کابل میں مذاکرات ڈھونگ تھے، TTP بات چیت میں شریک تھی، افغان طالبان فیصلہ کریں انہیں حوالے کرنا ہے یا ان کیخلاف کارروائی کریں گے، کاکڑ

اسلام آباد (اب نیوز)نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ دو سال قبل مذاکرات کاجو ڈھونگ رچایا گیا تھا تو ٹی ٹی پی کے لوگ کابل میں عملی طور پر ان مذاکرات میں شریک تھے‘ اب یہ فیصلہ افغان طالبان کو کرنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے لوگوں کو ہمارے حوالے کرنا ہے یا انکے خلاف خود کارروائی کرنی ہے‘ طالبان اچھی طرح جانتے ہیں کہ ٹی ٹی پی والے کہاں سے حملے کر رہے ہیں.

 ٹی ٹی پی وسطی ایشیائی ریاستوں میں نہیں افغان سرزمین پر موجود ہے‘یہ بات قابل برداشت نہیں کہ افغان سرزمین سے ہمارے خلاف کارروائیاں کی جائیں اور افغان طالبان تماشا دیکھتے رہیں‘ 

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو کو جیل میں زہر دینے کا الزام غیر ذمہ دارانہ ہے، انہیں نہ نگراں حکومت نے گرفتار کیا اور نہ شاہی فرمان کے ذریعے ان کو رہا کر سکتے ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی جیل میں مکمل محفوظ اور ہماری ذمہ داری ہے‘

یہاں کوئی اذیت پسند لوگ نہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی سے ذاتی بدلہ لینا ہے‘پیپلز پارٹی کی طرف سے لیول پلیئنگ فیلڈ کے الزام کو سنجیدہ نہیں لیتے

لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کا الزام ووٹرز کو متوجہ کرنے کا حربہ ہے‘اپنے آپ کو ووٹر کے سامنے مظلوم قرار دینا کسی بھی جماعت کا بیانیہ ہو سکتا ہے، ہو سکتا ہے پیپلز پارٹی بھی اپنے ووٹرز کے لیے اس قسم کی باتیں کررہی ہو۔

اتوارکو جیونیوزکے پروگرام ’’جرگہ ‘‘میں میزبان سلیم صافی کو انٹرویو میں انوار الحق کاکڑکا کہناتھاکہ تمام جماعتیں اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، ہماری ترجیح ہے کہ جلد از جلد الیکشن ہوں‘عوام اپنا مینڈیٹ استعمال کرکے لوگوں کو مینڈیٹ دیں‘ایک منتخب حکومت آئے اور اپنی ذمہ داریاں سنبھالے۔ ہم نے ایسا کون سا کام کیا ہے جس سے متعلق تاثر دیا جا رہا ہے ہم کسی فریق سے متعلق جانبدار ہیں۔

پی ٹی آئی لیڈر بھی اپنے علاقوں میں سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔عمران خان کو جیل میں زہر دینے سے متعلق الزام پر وزیراعظم نے کہا کہ یہ حکومتیں ہیں کوئی کریمنل گروہ نہیں ہیں اس طرح کے الزامات لگانے سے پہلے دس مرتبہ سوچنا چاہیے یہ الزام قتل کے زمرے میں آتا ہے جو بہت سنگین الزام ہے۔الیکشن اور لیول پلائنگ سے متعلق آل پارٹیز کانفرنس کیوں نہیں بلا لیتے اس سوال کے جواب میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ آل پارٹیز کانفرنس کا نیچر بہت زیادہ سیاسی ہے ۔

 اس ایک نقطے پر آل پارٹیز کانفرنس بلانا مجھ سے ہضم نہیں ہو رہا ہے ۔ ملٹری کورٹس فیصلے سے متعلق نظرثانی اپیل پر انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ جہاں ہم سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے آئین اور قانون کے مطابق نہیں ہیں وہاں ہمارا قانونی حق ہے کہ اس کے خلاف اپیل کریں۔

ملٹری تنصیبات پر کوئی بھی حملہ آور ہوتا ہے اس کو ملٹری کورٹس کا سامنا کرنا چاہیے ۔ ٹی ٹی پی والے بھی ملٹری تنصیبات یا فوج کو ہدف بنا کر حملہ آور ہوتے ہیں۔

 نو مئی کو جو ہوا سیاسی عمل نہیں تھا وہ جلاؤ گھیراؤ کے زمرے میں آتا ہے ممکن ہے وہ جان بوجھ کر کیا گیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ نادانستہ طو رپر ہوا ہے تو یہ ساری چیزیں تحقیقات کی صورت میں ہی سامنے آنی تھیں۔ 

تحریک انصاف یہ الزام لگا رہی ہے کہ جنرل باجوہ سے لے کر عاصم منیر تک کہ یہ سب ہمارے خلاف حریف بنے ہوئے ہیں اور ان پر قتل تک کے الزامات لگائے گئے تو کیا ان کو ردِ عمل کا حق نہیں مل جاتا میزبان کے اس سوال کے جواب میں انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ اس طرح کی باتوں کو جواز بنا کر ٹی ٹی پی بھی یہی کہتی ہے کہ انہوں نے امریکہ سے دوستی کرلی ، مسلمان بھائیوں کے خلاف چلے گئے لہٰذا ہم ان کے بچے اے پی ایس میں ماریں گے ۔۔ جب آپ بندوق تھامے ہوئے چوکی پر احتجاج کے حوالے سے بھی جائیں گے تو ردِ عمل کے طو رپر گولی چلائی جائے گی جو صحیح ہوگی جبکہ نو مئی کو فوج نے بہت تحمل کا مظاہرہ کیا اگر فوج کی جانب سے اس وقت گولی چلتی تو میری نظر میں وہ صحیح ہوتی ۔

 آپ نے افغانستان کی حکومت کو غیر قانونی کیسے ڈکلیئر کیا اس کے جواب میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ شاید میرے الفاظ اس سے بہتر ہوسکتے تھے میرا مقصد قطعاً قانونی جائز ناجائز کہنا نہیں تھا مقصد یہ تھا کہ رسمی طور پر ایسی حکومت ہو جس کو تسلیم کیا جائے موجودہ حکومت کو عالمی سطح پر اس کو پہچان یا تسلیم نہیں کیا گیا ہے ۔

 ان کا کہناتھاکہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ٹی ٹی پی والے پاکستان پر حملے کریں گے تو اس کا جواب نہیں دیا جائے گا۔

ٹی ٹی پی اور ہمارے بیچ میں صورتحال یہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کی طرزِ زندگی باقی پاکستان بھی اختیار کر لے جبکہ ہم کہتے ہیں کہ ہم اپنے انداز میں زندگی جئیں گے تو یہاں گھر ایک ہی یا تو اُن کا ہوگا یا ہمارا ہوگا۔ 

جو سنجیدہ مذاکرات چاہتے ہیں اس کے لیے ضروری ہے کہ بغیر شرائط کے ہتھیار پھینکیں ۔ہتھیار اٹھانے کا جواز ہی ناجائز ہے۔ ہم نے غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو واپس بھیجنے کی پالیسی اختیار کی ہے۔

 قانون کے مطابق ان کی جائیداد سے متعلق فیصلہ کیا جائے گا اگر قانون اجازت دے گا تو ضبط کریں گے اگر نہیں دے گا تو نہیں کریں گے بہرحال اس سے متعلق ابھی کوئی پالیسی سامنے نہیں آئی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں