڑ پھینکنے’ اور 200 سے زائد اسرائیلی مغویوں کی واپسی کو اس جنگ کا اہم مقصد بتاتی ہے۔
حماس، جسے اسرائیل، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک دہشت گرد تنظیم قرار دیتی ہیں، نے کہا ہے کہ اس معاہدے سے فلسطینیوں کو شدید اسرائیلی فضائی اور زمینی حملوں کے بعد بحالی کا وقت ملے گا۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق ان اسرائیلی حملوں میں 14,000 سے زیادہ فلسطینی مارے گئے ہیں۔
جمعے کی صبح عارضی جنگ بندی کے آغاز سے چند گھنٹے پہلے تک غزہ پر اسرائیلی حملے جاری تھے اور علاقے سے مسلسل گولہ باری اور فائرنگ کی آوازیں سنی جا سکتی تھیں تاہم مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے لڑائی میں وقفے کی مقررہ مدت کے شروع ہونے کے بعد آہستہ آہستہ خاموشی چھا گئی۔
کن اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا؟
اسرائیل کی موجودہ اتحادی حکومت نے کافی غوروخوص کے بعد بدھ کی صبح عارضی جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
وزیر اعظم نتن یاہو کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ جنگ میں وقفے کے چار دن کے دوران 50 اسرائیلی خواتین اور بچوں کو وقفوں میں رہا کیا جائے گا، اور ان چار دنوں کے دوران ’لڑائی میں وقفہ ہو گا۔‘
معاہدے کے تحت ان 50 یرغمالیوں کو 12 اور 13 افراد کے گروپ میں چار مواقع پر رہا کیا جائے گا۔ ان افراد میں اسرائیلی شہریوں کے ساتھ ساتھ دہری شہریت کے حامل اسرائیلی نژاد افراد بھی شامل ہیں۔
اسرائیل نے حماس کو مزید یرغمالیوں کی رہائی کی ترغیب دیتے ہوئے یہ پیشکش بھی کی ہے کہ چار روز میں 50 یرغمالیوں کی رہائی کے بعد حماس اگر دس دس یرغمالیوں کے گروپ کو رہا کرے تو ہر گروپ کی رہائی کے نتیجے میں جنگ میں ایک دن کا اضافی وقفہ دیا جائے گا۔
معاہدے کی یہ شق ان یرغمالی افراد کے اہلخانہ کے لیے اہم ہے جن میں سے کچھ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ وہ اس ضمن میں جزوی معاہدہ نہیں دیکھنا چاہتے یعنی وہ چاہتے ہیں کہ تمام یرغمالی رہا کروائے جائیں۔
اس حوالے سے ناموں کی کوئی فہرست شائع نہیں کی گئی ہے لیکن ایک سیینئر امریکی اہلکار نے صحافیوں کو بتایا کہ کم از کم تین امریکی شہری، بشمول تین سالہ ایویگیل ایڈان، جن کے والدین کبوتز کفار عزا میں مارے گئے تھے ، بھی رہائی پانے والے یرغمالیوں میں شامل ہوں گے۔
ایک سیینئر اسرائیلی اہلکار نے منگل کی سہ پہر کو بتایا کہ حماس اپنے طور پر ان 26 تھائی لینڈ کے شہریوں کو بھی رہا کر سکتی ہے جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ بھی یرغمالیوں میں شامل ہیں۔
انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (آئی سی آر سی) نے کہا ہے کہ وہ کسی بھی یرغمالی شہری کی رہائی میں سہولت کاری فراہم کرنے کو تیار ہیں۔ یاد رہے کہ ریڈ کراس نے گذشتہ ماہ دو اسرائیلی نژاد امریکی خواتین اور دو اسرائیلی خواتین کو رہا کروانے میں سہولت کار کا فرض نبھایا تھا۔
غزہ کے اندر کارروائیوں میں مصروف اسرائیلی فورسز پہلے ہی ایک اسرائیلی خاتون مغوی فوجی کو بھی بازیاب کروا چکی ہے جبکہ انھیں دو دیگر خواتین یرغمالیوں کی لاشیں بھی مختلف مقامات سے ملی ہیں۔
اسرائیلی حکومت نے کہا کہ وہ ’تمام یرغمالیوں کی وطن واپسی تک جنگ جاری رکھے گی، (اس دوران) حماس کا مکمل خاتمہ کرے گی اور اس بات کو یقینی بنائے گی کہ مستقبل میں غزہ سے اسرائیلی ریاست کو کوئی نیا خطرہ لاحق نہ ہو۔‘
جنگ میں وقفے کے دوران غزہ میں کیا ہو گا؟
حماس کے اپنے ایک طویل بیان میں اس ضمن میں مزید تفصیلات فراہم کی ہیں کہ ’ہدنا‘ یعنی عارضی جنگ بندی کے دوران ان کی توقعات کیا ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی طیاروں اور ڈرونز کی غزہ کے جنوب میں جاری تمام سرگرمیاں چار دن تک کے لیے رُکنے کی توقع ہے۔
لیکن غزہ کے شمال میں، وہ علاقہ جو حماس کو ختم کرنے کے لیے اسرائیلی کارروائیوں کا بنیادی ہدف رہا ہے، یہ جنگ بندی ہر روز صرف صبح 10:00 شام چار بجے تک کے درمیان ہو گی۔
توقع ہے کہ چار دن کی عارضی جنگ بندی کے دوران اسرائیلی فوج اور ان کے ٹینک غزہ کے اندر اپنی پوزیشنوں پر موجود رہیں گے، تاہم حماس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فورسز نہ تو کسی پر حملہ کر سکیں گی اور نہ ہی کسی کو گرفتار۔
اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں جاری جنگ کے بعد سے 17 لاکھ شہری پہلے ہی اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔ غزہ کے شہریوں کے لیے اس جاری وحشیانہ لڑائی سے جلد چھٹکارا ممکن نہیں۔
اس معاہدے کے تحت چار روز کے وقفے کے دوران امداد لے جانے والے 200 ٹرکوں کو رفح کراسنگ کے ذریعے غزہ میں داخل ہونے کی اجازت ہو گی۔
غزہ میں ہسپتالوں کے جنریٹر، پانی کو صاف کرنے والے پلانٹس اور سیوریج کے پلانٹس کو ایندھن کی اشد ضرورت ہے اور بظاہر غزہ میں عارضی جنگ بندی کے دورانیے میں پہچنے والا ایندھن صرف اس وقت تک موجود رہے گا جب تک کہ جنگ میں وقفہ جاری رہے گا۔
اسرائیل نے حماس کے حملے کے جواب میں غزہ میں بجلی اور پانی کی سپلائی منقطع کر دی ہے جبکہ خوراک، ایندھن اور دیگر سامان کی ترسیل بھی روک دی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں جنگ کے آغاز سے قبل یہاں امداد کے ماہانہ اوسطا دس ہزار ٹرک آتے تھے مگر گذشتہ ماہ کے دوران صرف 1,399 ٹرکوں کو ہی مصر کے راستے غزہ آنے کی اجازت دی گئی ہے۔ جنگ کے پہلے ہی ہفتے میں اسرائیل نے ایندھن کی سپلائی یہ کہتے ہوئے روک دی تھی کہ حماس اسے چوری کر کے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔
اور اگرچہ یہ معاہدہ غزہ کے لوگوں کو شمال سے جنوب تک محفوظ راستے کی اجازت دے گا، لیکن یہ شمال سے بے گھر ہونے والے لاکھوں لوگوں کو گھر واپس جانے کی اجازت نہیں دے گا۔
رہائی پانے والے فلسطینی قیدی کون ہیں؟
حماس نے کہا کہ اس معاہدے کے تحت اسرائیلی جیلوں میں قید 150 فلسطینی قیدیوں کو بھی رہا کیا جائے گا تو تمام کے تمام بچے اور عورتیں ہیں۔
اسرائیلی حکومت کے بیان میں اس کا ذکر نہیں کیا گیا، لیکن بدھ کی صبح اسرائیل کی وزارت انصاف نے عبرانی زبان میں 300 قیدیوں کے ناموں کی ایک فہرست شائع کی جو اس معاہدے کے تحت رہائی کے اہل ہوں گے۔
فہرست میں 14 سے 17 سال کی عمر کے 123 لڑکے، ایک 15 سالہ لڑکی، 144 18 سالہ (بالغ) مرد اور 32 خواتین شامل ہیں جن کی عمریں 18 سے 59 سال کے درمیان ہیں۔ ان میں زیادہ تر فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج پر پتھراؤ اور اقدام قتل جیسے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اور ان کے ٹرائل کا انتظار کیا جا رہا ہے۔
اس فہرست کو شائع کرنے کی وجہ اسرائیل میں قانونی طریقہ کار ہے۔ اس قانون کے تحت کسی بھی قیدی کی رہائی سے پہلے اسرائیلی شہریوں کو اسرائیلی سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کے لیے 24 گھنٹے کی مہلت دی جاتی ہے۔
اس معاہدے پر عمل درآمد میں فی الحال کسی سنگین رکاوٹ کی توقع نہیں ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اس معاہدے کے منظر عام پر آنے میں تاخیر ہوئی ہے۔
اسرائیل اور فلسطین میں کام کرنے والے انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق اس وقت اسرائیل میں تقریباً 7,000 فلسطینی مختلف الزامات کے تحت قید ہیں۔ 7 اکتوبر کے بعد سے مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس سے تقریباً 3000 فلسطینیوں کو گرفتار کرنے کی اطلاع ہے۔ ان علاقوں میں تشدد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
حماس نے اس ضمن میں اپنے بیان کا اختتام یہ کہتے ہوئے کیا ہے کہ اس معاہدے کا مقصد ’اپنے لوگوں کی خدمت کرنا اور جارحیت کے مقابلے میں ان کی ثابت قدمی کو مضبوط بنانا‘ ہے۔
حماس نے خبردار کیا ہے کہ ’ہماری انگلیاں (بندوق کے) گھوڑے پر ہیں اور ہمارے فاتح جنگجو اپنے لوگوں کے دفاع اور (اسرائیلی) جارحیت کو شکست دینے کے لیے تیار رہیں گے۔‘
اس معاہدے کی نگرانی کیسے کی جائے گی؟
قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ دوحہ میں آپریشنز روم براہ راست اسرائیل، حماس کے سیاسی دفتر اور ہلال احمر کے ساتھ رابطے میں رہے گا جس دوران معاہدے میں کسی بھی خلاف ورزی پر ’دونوں فریقین سے فوراً بات چیت ہوگی‘ تاکہ عملدرآمد دوبارہ یقینی بنایا جاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایسا ماحول بنایا جائے تاکہ یرغمالیوں کی منتقلی محفوظ ہو۔
قطر کو امید ہے کہ عارضی وقفہ مزید یرغمالیوں کی رہائی کا سبب بن سکتا ہے تاکہ ’جنگ بندی کے مزید اقدامات کیے جاسکیں۔۔۔ اور غزہ میں مستقل طور پر لڑائی کا خاتمہ ہوسکے۔‘