قطر کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان ایک ممکنہ معاہدے کی اطلاعات گردش کر رہی ہیں جس کے بارے میں قطری وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ اس کی راہ میں ’بہت کم رکاوٹیں‘ باقی ہیں۔ ادھر عالمی ادارہ صحت نے غزہ کے الشفا ہسپتال کو ’ڈیتھ زون‘ قرار دیا ہے۔
اس حوالے سے اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بھی ایک خبر دی ہے تاہم امریکہ اور اسرائیل نے کسی بھی معاہدے کے مکمل ہونے کی تردید کی ہے۔ دوسری جانب قطری حکام کا کہنا ہے کہ مذاکرات کار معاہدے میں معمولی مسائل کو حل کر رہے ہیں۔
یہاں اس معاملےمیں اہم فریق کیا کہتے ہیں یہ جاننا ضروری ہے، تو سب سے پہلے قطر کی بات کرتے ہیں جو ثالثی کے معاملے میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔
قطر کے وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمن الثانی نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ’مذاکرات میں باقی رہ جانے والے چیلنجز بڑے چیلنجوں کے مقابلے میں بہت معمولی ہیں۔‘
اسرائیل-حماس معاہدے کے لیے کیا ہو رہا ہے؟
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل اور حماس امریکہ کی ثالثی میں طے پانے والے ایک معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں جس کے تحت غزہ میں یرغمال بنائی گئی درجنوں خواتین اور بچوں کو پانچ دن کے لیے لڑائی روکنے کے بدلے رہا کیا جائے گا۔
وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایڈرین واٹسن کا کہنا ہے کہ ’ہم ابھی تک کسی معاہدے پر نہیں پہنچے ہیں لیکن ہم معاہدے تک پہنچنے کے لیے سخت محنت جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘
اسرائیل کے وزیر اعظم بینیامن نیتن یاہو نے گزشتہ رات ایک بریفنگ میں کہا کہ ’تقریبا 240 افراد میں سے کچھ یا تمام کو رہا کرنے کے لئے ہونے والے معاہدوں کے بارے میں سامنے آنے والی بہت خبریں غلط ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’ابھی تک کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے۔‘
قطر کے وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے کہا ہے کہ 7 اکتوبر کو حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کی رہائی کے لیے ہونے والی بات چیت میں جو چیلنجز باقی ہیں وہ ’بہت معمولی نوعیت‘ کے ہیں۔
محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے مزید کہا کہ ’ان کا اعتماد بڑھ رہا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان کوئی معاہدہ ہو سکتا ہے۔‘
اسرائیلی وزیر اعظم بینیامن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ مغوی یرغمالیوں کی واپسی کے بدلے عارضی جنگ بندی پر غور کریں گے لیکن انھوں نے مکمل جنگ بندی سے انکار کیا ہے۔
الشفا ہسپتال
عالمی ادارہ صحت کی سربراہی میں اقوام متحدہ کی ایک مشترکہ ٹیم نے اسرائیلی فوج کے قبضے کے بعد ایک گھنٹے تک ہسپتال کا جائزہ لیا تاہم یہ وہ وقت تھا جب ہسپتال میں موجود کچھ مریضوں اور وہاں پناہ لینے والوں نے وہاں نکلنا شروع کیا۔
ٹیم نے کہا کہ انھوں نے گولہ باری اور فائرنگ کے ثبوت دیکھے اور ہسپتال کے داخلی دروازے پر ایک اجتماعی قبر کا بھی مشاہدہ کیا۔
انھیں بتایا گیا کہ اس میں 80 لوگوں کی باقیات دفنائی گئی ہیں۔
الشفا ہسپتال کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ ’اسرائیلی فوج کی جانب سے انخلا کا حکم دیا گیا تھا لیکن ہسپتال کے ڈائریکٹر نے اسرائیلی فوج سے درخواست کی کہ 300 شدید بیمار اور زخمی مریضوں کو غزہ کے اس سب سے بڑے اور جدید ترین ہسپتال میں زیر علاج رہنے دیا جائے۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں باقی مریضوں اور عملے کو فوری طور پر دیگر محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا انتظام کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور جنگ بندی کا بار بار مطالبہ بھی کیا جا رہے ہے۔
دریں اثنا وائٹ ہاؤس نے واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کا جواب دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل، حماس اور امریکہ ایک معاہدے کے مکمل ہونے کے بہت قریب ہیں جس کے تحت 7 اکتوبر کو حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائی گئی اسرائیلی خواتین اور بچوں کو رہا کیا جائے گا۔
وائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان نے کہا کہ ’ابھی تک ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے لیکن وہ اس پر اتفاق کرنے کے لئے سخت محنت کر رہے ہیں۔‘
اسرائیل کے وزیر اعظم بینیامن نیتن یاہو نے حماس کے ساتھ مکمل جنگ بندی سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حماس کی جانب سے اغوا کیے گئے اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی کے بدلے صرف عارضی جنگ بندی پر غور کریں گے۔
خان یونس سے بھی انخلا کا حکم
سنیچر کے روز سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں جن میں مریض بھی شامل ہیں کو غزہ کے ایک بڑے ہسپتال الشفا سے نکلنے پر مجبور کیا گیا۔
الشفا ہسپتال سے ایک صحافی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’صرف وہ مریض جو حرکت نہیں کر سکتے تھے اور ڈاکٹروں کی بہت کم تعداد‘ پیچھے رہ گئی ہے۔
الشفا میں موجود ایک صحافی خضر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمارے ہاتھ فضا میں بلند تھے اور ہم نے اُن میں سفید جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔‘
آئی ڈی ایف نے الشفاء کے انخلاء کے احکامات کی تردید کی اور کہا کہ انھوں نے ہسپتال کے ڈائریکٹر کی درخواست پر رضامندی ظاہر کی ہے کہ جو لوگ وہاں سے نکلنا چاہتے ہیں وہ محفوظ راستے سے نکل سکتے ہیں۔
ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’آئی ڈی ایف نے کسی بھی موقع پر مریضوں یا طبی عملے کو انخلا کا حکم نہیں دیا اور درحقیقت یہ تجویز پیش کی کہ طبی انخلا کی کسی بھی درخواست کو آئی ڈی ایف کی طرف سے سہولت فراہم کی جائے گی۔‘
ڈاکٹر رمیز رادوان، جنھوں نے کہا کہ انھیں اسرائیلی حکام نے الشفا چھوڑنے کا حکم دیا تھا، نے ہسپتال کی صورتحال کو ’افسوسناک اور تکلیف دہ‘ قرار دیا اور کہا کہ وہاں کوئی درد کُش دوا یا اینٹی بائیوٹکس نہیں ہیں اور کچھ مریضوں کے زخموں سے کیڑے نکل رہے ہیں۔‘
اسرائیلی فوج نے حالیہ دنوں میں ہسپتال پر چھاپہ مارا، جسے وہ ’حماس کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں، لیکن ابھی تک انھوں نے اس بات کے ٹھوس شواہد فراہم نہیں کیے میڈیکل کمپلیکس کے نیچے سرنگوں میں کوئی بڑا آپریشن کیا گیا۔
شمالی غزہ میں اسرائیلی فضائیہ کی بڑی کارروائی
حماس کے صحت حکام کا کہنا ہے کہ ’شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ میں ہونے والے دو دھماکوں میں مجموعی طور پر 80 افراد ہلاک ہوئے۔
اسرائیل نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس بات کی تصدیق نہیں کر سکتا کہ ان کی جانب سے اقوام متحدہ کے ایک سکول جو اب ایک پناہ گاہ میں تبدیل ہو چُکا ہے پر اُن کی فورسز نے فضائی حملہ کیا یا اُسے نشانہ بنایا ہے مگر اس سب کے باوجود وہ اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
بی بی سی ویریفائی نے جبالیہ کے الفخورہ سکول کی فوٹیج حاصل کی ہے جس میں خواتین اور بچوں سمیت متعدد افراد کو عمارت کے مختلف حصوں میں شدید زخمی حالت میں یا فرش پر بے حرکت پڑے دیکھا جا سکتا ہے۔
فوٹیج میں 20 سے زائد لعشیں دکھائی دے رہی ہیں اور ان میں سے تقریبا نصف گراؤنڈ فلور پر ایک خاص کمرے میں پڑی ہیں، جس سے بڑے پیمانے پر ہونے والے نقصان کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
فلسطینی پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے (یو این آر ڈبلیو اے) کے سربراہ فلپ لازارانی نے کہا ہے کہ ’انھوں نے اپنی ایجنسی کے ایک سکول کی وہ ہولناک ویڈیوز اور تصاویر دیکھی ہیں جن میں وہاں پناہ لینے والے افراد کی لعشیں اور زخمیوں کی بڑی تعداد دیکھائی دے رہی ہے۔
انھوں نے کہا، ’ان حملوں کا روکا جانا انتہائی ضروری ہے۔‘
دوسری جانب حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ جبالیہ میں ایک ہی خاندان کے 30 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
آئی ڈی ایف نے فوری طور پر اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن کہا کہ وہ حماس کو نشانہ بنانے کے لیے غزہ بشمول جبالیہ میں کارروائیوں میں اضافہ کریں گے۔
انھوں نے شمالی غزہ میں فلسطینیوں سے کہا ہے کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے وہاں سے چلے جائیں اور اب انھوں نے جنوبی شہر خان یونس کے لوگوں کو کہنا شروع کر دیا ہے، کہ وہ وہاں سے نکل جائیں، یہ وہ شہر ہے کہ جہاں شمالی غزہ سے نقل مکانی سے نکل کر کے آنے والے ہزاروں افراد موجود ہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد حماس کا صفایا کرنا ہے کیونکہ انھوں نے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا جس میں 1200 افراد ہلاک اور 240 سے زائد یرغمال بنائے گئے تھے۔
حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد 12 ہزار 300 تک پہنچ گئی ہے۔ مزید دو ہزار سے زائد افراد کے ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔