جموں کشمیر کے راجوری ضلع میں جنگلاتی بستی باجی مال کے قریب مسلح عسکریت پسندوں اور انڈین افواج کے درمیان بُدھ سے جاری جھڑپ میں پانچ اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔
پولیس اور فوج نے ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ مزید فورسز کو جائے وقوعہ کی طرف روانہ کیا گیا ہے اور جھڑپ جاری ہے۔
اس دوران ایک فوجی ترجمان کے مطابق ایک شدت پسند کو ہلاک کیا گیا ہے جس کی شناخت کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ پاکستانی باشندہ ’قاری ہے جو افغانستان میں بھی سرگرم رہ چکا ہے۔‘ فوج کا کہنا ہے کہ ’قاری کا تعلق لشکر طیبہ سے ہے۔‘
اس الزام کے حوالے سے تاحال پاکستانی فوج اور دفترِ خارجہ کی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
باجی مال کا علاقہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے ساتھ لگنے والی لائن آف کنٹرول کے قریبی خطہ کالا کوٹ کے گھنے جنگلات میں واقع ہے۔
واضح رہے کہ راجوری اور پونچھ اضلاع کو پیرپنچال وادی کہتے ہیں اور یہ انتظامی طور پر جموں خطے کا حصہ ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف وادی پیرپنچال میں ہوئے حملوں اور جھڑپوں کے دوران اس سال اب تک 14 فوجی اور 25 شدت پسند مارے گئے ہیں جبکہ اس سال جنوری میں راجوری کے ہندو اکثریتی گاؤں ڈانگری میں مسلح افراد نے دو بچوں سمیت سات عام شہریوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
باجی مال میں کیا ہوا؟
راجوری قصبے سے 40 کلومیٹر دُور کالاکوٹ اور دھرم شال کے درمیان ہمالیائی سلسلے کے دو پہاڑوں کے بیچ باجی مال کا گاوٴں آباد ہے، جہاں ایک مقامی صوفی بابا باجی صاحب کا مزار ہے۔
وہاں کے ایک شہری نے نامی ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو فون پر بتایا کہ چند روز قبل باجی صاحب کے مزار پر دو مسلح افراد رات کو ٹھہرے تھے۔ اس بارے میں فوج کو اطلاع ملی تو علاقے کا محاصرہ کیا گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہلکی فائرنگ بھی ہوئی، لیکن وہ لوگ بھاگ گئے۔ تب سے تلاش کا سلسلہ جاری تھا کہ بدھ کو جنگل کے قریب جھڑپ ہوئی۔‘
مقامی لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دونوں شدت پسند کھانے کی تلاش میں جنگل سے بستی کی طرف آئے تھے۔ قابل ذکر یہ ہے کہ صرف پانچ روز قبل قریبی گاوٴں بہروٹھ میں ایک مختصر جھڑپ کے دوران فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ ایک ’غیر ملکی‘ شدت پسند مارا گیا ہے۔
اس دوران راجوری اور پونچھ میں تعینات انڈین آرمی کی ’وائٹ نائٹ کور‘ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ شدت پسندوں نے اونچائی کا فائدہ اُٹھا کر فوج کو نقصان پہنچایا ہے۔
ابتدائی جھڑپ میں فوج کے پیرا کمانڈو کیپٹین شُبھم گپتا، کیپٹین ایم وی پرنجال اور دو سپاہی ہلاک ہو گئے جبکہ دو زخمی ہیں۔ فوج، نیم فوجی دستوں اور پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد باجی مال کے گرد و نواح کا محاصرہ کر چکی ہے اور جمعرات کی صبح سے دوبارہ فائرنگ شروع ہو گئی تھی۔
’اربن وار فیئر کے بعد جنگل وار فئیر‘
جموں کشمیر میں تشدد کی تاریخ انڈیا اور پاکستان کی آزادی کے ساتھ ہی شروع ہوتی ہے۔ 1947 میں پونچھ اور راجوری میں ڈوگرہ مہاراجہ کے خلاف مسلح بغاوت اور پاکستانی قبائلی شدت پسندوں کا حملہ اس کا نقطۂ آغاز سمجھا جاتا ہے۔
1947 کے اٹھارہ سال بعد 1965 کی جنگ ہوئی اور اس کے بعد پاکستان نے کشمیر میں مسلح شورش برپا کرنے کے لیے ’آپریشن جبرالٹر‘ شروع کیا جس کا مقصد کشمیریوں کو مسلح کر کے انڈیا کو مسئلہ کشمیر حل کرنے پر مجبور کرنا تھا، لیکن یہ آپریشن ناکام ہو گیا۔
افغانستان سے روسی انخلا کے فوراً بعد یعنی 1989 میں یہاں بڑے پیمانے پر مسلح شورش برپا ہوئی جو مختلف ادوار سے گزر کر اب 35 سال مکمل کر چکی ہے۔
اکثر مبصرین کہتے ہیں کہ کشمیر میں شدت پسندی کے سابقہ تین ادوار ’اربن وار فیئر‘ پر مبنی تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ مسلح شدت پسند آبادیوں میں ضم ہوتے تھے، لوگوں سے مدد لیتے تھے اور بستیوں میں رہتے تھے۔ وہ آبادی والے علاقے کے آس پاس ہی فوج یا نیم فوجی فورسز پر حملے کرتے تھے۔ شورش کے شروعاتی دور میں تو مسلح عسکریت پسند سرینگر میں پریس کانفرنس بھی منعقد کرتے تھے۔
پولیس اور فوج کے کئی افسر یہ اعتراف کرتے ہیں کہ مسلح شورش کی ایسی صورت سے نمٹنا آسان ہوتا تھا کیونکہ انٹیلجنس اکھٹا کرنا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔
راجوری میں تعینات ایک اعلیٰ فوجی افسر نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا ’پچھلے تین برسوں سے جو کچھ راجوری اور پونچھ میں ہو رہا ہے، اس سے لگتا ہے کہ کشمیر میں مسلح تشدد اب اربن وار فیئر سے جنگل وار فئیر کی طرف شفٹ ہو گیا ہے۔
’یہ واقعی ایک چیلنج ہے، جس سے نمٹنے کے لیے ہماری فورسز کے پاس جراٴت، وسائل اور ٹیکنالوجی کی کمی نہیں ہے۔‘
باجی مال کے مقامی باشندوں نے یہ بھی بتایا کہ تشدد کی حالیہ وارداتیں اُن کے لیے نئی ہیں۔ ’پہلے تو شدت پسند گھروں پر دستک دیتے تھے، کھانا مانگتے تھے، اور کبھی کبھار زبردستی رات کو ٹھہرتے تھے۔
’لیکن اب وہ نظر بھی نہیں آتے، کبھی کبھار کھانے کی تلاش میں بازار کا رُخ کریں تو پکڑے یا مارے جاتے ہیں۔ ہمیں کیا معلوم اوپر پہاڑوں پر کیا ہو رہا ہے۔‘
ان خدشات کی تصدیق پولیس اور فوج کے اُن افسروں کے ریمارکس سے ہوتی ہے جو انھوں نے ان حملوں کے بارے میں ظاہر کیے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ’چونکہ راجوری اور پونچھ کے جنگلات نہایت گھنے اور راستے دشوار گزار ہیں، فورسز کو شبہ ہے کہ بالائی پہاڑی دروں میں شدت پسندوں نے کمین گاہیں تعمیر کی ہیں، جن میں اسلحہ اور گولی بارود کے ذخیروں کا اندیشہ ہے۔‘
ڈرون داراندازی اور جنگلوں میں گھات
انڈین فوجی حکام کئی ماہ سے کہہ رہے ہیں کہ پاکستانی حمایت یافتہ مسلح گروپ سرحد پار سے ڈرونز کے ذریعے ایل او سی کے قریب جموں کے علاقوں میں ہتھیار ڈراپ کرتے ہیں۔
انڈین سرحدی حفاظتی فورس نے کہا ہے کہ گزشتہ چند سال میں ڈرون دراندازی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
بدھ کے روز عین اُسی وقت جب باجی مالا میں جھڑپ جاری تھی انڈین بی ایس ایف نے دعویٰ کیا کہ جموں کے سرحدی قصبہ اکھنور میں ایک ڈرون کو تباہ کیا گیا جو بارودی مواد انڈین حدود میں گرانے کی کوشش کررہا تھا۔
حالانکہ انڈیا اور پاکستان کی افواج نے ایل او سی پر جنگ بندی کی تجدید کا نیا معاہدہ پانچ اگست 2019 کو جموں کشمیر کی نیم خودمختاری کے خاتمے کے چند ماہ بعد ہی کیا گیا تھا اور تب سے سرحدیں خاموش ہیں اور وادی کشمیر میں بھی حالات پرسکون ہیں۔
لیکن ایل او سی کے قریب راجوری اور پونچھ میں رونما ہوئے حالیہ واقعات کے بعد سکیورٹی اداروں کا کہنا ہے کہ سرحد کے قریب گھنے جنگلوں میں شدت پسندوں کی کمین گاہیں ہیں، جنھیں تباہ کرنے کے لیے مربوط حکمت عملی بنائی گئی ہے۔
’اب عسکریت پسندی کا فوکس پیرپنچال ہے‘
راجوری سے ہی تعلق رکھنے والے سینئیر صحافی اور سیکورٹی امور کے تجزیہ نگار ظفرچودھری کہتے ہیں کہ راجواری اور پونچھ میں اس سال ہوئے حملوں میں اکثر اوقات فوج کے سینیئر افسر ہلاک ہوگئے ہیں۔
’اس کا مطلب ہے یا تو انٹیلجنس ناقص ہوتی ہے یا اسے سمجھنے میں کوتاہی ہوتی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’جس انداز سے پیرپنچال ویلی کو عسکریت پسندی کا فوکس بنایا جا رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ مقصد یہاں کی آبادی کو شورش پر آمادہ کرنا تھا لیکن ایسا ابھی تک نہیں ہوا۔
’شدت پسندوں کو لوکل سپورٹ حاصل نہیں، لہٰذا وہ جنگلوں کی راہ لے رہے ہیں۔ حالات ضرور خراب ہیں لیکن انتہائی خراب نہیں کیونکہ اس سال کے پہلے دس ماہ کے دوران مجموعی طور جموں کشمیر میں دو شدت پسندوں کے مقابلے میں ایک فوجی مارا گیا لیکن پیرپنچال میں یہ نسبت ایک ایک ہے، جو تشویشناک ہے۔‘