کراچی ( نیوز ڈیسک) فلسطین کی حمایت میں مسلم اور عیسائی ایک ہوگئے، دنیا بھر میں مسلمانوں کیساتھ ساتھ عیسائی شہری بھی احتجاجی سراپا احتجاج ، امریکی یہودی بھی احتجاجی مظاہروں میں شامل ہوگئے.
واشنگٹن سے برلن تک دنیا کے بڑے دارالحکومتوں میں اسرائیلی جارحیت کیخلاف لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل آئے ، مظاہرین نے غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا.
امریکی دارالحکومت واشنگٹن، برطانوی دارالحکومت لندن، فرانس کے دارالحکومت پیرس، جرمن دارالحکومت برلن، اٹلی کے شہر میلان، اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو ، سینیگال کے دارالحکومت ڈاکار اور بنگلادیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں لاکھوں شہریوں نے غزہ میں فوری طور پر جنگ روکنے کا مطالبہ کیا اور فلسطینیوں کے حق میں نعرے لگائے.
ترکیہ کےجنوبی شہر انجرلک میں فلسطینیوں کے حامیوں کے ایک کاررواںنے ملک کے جنوب میں قائم امریکی فوجی اڈے کی جانب مارچ کیاتاہم پولیس نے اس دوران مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کیلئے ان پر شیلنگ کردی ، اس مارچ کی خاص بات یہ تھی کہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن یہاں پہنچے تھے، رام اللہ میں بھی امریکی وزیر خارجہ کے پہنچنے پر ہزاروں فلسطینیوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا ، مظاہرین نے بلنکن کیخلاف بھی پوسٹرز اٹھا رکھے تھے جس میں پر درج تھا ’’بلنکن کے ہاتھ فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئےہیں‘‘.
امریکا سے نمائندہ خصوصی عارف الحق عارف کے مطابق کیلیفورنیا کے شہر سان فرانسسکو میں غزہ میں فلسطینوں کے قتل عام کے خلاف اس شہر کی تاریخ کی سب سے بڑی ریلی نکالی گئی جس میں ہزاروں افراد نے حصہ لیا ، یہ ریلی ایک بجے سے 5بجے تک جاری رہی، مظاہرین نے قتل عام اورفلسطینیوں کی کی نسل کشی کو فوری طور پر بند کرنے کا مطابہ کیا .
احتجاجی مظاہرے میں بلا امتیاز مذہب، رنگ، نسل اور زبان اور جنس معصوم بچوں،جوان مردوں اور عورتوں اور ضعیف بزرگوں اور معذوروں تک نے حصہ لیا ، مظاہرے میں مسلمانوں سے زیادہ عیسائی اور دوسرے مذاہب کے لوگ نظر آرہے تھے.
مظاہرین نے پلے کارڈز اور بینر اٹھا رکھے تھے جن پر غزہ میں فلسطینی عوام کا مسلسل قتل عام اور ان کی نسل کشی بند کرو،ہاسرائیل کو فوجی امداد بند کرو، ہمارے ٹیکسوں سے جمع رقم کو حملہ آوروں اور قاتلوں کو اربوں ڈالرز بھجنا بند کرو، فوری طور پر سیز فائر کرو،غزہ کے اسپتالوں اور انسانی آبادی پر بے رحمانہ بمباری بند کرو، فلسطین کو جابرانہ قبضہ سے آزاد کرو، اسرائیل کا بائیکاٹ کرو اور اس طرح کے اور نعرے لکھے تھے.
فلسطینیوں کے حق میں سب سے بڑا مظاہرہ امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ہوا جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی، خلیجی ٹی وی کے رپورٹر نے مظاہرین کی تعداد کو دیکھتے ہوئے تبصرہ کیا کہ عوام کا سمندر اُمڈ آیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق، مظاہرین میں شامل افراد صرف عرب یا مسلمان نہیں بلکہ سفید فام امریکی،عیسائی، یہودی شہری اور مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے افراد نے فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کی۔
مظاہرے میں شامل ایک یہودی امریکی شہری کا کہنا تھا کہ ہم امریکی صدر جو بائیڈن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسرائیلی فوج کی فنڈنگ بند کی جائے، اس لڑائی میں جاں بحق ہونے والے انسانوں اور ان اکے اہل خانہ کو ہونے والی تکلیف انسان ہی محسوس کر سکتے ہیں، ہم انسان ہیں، اس قتل عام میں صیہونی ملوث ہیں اور یہ لوگ یہودیوں کے نمائندہ نہیں۔
لندن میں ہونے والے مظاہرے میں مظاہرین کی ایک بڑی تعداد آکسفورڈ سرکس اور پکاڈلی سرکس کو بلاک کر دیا اور ٹرافلگار اسکوائر پر جمع ہوئے۔ مظاہرین کے ہاتھوں میں ’’فلسطین کو آزادی دو‘‘ کے پلے کارڈز تھے۔ لندن پولیس ڈپارٹمنٹ کے مطابق، مظاہرے میں تیس ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی۔
اس دوران گیارہ افراد گرفتار ہوئے۔ دیگر مظاہرین نے برطانوی نشریاتی ادارے کے دفتر کے باہر بھی دھرنا دیا اور ادارے کی رپورٹ کو متعصبانہ قرار دیا۔ برطانیہ نے سرکاری سطح پر امریکا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا، اس کی بجائے غزہ جانے والی امداد روکنے کے حق میں بیانات جاری کیے گئے ہیں۔
دوسری جانب، پیرس میں ہونے والے مظاہرے کو فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے مظاہروں میں اب تک کا سب سے بڑا مظاہرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس مظاہرے میں سرکاری ملازمین نے بھی شرکت کی۔
جرمنی کے شہر برلن میں بھی فلسطینیوں کے حق میں مظاہرہ ہوا جس میں ساڑھے 6؍ ہزار افراد نے شرکت کی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ مظاہرین کیخلاف سخت اقدامات کر رہی ہے۔ ملک میں فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کیلئے نکالی جانے والی ریلیوں پر پابندی عائد ہے لیکن مظاہرین نے اس پابندی کی پروا نہ کرتے ہوئے ریلی نکالی اور شہر کے سب سے بڑے چوراہے ’’الیکزانڈر پلاتز‘‘ پر جمع ہوئے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ نسل کشی کا سلسلہ (اپارتھائیڈ کلچر) بند کیا جائے۔ اٹلی میں ہونے والے مظاہرے میں چار ہزار افراد نے شرکت کی۔ افریقی ملک سینیگال میں ہونے والی ریلی میں بھی ہزاروں افراد نے شرکت کی، ان کے ہاتھوں میں جنگ بندی کے حق میں چھپے ہوئے پلے کارڈز اور فلسطینی جھنڈے تھے۔
ادھر، ترکیہ کے شہر استنبول اور دارالحکومت انقرہ میں بھی مظاہرین نے جنگ بندی کیلئے مظاہرہ کیا۔
استنبول کے سراچین پارک میں مظاہرین نے فلک شگاف نعرے لگائے اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کو قتل عام میں معاون قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ امریکی وزیر خارجہ کو ملک سے نکال دیا جائے۔
انقرہ میں مظاہرین امریکی سفارتخانے کے قریب جمع ہوئے اور امریکا اور اسرائیل کیخلاف نعرے لگائے۔ ترکیہ کے جنوبی شہر ادانا میں قائم امریکی اڈے ’’انچرلک‘‘ ایئر بیس کی جانب ہزاروں افراد نے مارچ کیا جس میں ہزاروں گاڑیاں شامل تھیں۔
نمائندہ خصوصی عارف الحق عارف کے مطابق فرانسسکو میں بڑی ریلی کا انتظام فلسطینیوں، مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کی مختلف تنظیموں کے علاوہ حقوق انسانی کی انجمنوں نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔
ریلی کے شرکاء نے ہزاروں کی تعداد میں فلسطین کے پرچم ، اور بینرز اٹھا رکھے تھے ۔یہ ریلی ایک بجے دن شروع ہوئی اور اس کے شرکاء شہر کی مختلف گلیوں میں مارچ کرتے نعرے لگاتے ہوئے مرکیٹ اسٹریب سے ہوتے گزرتے ہوئے فیڈرل حکومت کی ایک عمارت کے سامنے جمع ہوئے جہاں منتظمین کے لیڈروں نے تقریریں کیں اور امریکی حکومت اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر غزہ میں بچوں عورتوں اور عوام کا قتل عام بند کرائیں اور سیز فائر کرائیں ان لیڈروں نے اپنی تقریروں میں امریکی حکومت کی اسرائیل کو ملڑی ایڈ دینے پر بھی پر شدید تنقید کی اور امریکا سے مطالبہ کیا کہ وہ اس مسلے کو حل کرنے کے لئے مثبت کردار کرے ۔
امریکا کی طرف سے اسرائیل کے لئے 14بلین ڈالر کی ملٹری ایڈپر مظاہرین نے شیم شیم امریکا اور شیم شیم جو بائیڈن کے فلک شگاف نعرے لگائے۔ مظاہرین نے مارچ کے سارے راستےفری فری فلسطین۔ فری فری غزہ۔۔ سٹاپ جینوسائیڈ ان غزہ ۔۔ فرام دا ریور ٹو دی سی فلسطین ول بی فری کے نعرے لگائے۔