انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں حلال سرٹیفیکیٹ (سند) والی اشیا پر سنیچر کے روز سے پابندی لگا دی گئی ہے۔ یہ پابندی جمعے کو حلال کی سند دینے والے اداروں کے خلاف لکھنؤ کے حضرت گنج پولیس تھانے میں ایک ایف آئی آر کے بعد عمل میں آئی ہے۔
سوشل میڈیا پر جہاں کچھ لوگ ریاستی حکومت کے اس اقدام کو سراہ رہے ہیں وہیں بہت سے لوگ اسے دوہرا معیار قرار دے رہے ہیں اور اسے حکومت کی مسلم مخالف پالیسی بتا رہے ہیں۔
یوپی حکومت نے 18 نومبر بروز سنیچر حلال سند یافتہ کھانے پینے کی اشیا کی تیاری، ذخیرہ کرنے، تقسیم اور فروخت پر فوری طور پر پابندی لگائی۔
خبر رساں ادار اے این آئی اور سوشل میڈیا پر جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق ‘یوپی حکومت نے کہا ہے کہ تیل، صابن، ٹوتھ پیسٹ اور شہد جیسی ویجیٹیبل مصنوعات کے لیے حلال سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے اور یہ کہ اس سے مخصوص کمیونٹی اور اس کی مصنوعات کو نشانہ بنانے کے لیے دانستہ مجرمانہ سازش کا پتا چلتا ہے۔’
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ‘یہ پابندی صحت عامہ کے مفاد میں اور کنفیوژن کو روکنے کے لیے ہے۔ اور اس پابندی سے برآمدی مصنوعات کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔’
یوپی حکومت کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ‘کھانے کی مصنوعات پر حلال سرٹیفیکیشن ایک متوازی نظام ہے جو کھانے کی اشیاء کے معیار کے بارے میں ابہام پیدا کرتا ہے اور مذکورہ ایکٹ کے بنیادی ارادے کے بالکل خلاف ہے اور مذکورہ ایکٹ کی دفعہ 89 کے تحت قابل عمل نہیں ہے۔’
’حلال‘ اشیا پر پابندی کیوں؟
یہ کارروائی اس وقت ہوئی جب حکومت نے کہا کہ اسے حال ہی میں ایسی معلومات موصول ہوئی ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ ڈیری آئٹمز، چینی، بیکری کی مصنوعات، پیپرمنٹ آئل، خوردنی تیل وغیرہ پر حلال سرٹیفیکیشن کا لیبل لگایا جا رہا ہے۔
اس نے مزید کہا ہے کہ ‘دوا، طبی آلات اور کاسمیٹکس سے متعلق حکومتی قواعد میں لیبل پر حلال سرٹیفیکیشن کو نشان زد کرنے کے لیے کوئی قانون نہیں ہے اور نہ ہی دوا اور کاسمیٹکس ایکٹ، 1940 اور اس سے متعلقہ قواعد میں حلال سرٹیفیکیشن کا کوئی ذکر ہے۔ دواؤں، طبی آلات یا کاسمیٹکس کے لیبل پر حلال سرٹیفیکیشن کا براہ راست یا بالواسطہ ذکر مذکورہ ایکٹ کے تحت جھوٹ ہے، جو اسے قابل سزا جرم بناتا ہے۔’
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اس معاملے میں جمعے کو حضرت گنج پولیس سٹیشن میں مختلف دفعات کے تحت حلال سرٹیفیکیٹ دینے والے چار اداروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
یہ ایف آئی آر لکھنؤ میں واقع موتی جھیل کالونی عیش باغ کے رہنے والے ایک سماجی کارکن شیلیندر کمار شرما کی شکایت پر درج کی گئی ہے۔
اس میں تعزیرات ہند کی دفعہ 153 اے مذہب کی بنیاد پر دو گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے، 420 دھوکہ دہی، 467 جعلی دستاویزات بنانے، 468 دھوکہ دہی کے لیے جعلی دستاویزات کا استعمال کرنے، 471 جعلی دستاویزات کو حقیقی کے طور پر استعمال کرنے، 384 رقم کی غیر قانونی وصولی، 120 بی (مجرمانہ سازش)، 298 کسی بھی شخص کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے ارادے سے بیانات اور 505 عوامی فساد پھیلانے والے بیانات جیسی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
ایف آئی آر میں جن اداروں کو ملزم بنایا گیا ہے ان میں چنئی کی حلال انڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ، دہلی کی جمعیۃ علماء ہند حلال ٹرسٹ، حلال کونسلنگ آف انڈیا اور مہاراشٹر میں ممبئی کی جمعیۃ علماء کے ساتھ ساتھ حلال سرٹیفیکیشن کے نام پر پیسے وصولنے میں ملوث کچھ نامعلوم افراد شامل ہیں۔
ایف آئی آر میں نامزد جمیعت علما ہند نے سنیچر کے روز ہی اپنے سوشل میڈیا ہینڈل سے اس بابت وضاحت دی ہے۔
جمیعت علما ہند کی وضاحت
اپنے بیان میں جمیعت نے کہا ہے کہ ‘جمعیۃ علما ہند حلال ٹرسٹ کے سرٹیفیکیشن کا عمل برآمدی مقاصد اور انڈیا میں گھریلو تقسیم دونوں کے لیے مینوفیکچررز کی ضروریات کے مطابق ہے۔ عالمی سطح پر حلال مصدقہ مصنوعات کی مانگ بہت زیادہ ہے، اور انڈین کمپنیوں کے لیے ایسی سرٹیفیکیشن حاصل کرنا ناگزیر ہے، جس کی توثیق ہماری وزارت تجارت، حکومت ہند نے کی ہے (وزارت تجارت کا نوٹیفکیشن نمبر 25/2022-23 دیکھیں)۔’
اس کے ساتھ اس نے مزید کہا کہ سند حاصل کرنا یا نہ کرنا ‘افراد اور مینوفیکچررز کے انتخاب کا بھی معاملہ ہے جو اپنے اطمینان کے لیے کچھ سرٹیفیکیشنز کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ صارفین کی بڑی تعداد کو ایسی مصنوعات کے استعمال سے بچاتا ہے جو وہ مختلف وجوہات کی بناء پر نہیں چاہتے اور مارکیٹ میں ضرورت پر مبنی مصنوعات کی دستیابی کو یقینی بناتا ہے۔ جو لوگ ایسی مصنوعات استعمال نہیں کرنا چاہتے وہ ان کا استعمال نہ کرنے کے لیے آزاد ہیں۔’
جمیعت کا کہنا ہے کہ حلال سرٹیفیکیشن ہماری قوم کو فائدہ پہنچانے والی ایک اہم اقتصادی سرگرمی کے طور پر قائم ہے۔ یہ صرف درآمد کرنے والے ممالک کے لیے نہیں ہے بلکہ انڈیا آنے والے سیاحوں کے لیے بھی ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو اپنے قیام کے دوران حلال مصدقہ مصنوعات تلاش کرتے ہیں، جیسا کہ وزارت تجارت اور صنعت (نمبر 03/2023 مورخہ 6 اپریل 2023) کی طرف سے روشنی ڈالی گئی ہے۔’
ادارے کا کہنا ہے کہ وہ حکومتی ضوابط کی پابندی کرتے ہیں اور اس طرح کے اداروں کو این اے بی سی بی (کوالٹی کونسل آف انڈیا کے تحت سرٹیفیکیشن باڈیز کے لیے نیشنل ایکریڈیٹیشن بورڈ) کے ذریعے رجسٹرڈ کرنے کی ضرورت ہے، یہ ایک سنگ میل ہے جو جمعیت علمائے ہند حلال ٹرسٹ نے کامیابی حاصل کی۔’
انڈیا حلال سرٹیفیکیشن کو سنہ 1974 میں ذبیحے کی سند کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اس سے قبل اس قسم کے اسناد کا ریکارڈ نہیں ملتا ہے۔
مسلمان اور کئی دیگر مذاہب کے لوگ ذبیحے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مسلمان ممالک میں جب انڈیا سے بڑے جانور کا گوشت برآمد کیا جانے لگا تو مسلم ممالک نے اسلام کے قانون کے حساب سے ذبح کیے جانے والے جانوروں کے گوشت کی بات کہی کیونکہ اسلام میں خاص طریقے سے ذبح کیا گیا جانور ہی قابل استعمال سمجھا جاتا ہے۔
جمیعت علماء حلال ٹرسٹ کے سی ای او نیاز اے فاروقی ان دنوں انڈونیشیا میں جاری ‘حلال ایکسپو’ میں شرکت کر رہے ہیں۔
انھوں نے فون پر بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھیں یہ اختیار حکومت ہند اور بیرون ممالک کی حکومتوں کی جانب سے ملے ہوئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ عالمی سطح پر حلال کی اسناد کے لیے ایک معیار طے ہیں جن کی ان کا ادارہ پیروی کرتا ہے۔
ہم نے ان سے دریافت کیا کہ ویجیٹیبل مصنوعات میں حلال سرٹیفیکیشن کی ضرورت کیونکر ہے تو انھوں نے جواب دیتے ہوئے کہا: ‘مثال کے طور پر اگر انڈیا سے پوٹیٹو چپس انڈونیشیا برآمد کیا جا رہا ہے اور انھیں سند کی ضرورت ہے تو ہم یہ تصدیق کریں گے کہ اس میں استعمال ہونے والی اشیا اسلام کے لحاظ سے قابل استعمال ہیں کہ نہیں۔ اس میں تیل کیسا استعمال ہوا یا دوسرے اجزا کیا ہیں اور پھر ہم اس کی بنیاد پر اس کے حلال ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔’
انھوں نے ایک دوسری مثال کے ساتھ یہ بتایا کہ ‘انڈیا میں ان دنوں بہت سی چیزوں میں گو موتر (گائے کے پیشاب) کا استعمال ہوتا ہے جو کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ بہت سے ملکی اور غیر ملکی صارفین کے لیے بھی ناقابل قبول ہے۔ ایسے میں مینوفیکچررز ان سے اپنی مصنوعات کی تصدیق کرا سکتے ہیں اور یہ سب ان کی درخواست پر کیا جاتا ہے جبکہ جمیعت حلال کونسل کو اس کا مجاز بنایا گیا ہے۔’
مسٹر فاروقی کے مطابق ان کے ادارے کو ملائیشیا، انڈو نیشیا، خلیجی تعاون ممالک، سنگاپور، جنوبی کوریا، قطر، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب وغیرہ سے منظوری حاصل ہے اور ان کا ادارہ ورلڈ حلال فوڈ کونسل کا رکن بھی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ‘حلال سند صرف حلال کے صارفین کے لیے نہیں ہیں بلکہ یہ دوسرے صارفین کو بھی بہت سی معلومات فراہم کرتی ہیں تاکہ انھیں پتا ہو کہ وہ کیا استعمال کر رہے ہیں۔’
سوشل میڈیا پر بازگشت
بہر حال سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ٹرینڈز انڈیا کے ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہے۔ بہت سے لوگ یوگی کی بی جے پی حکومت کو ان کے اس اقدام کے لیے مبارکباد دے رہے جبکہ بہت سے لوگ اسے مضحکہ خیز قرار دے رہے ہیں۔
سید علیم الہی نامی ایک صارف نے لکھا: ’سب سے پہلے تو یوپی میں حلال مصنوعات پر پابندی لگانا سراسر مضحکہ خیز اور انتہائی قابل مذمت ہے۔’
یوگی آدتیہ ناتھ اور یوپی حکومت کو ٹیگ کرتے ہوئے انھوں نے مزید لکھا کہ ‘اگر آپ واقعی ان پر پابندی لگانا چاہتے ہیں تو آپ یوپی میں دنیا کی ان بڑی کمپنیوں پر پابندی کیوں نہیں لگاتے جو پوری دنیا میں حلال کی سند کے ساتھ بیف برآمد کرتی ہیں؟’مسٹر سنہا نامی ایک صارف نے لکھا کہ یہ اس سال کی نہیں تو اس ماہ کی سب سے اچھی خبر ہے۔ ’حلال صرف ٹیگ نہیں ہے۔ یہ ہندو مخالف ایجنڈے کے لیے پیسے بنانے کی مشین ہے۔ یہ غزوۃ ہند کے لیے ایک ہتھیار ہے۔’
اسی طرح کی باتیں ایک حلقے سے بار بار کی جا رہی ہیں اور انڈیا کو ‘حلال فری’ ملک بنانے کی اپیل کی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ مرکزی حکومت سے بھی یو پی حکومت کی طرح پابندی لگانے کی بات کی جا رہی ہے۔
ایک صارف نے لکھا کہ ‘یوپی انڈیا کی سب سے بڑی گوشت برآمد کرنے والی ریاست ہے اور بھکت (بی جے پی کے حامیان) بے جا خوش ہو رہے ہیں۔’
صحافی رفعت جاوید نے لکھا کہ ‘آپ سب یہ جان لیں کہ یوگی آدتیہ ناتھ اپنے لیے صرف حلال کھانے ہی منگائیں گے۔ یہ پابندیاں تو بس عوام کو دکھانے کے لیے ہیں۔ سنگھی (شدت پسند ہندو) سب سے بڑے منافق ہیں۔’
واضح رہے کہ انڈیا میں حلال کی بحث بہت پرانی ہے۔ اگرچہ یو پی حکومت نے انڈیا میں اس طرح کی مصنوعات پر پابندی لگانے میں پہل کی ہے لیکن انھوں نے برآمد کی جانے والی چیزوں کو اس سے مستثنی رکھا ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ آنے والے انتخابات سے پہلے بی جے پی کی حکومت والی کئی دوسری ریاستوں میں بھی اس قسم کی پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں۔
اس سے قبل انڈین وزارت تجارت و صنعت کے محکمہ ایگریکلچر اینڈ پروسیسڈ فوڈ پروڈکٹ ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ اتھارٹی (اپیڈا) نے حلال گوشت سے متعلق ہدایت نامے سے لفظ ’حلال` کو ہٹا دیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ گوشت برآمد کرنے والی سبھی کمپنیوں کو اب حلال سرٹیفیکیشن کی ضرورت نہیں ہو گی بلکہ صرف ان کمپنیوں کو ہو گی جو مسلم ممالک کو گوشت برآمد کرتی ہیں۔