نیدر لینڈز کے عام انتخابات میں رائے شماری کے اندازوں کے مطابق مقبول اسلام مخالف سیاستدان گیرٹ وائلڈرز ایک ڈرامائی فتح حاصل کی ہے۔
پارلیمان میں 25 سال کے تجربے کے بعد ان کی جماعت فریڈم پارٹی (پی وی وی) کی 36 نشستوں پر فتح کا امکان ہے۔ بائیں بازو کا اتحاد اس سے کہیں پیچھے ہے۔
انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’پی وی وی کو مزید نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہم حکومت بنائیں گے۔‘
وائلڈرز 1963 میں نیدرلینڈز کے شہر فینلو میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے خاندان کا تعلق رومن کیتھولک فرقے سے ہے لیکن وہ خود کو غیر مذہبی قرار دیتے ہیں۔
گیرٹ وائلڈرز قرآن پر پابندی لگانے، اسلام مخالف فلم بنانے اور مسلمان تارکینِ وطن کو نیدرلینڈز سے نکالنے کی مہم چلانے جیسے متنازع کاموں میں ملوث رہ چکے ہیں۔
گیرٹ وائلڈرز کی کوشش رہے گی کہ وہ اتحادی حکومت میں دیگر جماعتوں کو شامل ہونے کی دعوت دیں۔ 150 سیٹوں کے پارلیمان میں وہ کم از کم 76 نشستیں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
60 سال کے وائلڈرز نے جارحانہ انداز میں اپنی فتح کا اعلان کیا ’ہم حکومت بنانا چاہتے ہیں اور۔۔۔ ہم حکومت بنائیں گے۔ (یہ نشستیں) بڑی فتح ہے مگر ساتھ اس سے ایک ذمہ داری بھی پیدا ہوتی ہے۔‘
انتخابات سے قبل دیگر تین بڑی جماعتوں نے وائلڈرز کے ساتھ حکومت بنانے کے امکانات کو مسترد کیا تھا مگر یہ مؤقف اب تبدیل بھی ہوسکتا ہے۔
یورپی یونین کے سابق کمشنر فرانس ٹمرمینز کی زیرِ قیادت بائیں بازو کی جماعتوں کا اتحاد 25 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ انھوں نے وائلڈرز کی حکومت میں شمولیت سے انکار کیا تھا۔
ٹمرمینز نے اپنے حمایتیوں سے کہا کہ یہ ڈچ جمہوریت اور رول آف لا کے دفاع کا وقت ہے: ’ہم نیدرلینڈز سے کسی کو جانے نہیں دیں گے۔ نیدر لینڈز میں سب برابر ہیں۔‘
تیسری پوزیشن پر دائیں بازوں کی طرف جھکاؤ والی سینٹر رائٹ لبرل جماعت وی وی ڈی ہے جس کی سربراہ ترک تارک وطن پس منظر رکھنے والی خاتون دیلان یشیلگوز ہیں جبکہ رکن پارلیمان پیتر اومتزگ کی نئی جماعت چوتھے نمبر پر ہے۔
فریڈم پارٹی کے رہنما وائلڈرز نے سیاسی حریفوں کے ساتھ کام کرنے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ یشیلگوز اور اومتزگ دونوں نے انھیں اس کامیابی پر مبارکباد دی ہے۔
یشیلگوز کو لگتا ہے کہ وائلڈرز کے پاس نشستوں کی تعداد اتنی نہیں ہوسکے گی کہ وہ حکومت بنا سکیں۔ انھوں نے کہا کہ اب ان کی جماعت کے رہنماؤں پر منحصر ہے کہ وہ کیا ردعمل دیتے ہیں۔ انھوں نے الیکشن سے قبل اصرار کیا تھا کہ وہ وائلڈرز کی کابینہ میں کام نہیں کریں گی لیکن انھوں نے یہ نہیں کہا کہ اگر وہ جیت جاتی ہیں تو وہ وائلڈرز کے ساتھ کام نہیں کریں گی۔
اومتزگ نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ ’نیو سوشل کنٹریکٹ پارٹی‘ وائلڈرز کے ساتھ کام نہیں کرے گی لیکن وہ کہتے ہیں کہ وہ ’ووٹروں کے اعتماد کو اقدام میں بدلنے کے لیے دستیاب ہیں۔‘
وائلڈرز کی جیت یورپ بھر میں حیرانی کا باعث بن سکتی ہے۔ نیدر لینڈز یورپی یونین کے بانی ارکان میں سے ایک ہے۔
یورپ کے قوم پرست اور انتہائی دائیں بازو کے رہنماؤں نے اس کامیابی کو سراہا ہے۔ فرانسیسی نیشنل ریلی کی رہنما میرین لی پین نے کہا کہ ’اس سے قومی شناختوں کے دفاع کی بڑھتی وابستگی ثابت ہوتی ہے۔‘
وائلڈرز نیدر لینڈز میں یورپی یونین چھوڑنے کا ریفرنڈم کرانا چاہتے ہیں جسے ’اینزٹ‘ کہا جاتا ہے تاہم انھوں نے تسلیم کیا ہے کہ فی الحال قوم کا اس حوالے سے رجحان نہیں۔
انتخابات تک انھوں نے اسلام مخالف گفتگو میں جارحانہ انداز اپنائے رکھا۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت کئی اہم مسائل ہیں لہذا وہ مساجد اور اسلامی سکولوں پر پابندیوں کی پالیسی کا منصوبہ روکنے کے لیے تیار ہیں۔
ان کی یہ حکمت عملی کامیاب رہی ہے جس نے بظاہر پارلیمان میں ان کی مضبوطی دگنی کر دی ہے۔
بدھ کو ایک تقریر میں اپنی متوقع فتح کا جشن مناتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ڈچ ووٹروں نے ’امید کا ایجنڈا‘ چُن لیا۔
اپنی انتخابی مہم میں وائلڈرز نے سابقہ حکومت سے شہریوں کی ناراضی کا فائدہ اٹھایا۔ یہ حکومت پناہ گزینوں سے متعلق قوانین پر اتفاق نہ ہو پانے کی وجہ سے دباؤ کا شکار تھی۔
یونیورسٹی آف تونتے میں سیاسیات کے ماہر مارٹن روزیما کے مطابق گذشتہ مہینوں کے دوران ایسا بہت کچھ ہوا جس سے لگتا ہے کہ وائلڈرز کو یہ فتح کسی تحفے کی طرح پلیٹ میں رکھ کر دی گئی۔ دائیں جانب جھکاؤ کے رہنماؤں نے اتحاد بنا کر ان کے ساتھ کام کرنے کا دروازہ کھول دیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’ہمیں عالمی مثالوں سے معلوم ہے کہ انتہائی دائیں بازوں کی جماعتوں کی کارکردگی بُری ہوتی ہے جب انھیں (کسی اتحاد میں) شامل نہیں کیا جاتا۔‘
’پناہ گزین مرکزی موضوعات میں سے ایک تھا۔ وائلڈرز نے بدھ کو واضح کیا کہ وہ پناہ گزینوں اور امیگریشن کے سونامی پر قابو پائیں گے۔‘
گذشتہ سال یوکرین جنگ کے باعث نیدرلینڈز آنے والے پناہ گزینوں کی مجموعی تعداد دگنی ہوئی، یعنی یہ دو لاکھ 20 ہزار سے تجاوز کر گئی مگر قریب تین لاکھ 90 ہزار گھروں کی قلت کے باعث یہ مسئلہ سنگین ہو گیا۔
یشیلگوز کی جماعت وی وی ڈی کے ہیگ ہیڈکوارٹرز میں لوگوں کو امید تھی کہ نیدرلینڈز اپنی پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب کر سکتا ہے مگر رائے شماری کے اندازوں نے غیر یقینی کا ماحول پیدا کیا ہے۔ حریف یہ جاننے کے لیے بے صبر ہیں کہ ان سے کیا بھول ہوئی۔
یشیلگوز سات سال کی عمر میں بطور پناہ گزین ترکی سے نیدر لینڈز آئی تھیں مگر انھوں نے امیگریشن سے متعلق سخت موقف اپنایا ہے۔ جولائی میں مارک رُٹے سبکدوش ہوئے تھے جس کے بعد انھوں نے پارٹی کی قیادت سنبھالی اور وزارت عظمیٰ کی امیدوار بن گئیں۔
بعض سیاستدانوں اور مسلم رہنماؤں نے یشیلگوز پر الزام لگایا کہ انھوں نے گیرٹ وائلڈرز کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر کے انتہائی بازو کے رہنماؤں کے لیے دروازہ کھول دیا۔
46 سالہ یشیلگوز نے رٹے کی حکومت سے کنارہ کشی اختیار کی تھی جب وہ وزیر انصاف تھیں تاہم انھیں انتخابات سے متعلق پیشگوئیوں میں زیادہ حمایت حاصل نہیں ہو سکی تھی۔
انتخابات تک نصف ووٹرز نے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہوا تھا تاہم اکثر نے ان کی حمایت نہیں کی۔
دی ہیگ کے ایک مسلم ووٹر نے وائلڈرز کی کامیابی پر کچھ ایسا ردعمل دیا: ’اگر وہ مسلمانوں کے اتنا خلاف نہ ہوتے تو میں ان کی حمایت کرنے میں دلچسپی لیتا۔‘
ووٹنگ سے قبل وائلڈرز اپنی جیت کے بارے میں پُرامید تھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’میرا خیال ہے یہ پہلی بار ہو گا کہ ہالینڈ میں انتخابات کے دوران ہم نے ایک ہفتے میں 10 سیٹیں حاصل کیں۔‘
تاہم انھیں معلوم تھا کہ حکومت بنانا بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔ انھوں نے کہا تھا کہ یہ مثبت سوچ کے حامل شخص ہیں جو ’دوسری جماعتوں کی جانب سے نظر انداز کیا جانا مشکل بنا دیں گے۔‘