سکھ رہنما کے قتل کی سازش اور انڈیا کو امریکی تنبیہ: ’اسرائیل نے بھی دوست ممالک میں اس طرح ٹارگٹڈ کلنگ نہیں کی‘

امریکی انتطامیہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے کہا ہے کہ امریکہ کی ایجنسیوں نے امریکہ میں ایک علیحدگی پسند سکھ رہنما کو قتل کرنے کی سازش کو ناکام بنا دیا ہے اور اس سازش میں انڈین حکومت کے ممکنہ طور پر ملوث ہونے کے پیش نظر انڈیا کو وارننگ دی ہے۔

انڈیا نے اس خبر پر اپنے ردِعمل میں کہا ہے کہ وہ سکیورٹی کے معاملات میں ’امریکہ کی اطلاعات کو انتہائی سنجیدگی سے لیتا ہے۔‘

برطانیہ کے اخبار ’فنانشل ٹائمز‘ نے بدھ کو امریکہ کے مختلف ذرا‏ئع کے حوالے سے خبر شائع‏ کی تھی کہ امریکہ نے سکھ علیحدگی پسند رہنما گرو پتونت سنگھ پنون کو امریکہ میں قتل کرنے کی ایک سازش کو ناکام بنا دیا ہے۔

امریکہ نے اس معاملے میں میبنہ طور پر انڈین حکومت کے ملوث ہونے کے امکان کے پیش نظر انڈیا کو وارننگ جاری کی ہے۔

انڈیا کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم چودھری نے ایک بیان میں اعتراف کیا ہے کہ بقول ان کے امریکہ نے ’منظم مجرموں، ہتھیاروں کے سمگلروں اور دہشتگردوں کی ساز باز کے سلسلے میں کچھ معلومات ہمیں فراہم کی ہیں۔‘

’ہم سیکورٹی سے متعلق اس طرح کی معلومات کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ اس سلسے میں آئندہ ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ متعلقہ ادارے امریکہ کی جانب سے دی گئی جانکاریوں کی تفتیش کر رہے ہیں۔‘

امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایڈرین ویٹسن نے بدھ کے روز ایک بیان میں کہا کہ ’ہم اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ اس معاملے کو امریکی حکومت نے انڈیا کی حکومت سے اعلیٰ ترین سطح پر اٹھایا ہے۔‘

اخبار واشنگٹن پوسٹ نے خبر دی ہے کہ ایڈرین نے بتایا کہ ’جب انڈین اہلکاروں کو اس کے بارے میں مطلع کیا گیا تو انھوں نے اس پر حیرت اور تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اس طرح کی سرگرمیاں ان کی پالیسی کا حصہ نہیں ہیں۔‘

انڈیا

انھوں نے مزید کہا کہ ’انڈین حکومت اس معاملے کی تفتیش کر رہی ہے اور آنے والے دنوں میں وہ شاید اس کے بارے میں مزید کچھ کہے۔‘

ایڈرین نے کہا کہ ’ہم نے انڈیا کو بتا دیا ہےکہ ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ قتل کی اس ناکام سازش میں جو بھی ملوث رہے ہوں ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔‘

فنانشل ٹائمز نے خبر دی ہے کہ انڈیا کو سفارتی سطح پر وارننگ دینے کے علاوہ امریکہ کے وفاقی تفتیش کاروں نے نیویارک ڈسٹرکٹ کورٹ میں کم از کم ایک مشتبہ شخص کے خلاف ایک مہر بند لفافے کے ذریعے مقدمہ درج کیا ہے۔

یہ کیس کس کے خلاف درج کیا گیا ہے امریکہ کے محکمہ انصاف نے اس کے بارے میں کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

امریکہ کے سینیئر اہلکاروں کے مطابق سکھ علیحدگی پسند رہنما گرو پتونت سنگھ پنون کو امریکہ میں قتل کرنے کی سازش رچی گئی تھی۔ وہ امریکہ اور کناڈہ کے دوہرے شہری ہیں۔ پنون ’سکھ فار جسٹس‘ نام کی ایک تنظیم کے سربراہ ہیں۔

انھوں نے انڈین پنجاب میں ایک علیحدہ مملکت کے قیام کی مہم چلا رکھی ہے۔ انڈین حکومت نے اس تنظیم کی انتہا پسندانہ سرگرمیوں کے پیش نظر اسے ایک غیر قانونی تنظیم قرار دیا تھا۔ ایک برس بعد 1920 میں حکومت نے پنون کو ‘انفرادی دہشت گرد’ قرار دیا تھا۔

انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی گذشتہ جون میں وائٹ ہاؤس میں امریکہ کے صدر جو بائیڈن کے مہمان تھے۔ اطلاعات ہیں کہ پنون کو قتل کرنے کی ناکام سازش کا معاملہ اس کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس کے بارے میں امریکہ نے انڈیا سے بہت سختی سے اپنی ناراضگی ظاہر کی ہے۔

اس سے قبل اس برس کینیڈا کے شہر وینکوور میں ایک علیحدگی پسند سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نیجر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا کیا گیا تھا۔

انڈیا
،فنانشل ٹائمز کی یہ رپورٹ ہردیپ سنگھ نجار کے قتل پر انڈیا اور کینیڈا کے درمیان پیدا ہونے والے سفارتی بحران کے دو ماہ بعد سامنے آئی ہے

ستمبر میں کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے پارلیمنٹ میں ایک بیان میں انڈیا پر براہِ راست الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’نیجر کے قتل میں انڈیا کے ملوث ہونے کے معتبر شواہد موجود ہیں۔‘ بعد میں پتا چلا تھا کہ نیجر کے قتل کے معاملےکی خفیہ تفصیلات امریکہ اور برطانیہ نے کینیڈا کو فراہم کی تھیں۔

کینیڈا نے انڈیا سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس قتل کے مبینہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے، اس سلسلے میں کینیڈا نے انڈیا کے ایک سفارت کار کو اوٹاوا سے انڈیا واپس بھیج دیا تھا۔

انڈیا نے ناصرف ان الزامات کو پوری طرح مسترد کر دیا تھا بلکہ جوابی کارروائی کرتے ہوئے درجنوں کینیڈین سفارتکاروں کو ملک سے چلے جانے کا حکم دیا تھا۔

یہی نہیں انڈیا نے کینیڈا کے شہریوں کو ویزا دینا بند کر دیا تھا جو ابھی گذشتہ بدھ کو دوبارہ بحال کیا گیا ہے۔ انڈیا نے جسٹن ٹروڈو کی سیاسی جماعت پر الزام لگایا تھا کہ وہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے سکھ انتہا پسندی اور انڈیا مخالف عناصر کی پشت پناہی کر رہی ہے۔

تاہم اب جب انڈیا پر اسی نوعیت کا الزام امریکہ نے لگایا ہے تو انڈیا کا رویہ انتہائی نرم ہے۔

انڈیا

یونیورسٹی آف لندن میں بین الاقوامی امور کے پروفیسر اویناش پالیوال نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’اس کا بہت گہرا اثر پڑے گا۔ انڈیا نے امریکہ کی سرزمین پر خفیہ طریقے سے ایک جارحانہ مہم چلائی۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا یا پھر کم سے کم یہ سامنے نہیں آیا۔‘

اخبار ’دی ہندو‘ کی کالم نگار سوہاسنی حیدر لکھتی ہیں ’پنون کے معاملے میں انڈیا کی وزارت خارجہ کا جواب بہت معنی خیز اور نیجر کے معاملے سے بالکال مختلف ہے۔‘

انڈیا کے سلامتی امور کے ماہر برہم جیلانی نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے ’امریکہ میں رہائش پذیر جس انتہا پسند (پنون) نے حال ہی میں ایئر انڈیا کو دہشتگردانہ دھمکی دی تھی، اسے ان امریکی خفیہ ایجنسیوں کا تحفظ حاصل ہے جنھوں نے ٹروڈو کے ذریعے انڈیا پر بغیر کسی ثبوت کے الزام لگانے میں بھی اہم کردار ادا گیا تھا۔‘

معروف تجزیہ کار ہرتوش سنگھ بل کا کہنا ہے کنیڈا کا معاملہ الگ تھا کہ ’کینیڈا کے بارے میں انڈیا کو لگتا تھا کہ وہ جو چاہتا تھا وہ کہہ سکتا تھا وہ جو باتین کہی گئی تھیں انھيں کنارے رکھ کر جوابی حملہ کر سکتے ہیں لیکن امریکہ کا معاملہ الگ ہے۔‘

’یہاں طاقت کا توازن کا توازن مختلف ہے ۔ جو ثبوت دیے گئے ہیں انھیں دیکھنا پڑا ہے۔ اس پر غور کرنا پڑا ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے بات چیت کینیڈا والے معاملے پر بھی ہوئی ہے۔‘

ہرتوش نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اسرائیل نے بھی اس طرح کی ٹارگٹڈ کلنگ اپنے دوست ملکوں میں نہیں کی ہے اور اگر کی بھی ہوگی تو وہ کبھی پکڑے نہیں گئے۔‘

’اس میں اہم پہلو یہ ہے کہ آپ کا تناظر کیا ہے۔ کیا آپ ان ٹارگٹ کے سبب اپنے دوستوں سے دشمنی مول لینے کے لیے تیار ہیں اور دوسرے یہ آپ اتنے نااہل ہیں کہ پکڑے گئے۔‘

ہرتوش کا کہنا ہے کہ انڈیا میں خالصتان تحریک کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ’پنجاب میں خالصتان کے لیے پیر رکھنے کی بھی جگہ نہیں، یہ جب سے کسان تحریک ہوئی اس وقت سے خالصتان کا بات شروع ہوئی ہے۔‘

’رہی بات کینیڈا، امریکہ اور دوسرے ملکوں میں ٹارگٹڈ کلنگ اور اس کی کوششش کی تو اس کا مقصد محض یہ لگتا ہے کہ انڈیا اب ایک مضبوط ملک ہے لیکن ان نئے تنازعوں سے واضح ہے یہ دانشمندانہ پالیسی نہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں