منافقت، دوہرا معیار اور خطے کو سمجھنے میں ناکامی۔۔۔ یہ وہ الزامات ہیں جو سعودی دارالحکومت ریاض میں جمع ہونے والے 57 عرب اور مسلم ممالک کے رہنماؤں نے مغرب، بالخصوص امریکہ پر لگائے ہیں۔
متعدد مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ نے مجھ سے سوال کیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مغربی ممالک یوکرین میں مارے جانے والے عام شہریوں کی وجہ سے روس پر سخت تنقید کرتے ہیں لیکن ’اسرائیل کو غزہ میں یہی کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔‘
تباہ حال غزہ سے کوسوں دور سعودی دارالحکومت ریاض کے عالیشان رٹز کارلٹن ہوٹل میں عرب ممالک کے شہزادے، مسلم ممالک صدور اور وزرائے اعظم اسلامی سربراہی کانفرنس کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کر رہے تھے۔
اس اجلاس کے دوران شرکا کی جانب سے یکطرفہ طور پر غزہ میں جنگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جانی اور مالی نقصان کی ذمہ داری اسرائیل اور اس کے حامیوں پر ڈالی گئی۔ کسی نے بھی حماس کو سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کرنے پر تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جس میں 1200 لوگ ہلاک ہوئے تھا۔
اس اجلاس کے حتمی اعلامیے میں کہا گیا کہ ’ہم اسرائیل کی طرف سے غزہ کی پٹی کے خلاف انتقامی جارحیت کے تباہ کن نتائج سے خبردار کرتے ہیں، جو کہ ایک جنگی جرم کے مترادف ہے۔‘
اس میں مزید کہا گیا کہ ’ہم اسرائیل کی طرف سے جارحیت کو روکنے سے انکار اور اس جارحیت کو ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی قانون کو نافذ کرنے میں (اقوام متحدہ کی) سلامتی کونسل کی نااہلی کے نتیجے میں جنگ کے پھیلنے کے حقیقی خطرے سے خبردار کرتے ہیں۔‘
اس سربراہی اجلاس کے شرکا میں سے جن افراد سے میری بات ہوئی اُن میں سے بہت کم لوگوں کو توقع تھی کہ اسرائیل ان کے مطالبات پر زیادہ توجہ دے گا۔ ایک بات جو واضح تھی وہ یہ تھی کہ یہ کانفرنس اور اس کے ذریعے مسلم ممالک میں اتحاد سے متعلق دیے جانے والا پیغام اسرائیل کے سب سے بڑے حمایتی امریکہ کے لیے تھا۔
عرب اور مسلم ممالک کے رہنما چاہتے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ اور مغربی ممالک جنگ کو مکمل طور پر روکنے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالیں۔
لیکن شرکا میں جس بات پر اتفاق نہیں ہو سکا وہ یہ تھی کہ اس مقصد کو کیسے حاصل کیا جائے۔ کانفرنس میں چند ایسے ’غیرمتوقع‘ شرکا بھی اکٹھے ہوئے جو ایک جگہ کم ہی نظر آتے ہیں، اور ان کی موجودگی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پورے خطے کو غزہ میں ہونے والے واقعات کے بےقابو ہونے کا خوف ہے۔
اسرائیل کے سب سے بڑے حریف ایران نے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اپنی عبا میں ملبوس اور اپنے مخصوص سکیورٹی حصار میں یہاں نظر آئے۔ یہ بذات خود ایک حیران کن منظر تھا۔
مارچ میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان مصالحت سے قبل یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے سخت حریف تھے۔ ابھی بھی ان کے متضاد ایجنڈے ہیں۔ ایران غزہ میں حماس، لبنان میں حزب اللہ اور یمن میں حوثیوں کی حمایت کرتا ہے۔
سعودی عرب اور اس کے مصر اور اردن جیسے قدامت پسند اتحادی ایران کی حمایت یافتہ اِن تحریکوں کو خطے میں خطرناک عدم استحکام کا باعث سمجھتے ہیں۔
ریاض کے لیے روانہ ہونے سے قبل تہران ایئرپورٹ پر گفتگو کرتے ہوئے صدر ابراہیم رئیسی نے کہا تھا کہ یہ باتیں کرنے کا وقت نہیں ہے بلکہ غزہ کی صورتحال پر کارروائی کرنے کا وقت ہے۔
تاہم وہ تمام لوگ جو اس کانفرنس کے نیتجے میں امریکہ اور برطانیہ کے خلاف سخت اقدامات کیے جانے کی توقع کر رہے تھے، وہ مایوس رہے۔ ابراہم معاہدے کے تحت متحدہ عرب امارات اور بحرین نے حال ہی میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی، تجارتی اور سکیورٹی تعلقات قائم کیے ہیں۔ کانفرنس کے دوران چند شرکا کی طرف سے ان دونوں ممالک سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ حال ہی میں بحال ہونے والے تعلقات کو توڑ دیں، اس مطالبے کی ان دونوں ممالک کی جانب سے مزاحمت کی گئی۔
شام کے صدر بشار الاسد بھی اس سربراہی کانفرنس میں شریک تھے۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہ شام کی خانہ جنگی میں اپنی حکومت کے جابرانہ اقدامات کی وجہ سے عرب دنیا میں سفارتی تنہائی کا شکار تھے۔
انھوں نے سربراہی اجلاس کو بتایا کہ غزہ کی صورتحال کے پیش نظر ٹھوس اقدامات اٹھائے بغیر کچھ حاصل نہیں ہو گا، لیکن تیل برآمد کرنے پر پابندی یا عرب ممالک سے امریکی اڈوں کو ختم کرنے جیسی تجاویز کو خاموشی سے ٹھکرا دیا گیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حماس کے سات اکتوبر کے حملے اور اس کے بعد شروع ہونے والی غزہ جنگ نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال تبدیل کر دی ہے۔
سات اکتوبر کی خون ریزی سے قبل خطے کی سیاست میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں جو ایران اور اس کے حمایت یافتہ عسکریت پسند گروہوں کے مفاد میں نہیں تھیں۔
ابراہم معاہدے کے تحت چھ عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کر لیے تھے اور سعودی عرب بھی اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کے قریب تھا۔ حماس کے حملے سے چند دن قبل اسرائیل کے وزیر سیاحت ریاض کا دورہ کر چکے تھے۔ دبئی بڑی تعداد میں اسرائیلی سیاحوں کو اپنی جانب راغب کر رہا ہے اور عرب ممالک میں اسرائیل کی ٹیکنالوجی، بائیو ٹیک اور دیگر شعبوں میں مہارت کی بڑی مانگ ہے۔
قطر کے علاوہ باقی خلیجی عرب ممالک کے سربراہان فلسطینی قیادت کی بدعنوانی، نااہلی اور آپس کی لڑائی سے تنگ آ چکے تھے، قطر حماس کے ملک بدر سربراہان کو پناہ دیتا ہے۔ ان رہنماؤں کی عام فلسطینیوں کے حالات پر ان کے ساتھ ہمدردی ہے جن کی 75 سال بعد بھی اپنی ریاست نہیں ہے۔
لیکن ان کی رائے اب یہ ہے کہ اسرائیل کی اہمیت اتنی ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور وقت آ گیا ہے کہ آگے بڑھا جائے اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لے کر آئے جائیں۔ فلسطینی ریاست کے مستقبل کا سوال تقریروں میں تو سننے کو مل رہا تھا لیکن اس پرعملی اقدامات کم ہو رہے تھے۔
وہ عرب ممالک جنھوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال یا قائم کیے ہیں، ان کے تعلقات فی الحال اسرائیل سے ٹوٹے تو نہیں ہیں لیکن یقینی طور پر خطرے میں ہیں۔
ایک عرب ملک کے وزیر خارجہ نے مجھے بتایا کہ ’ہم اپنے نوجوانوں میں فروغ پانے والی شدت پسندی سے پریشان ہیں۔‘
انھوں نے کہا ’غزہ میں جو ہو رہا ہے نوجوان اسے ٹی وی پر دیکھ رہے ہیں اور ان میں غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔‘
میں نے بار بار شرکا کو یہ شکایت کرتے سُنا کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی حکومت کے اقدامات اپنے دفاع سے بہت آگے نکل گئے ہیں اور اب خطے کو خطرناک راستے پر لے جا رہے ہیں۔ خدشات ہیں کہ انٹرنیٹ پر شدت پسند بیانیہ زور پکڑ رہا ہے۔
عرب اور مسلم رہنما اس بات پر مایوس ہیں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل غزہ میں اسرائیلی فوج کی کارروائیوں کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔
امریکہ نے غزہ میں جنگ بندی کی مخالفت کی ہے اور امریکہ کے اس اقدام نے ان (عرب) ممالک کو سخت شرمندہ کیا ہے جو امریکہ کو خطے میں اپنا اتحادی کہتے ہیں۔
امریکہ کا تیل سے مالا مال خلیجی ممالک کے ساتھ اتحاد 1945 میں ہوا جب امریکی صدر روزویلٹ اور موجودہ سعودی عرب کے بانی بادشاہ عبدالعزیز کے درمیان بحیرہ احمر میں امریکی بحری جنگی جہاز پر ملاقات ہوئی تھی۔ آج سعودی عرب اور خلیجی ممالک کی زیادہ تر سکیورٹی ضروریات امریکہ پوری کرتا ہے۔
لیکن پس منظر میں صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ اوباما انتظامیہ کے وقت سے امریکہ کی توجہ ایشیا کی طرف مبذول ہوئی ہے جس کے باعث خلیجی ممالک میں یہ ڈر پیدا ہو گیا ہے کہ امریکہ کی خطے میں دلچسپی کم ہو رہی ہے اور ایک وفادار ساتھی کے طور پر اس پر مزید بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔
اس کے ساتھ ساتھ روس اور چین کا اثرورسوخ بڑھتا جا رہا ہے۔ چین نے حال ہی میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات بحالی میں ثالثی کی ہے۔ صدر پوتن نے عرب رہنماؤں کو شام کے صدر بشار الاسد کی حمایت سے متاثر کیا ہے۔ وہ اس کا موازنہ 2011 میں تحریر سکوائر میں مظاہرے کے ساتھ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں امریکہ نے مصری صدر حُسنی مبارک کا ساتھ بہت جلدی چھوڑ دیا تھا۔
اس سب کا بالکل یہ مطلب نہیں ہے کہ مغرب نے مشرق وسطیٰ میں اپنے دوست گنوا دیے ہیں۔ وہ عرب اتحادی واضح طور پر امریکہ کے ساتھ سخت الفاظ میں بات کرنے سے آگے نہیں بڑھ رہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ خطے اور ان کے اپنے ممالک کی صورتحال ان کے قابو سے باہر ہو جائے وہ چاہتے ہیں کہ انھیں سنا جائے اور غزہ میں تشدد اب بند ہو جائے۔