’لو جہاد‘ ہندو گروہوں کی ایک متنازعہ تھیوری ہے جس میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بہت سارے مسلم مرد ہندو خواتین کو اپنی طرف راغب کر کے ان کا مذہب تبدیل کروانے کی سازش میں ملوث ہیں۔
یہ سازشی نظریہ ثبوت نہ ہونے کے باوجود انڈیا کے سوشل میڈیا پر کئی سالوں سے گردش کر رہا ہے لیکن اب اس سے الٹ سازشی نظریہ ’بھگوا لو ٹریپ‘ سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے جس کے مطابق ہندو مرد جان بوجھ کر مسلم خواتین کو اپنی طرف راغب کر رہے ہیں اور اس کا بھی کوئی ثبوت نظر نہیں آ رہا لیکن ان افواہوں کی وجہ سے انٹرنیٹ سے باہر حقیقی دنیا میں تشدد ہو رہا ہے۔
شمالی انڈیا سے تعلق رکھنے والی مریم گندگی سے بھرے آن لائن پیغامات کو یاد کرتی ہوئی کہتی ہیں ’یہ بہت گھٹیا تھے۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں ہو رہا تھا۔‘
مریم (فرضی نام) کی ذاتی تفصیلات انٹرٹیٹ پر عام ہو گئی تھیں۔ ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ان کی ایک ہندو مردوں کے ساتھ تصویر کا استعمال کر کے ان پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انھوں نے دوسرے مذہب کے مردوں کے ساتھ تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں۔ یہ فعل ان لوگوں کی نظر میں ممنوع ہے جو مریم پر تنقید کر رہے تھے۔
تصویر میں نظر آنے والے مرد ان کے دوست تھے، مریم کا ان کے ساتھ کسی قسم کا رومانوی تعلق نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود جھوٹے الزامات لگانے والوں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔
وہ بتاتی ہیں ’انھوں نے الزام لگایا کہ میرا ہندو مردوں کے ساتھ رشتہ ہے۔ وہ میرے والدین کو گالیاں دے رہے تھے اور میری پرورش پر سوالات اٹھا رہے تھے۔‘
مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کا آپس میں تعلقات رکھنا ابھی بھی انڈیا کے قدامت پسند خاندانوں میں بہت برا سمجھا جاتا ہے۔ ان پر ’بھگوا لو ٹریپ‘ کا شکار ہونے کے الزامات لگانے والے اکاؤنٹس کی شناخت کو دیکھتے ہوئے مریم کا ماننا ہے کہ انھیں مسلمان مرد استعمال کر رہے تھے۔
بھگوا کا مطلب ہے زعفرانی، یہ رنگ ہے جس کو ہندوتوا کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے۔ نقادوں کے مطابق ہندوتوا ایک ایسا نظریہ ہے جو شدت پسند دائیں بازو کی ہندو قوم پرستی کو فروغ دیتا ہے۔ اس سیاق و سباق میں ’بھگوا‘ کو ہندوتوا کے مترادف کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
’بھگوا لو ٹریپ‘ کے سازشی نظریے کا چرچہ زیادہ تر ایسے مسلمان مرد کر رہے ہیں جن کو واقعی یہ لگتا ہے کہ ایسا ہو رہا ہے۔ یہ نظریہ بتاتا ہے کہ ہندوتوا پر یقین رکھنے والے مرد مسلم خواتین کو اپنی طرف راغب کر کے برادری سے دور کر رہے ہیں۔
بی بی سی نے اس نظریے کو شیئر کرنے والے اکاؤنٹس سے بات کی اور ان کی دی ہوئی مثالوں کا تجزیہ کیا ہے۔
ہمیں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ اس طرح کی سازش پر حقیقت میں عمل ہو رہا ہے لیکن اس کے باوجود یہ بیانیہ سوشل میڈیا پر پھیل رہا ہے۔ اس سال مارچ سے اس اسطلاح کو دو لاکھ سے زیادہ بار سوشل میڈیا پر استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے اثرات اصلی دنیا میں بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔
مئی میں مدھیہ پردیش میں بنائی گئی ایک ویڈیو کو انٹرنیٹ پر پوسٹ کیا گیا۔ اس میں ایک مسلم خاتون اور ہندو مرد کو سکوٹر پر یونیورسٹی جاتے دکھایا گیا۔
مسلمان مردوں کا مجمع انھیں گھیر لیتا ہے، خاتوں کی مذہب کو بدنام کرنے پر سرزنش کی جاتی ہے۔ ان میں سے ایک کہتا ہے ’کوئی بھی تمہیں اسلام کا نام بدنام کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔‘ جبکہ باقی لوگ ہندو مرد کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔
بی بی سی نے پورے انڈیا سے ایسے 15 واقعات کی ویڈیوز دیکھی ہیں جن میں اسی طرح کا رجحان دیکھا گیا ہے۔ ویڈیوز جن میں الزام لگایا گیا ہے کہ یہ سازش حقیقت ہے، جن میں یہ واقعات دکھائے گئے ہیں ان کو یوٹیوب، انسٹاگرام اور ایکس پر ایک کروڑ سے زیادہ مرتبہ دیکھا گیا ہے۔
یہ سازشی نظریہ پرانے اور مشہور ’لو جہاد‘ سازشی نظریے کا الٹ ہے جس میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مسلم مرد ہندو عورتوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس نظریے کو کئی سالوں سے انٹرنیٹ پر ہندو قوم پرست پھیلا رہے ہیں۔ ’بھگوا لو ٹریپ‘ کی طرح ثبوت کی عدم موجودگی کے باوجود ’لو جہاد‘ کی وجہ سے بھی پرتشدد واقعات رونما ہوئے۔
انڈیا میں دو مختلف مذاہب پر یقین رکھنے والوں کے درمیان شادیاں ابھی بھی نایاب ہیں اور زیادہ تر لوگ ارینج میرج کا انتخاب کرتے ہیں۔
دو غیر جانبدار انڈین صحافتی اداروں نے اس پر تحقیق کی لیکن انھیں اس سازش کو ثابت کرنے لیے ثبوت نہیں ملے۔
اس کے باوجود نام نہاد ’لو جہاد‘ انڈیا کے سیاسی بیانیے کا حصہ بن گیا۔ اس کے بارے میں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بی جے پی سے تعلق رکھنے والے اور ہندوتوا نظریے کے پیروکار سیاست دانوں نے عوامی سطح پر بات کی ہے۔
’بھگوا لو ٹریپ‘ کے بارے میں زیادہ تر سوشل میڈیا پر خفیہ اکاؤنٹس ہی بات کر رہے ہیں لیکن چند بڑے مسلم لیڈروں نے بھی اس سازشی نظریے پر بات کی ہے۔
شعیب جمائی ایک اسلامی سکالر ہیں اور وہ انڈیا کے میڈیا چینلز پر بطور مبصر آتے ہیں۔ قومی میڈیا میں اس نظریے کو مقبول کرنے کا سہرا وہ اپنے آپ کو دیتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ اس رجحان کی وجہ سے ہونے والے پرتشدد واقعات کے حق میں نہیں ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں مسلمان برادری میں سے ان لوگوں کی حمایت نہیں کرتا جو قانون کو اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں۔ اس ملک کو اس کے قانون چلاتے ہیں۔‘
لیکن اس سازشی نظریے کی حقیقت پر ان کا دوٹوک مؤقف ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ہندو نوجوانوں کا ’ہندوتوا بریگیڈ برین واش‘ کر رہی ہے ’تاکہ مسلم خواتین کو چنگل میں لایا جائے۔‘
شعیب جمائی اور اس سازشی نظریے پر یقین کرنے والے لوگ اپنے دعوؤں کی بنیاد انٹرنیٹ پر گردش کرنے والی مستند ویڈیوز پر کر رہے ہیں جس میں ایک ہندوتوا رہنما ہندو مردوں کو مسلم خواتین کا تعاقب کرنے کے لیے سرگرم طور پر ترغیب دے رہے ہیں۔
ان میں سے ایک ویڈیو سال 2017 کے ایک سیاسی اجتماع کی ہے جس میں انڈیا کی حکمران جماعت کے رکن یوگی ادتیہ ناتھ تقریر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر مسلمان ’ایک ہندو لڑکی لیتے ہیں تو ہمیں سو مسلم لڑکیاں لینی چاہییں۔‘
اس واقعے کے بعد وہ ابھر کر اترپردیش کے وزیراعلیٰ بن چکے ہیں۔ بی بی سی نے ان سے رابطہ کر کے پوچھا کہ کیا وہ اب بھی اس دیے گئے بیان پر قائم ہیں۔ انھوں نے اس پر کوئی جواب نہیں دیا۔
شعیب جمائی اور اس نظریے پر یقین رکھنے والوں کی بتائی دس مثالوں کو ہم نے دیکھا۔ نظریے کے مطابق ان مثالوں میں ہندو مردوں نے جان بوجھ کر مسلم خواتین کا مذہب تبدیل کروانے کے لیے ان کے ساتھ تعلقات قائم کیے یا شادی کی۔
ہمیں بتائی گئی تمام مثالیں ایسی تھیں جن میں ہندو مرد اور مسلم خواتین کے درمیان تعلقات تھے۔ تاہم دو صورتوں میں خواتین نے اپنا مذہب تبدیل نہیں کیا تھا۔
چھ میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ ہندو مردوں نے اپنی ساتھی کو ان کی مذہبی شناخت کی وجہ سے قتل کر دیا تھا۔
پولیس کے مطابق ان میں سے چار کا تعلق پیسوں یا مقامی تنازعے سے تھا جس کی وجہ سے قتل ہوا۔ باقی چار واقعات میں پولیس اور خبروں کے ذریعے تشدد کی وجہ کی تصدیق نہیں ہو سکی لیکن ایسا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا جسے دیکھ کر یہ کہا جا سکتے کہ واقعات کا تعلق ’بگھوا لو ٹریپ‘ کے ساتھ ہے۔
انڈیا کی فیکٹ چیکنگ ویب سائب ’بوم لائو‘ نے دیگر ویڈیوز جن پر ’بھگوا لو ٹریپ‘ دکھائے جانے کا الزام لگایا جا رہا ہے کو غلط قرار دیا ہے۔
ہندوتوا گروہ اس قسم کی سازش کے وجود کا انکار کرتے ہیں۔
ہندوتوا تنظیم ویشوا ہندو پریشاد کے سربراہ الوک کمار کہتے ہیں ’ہندوؤں کی طرف سے اس طرح کے جال چلانے کا قطعی کوئی ثبوت نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا ہے شعیب جمائی جیسے سکالرز کے دعوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
جیسے توقع کی جا رہی تھی الوک کمار کا ماننا ہے کہ ’لو جہاد‘ ایک حقیقت ہے۔ وہ کہتے ہیں مسلم مردوں کی ایک بڑی تعداد ہے ’جو ہندو عورتوں کو اپنے جال میں پھنساتے ہیں۔‘
یہ کافی آسان محسوس ہوتا ہو گا کہ دونوں سازشی نظریے کو برابر حریف دیکھا جائے جو بیانیے پر اپنا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ماقبلہ کر رہے ہوں لیکن کچھ لوگ اس سے اتفاق نہیں کرتے۔
’بھگوا لو ٹریپ‘ پر پہلی دفعہ لکھنے والی صحافی فاطمہ خان کا کہنا ہے ’لو جہاد کی بہت سیاسی حمایت ہے۔‘ وہ انڈیا کی حکمران جماعت کے اراکین کی طرف اشارہ کر رہی تھیں جو اس پر یقین رکھتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’دوسری جانب بھگوا لو ٹریب ایک نئی سازشی نظریہ ہے۔ اس کو سیاسی حمایت حاصل نہیں ہے۔‘
انڈیا میں ہونے والی بہت سی بحث مباحثوں کی طرح اس معاملے پر بھی سیاست ہو رہی ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ انڈیا کی مذہبی تقسیم اس طرح کے نظریات کے انٹرنیٹ پر پنپنے اور پھر اس کی وجہ سے اصلی دنیا میں پرتشدد واقعات ہونے کے لیے زرخیز زمین ثابت ہو رہی ہے۔
جو کچھ مریم کے ساتھ ہوا وہ اس بات کا ثبوت ہے۔ وہ ملنے والے پیغامات کی وجہ سے انتی پریشان تھیں کہ انھوں نے ممکنہ تصادم سے بچنے کے لیے ملازمت سے چھٹی لے لی۔
وہ کہتی ہیں ’پہلی دفعہ میں اپنے محلے میں غیر محفوظ محسوس کر رہی تھی۔ میں بہت پریشان تھی اور باہر نکلنے سے ڈر رہی تھی۔‘
انھوں نے ان پر حملے کرنے والے ٹرولز کو چیلنج کرتے ہوئے اعلان کیا ’تم خواتین کی زندگیاں تباہ کر کے ان کے تحفظ کا دعویٰ کرتے ہو۔‘