کرپٹو کے بے تاج بادشاہ کے عروج و زوال کی کہانی: ’ہر کوئی سیم بینک مین سے دھوکہ کھا گیا‘

نیویاک کی ایک عدالت نے کرپٹو کرنسی کی دنیا کے بڑے نام اور کرپٹو کرنسی کی بڑے ایکسچینج کمپنیوں میں سے ایک، ایف ٹی ایکس کے مالک، سیم بینک مین کو صارفین کے اربوں ڈالر چوری کرنے کے مقدمے میں مجرم قرار دے دیا ہے۔

سیم بینک مین کو اگلے برس مارچ میں سزا سنائی جائے گی اور انھیں عشروں تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔

سلیکون ویلی کے ’ونڈر کڈ‘ کہلائے جانے والے سیم بینک مین کے عروج و زوال کی ایک لازوال کہانی ہے۔ ایک وقت تھا کہ سیم بینک مین کا مشہور شخصیات کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا۔

سات نومبر 2022 کو سیم بینک مین کی کمپنی ایک ایسے گرداب میں پھنسی جس میں اس کا ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ سیم بینک مین نے اس صورتحال میں وہی کہا جو وہ ہمیشہ کرتا تھا۔ اس نے اپنے آپشنز پر غور کیا۔

ایک روز قبل سیم کے ایک حریف نے سوشل میڈیا پر ایف ٹی ایکس کی مالی حالت پر تشویش کا اظہار کیا تھا جس سے صارفین میں خوف پیدا ہوا اور انھوں نے ایف ٹی ایکس سے اثاثے نکلوانے شروع کر دیے۔

ایک آن لائن چیٹ میں سیم بینک مین نے اپنے دو اعلی نائبین سے مشورہ کیا۔ انھوں نے ان سے پوچھا کہ ’واضح طور پر آپ کو لگتا ہے کہ یہ ٹویٹ غلط ہے؟‘

سیم بینک مین سے پوچھا گیا کیا یہ ممکن ہے کہ ممکنہ نقصان کو روکا جا سکے؟ بینک مین نے لکھا کہ ’اس کا بظاہر کوئی امکان نہیں ہے۔‘

سیم بینک مین برسوں سے اسی طرح کی جمع تفریق سے اپنا کام چلا رہے تھے۔

ان کے دوستوں کا کہنا تھا کہ وہ تقریباً ہر صورت حال میں اسی طرح کے طریقے سے کام چلاتے تھے۔ کبھی تو ان کا طریقہ چل جاتا تھا لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوا۔ نوجوانی میں سیم نے امارت کی منزلیں اتنی تیزی سے طے کیں کہ تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

لیکن سیم بینک مین کے حریف کی ٹویٹ کے بعد صرف پانچ دنوں میں ان کی ایکسچینج سے اربوں ڈالر نکل گئے اور جب سب ہو گیا تو معلوم ہوا کہ گاہکوں کے آٹھ ارب ڈالر غائب تھے اور کمپنی دیوالیہ ہو چکی تھی۔

پانچ ہفتوں بعد مینہیٹن پراسیکیوٹر نے سیم بینک مین پر کئی الزامات عائد کیے جن میں دھوکہ دہی اور منی لانڈرنگ کے الزامات شامل تھے۔

چار ہفتوں تک جاری رہنے والی عدالتی کارروائی کے دوران دو متضاد کہانیاں سامنے آئیں۔ ایک یہ کہ وہ خود ایک ذہین لیکن بدقسمت شخص تھا، جس کی ناک کے نیچے بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی کا ارتکاب ہوتا رہا لیکن وہ اسے روک نہیں سکے۔

دوسری یہ کہ بینک مین کمپنی کے سابق ارکان کی حمایت سے صارفین کے اربوں ڈالر اس خیال سے خرد برد کرتے رہے کہ وہ کبھی پکڑے نہیں جائیں گے۔

دونوں کہانیوں سے پتہ چلتا ہے کہ ایف ٹی ایکس کی قسمت اس کے بانی کی شخصیت سے کتنی مضبوطی سے جڑی ہوئی تھی جن کی کرشماتی شخصیت سابق صدور، مشہور شخصیات اور کارپوریٹ ٹائٹنز کواپنی جانب کھینچ لائی۔

sam bankman fred
،سیم بینک مین کے دفتر کا ایک منظر جو انھوں نے خود ٹوئٹر صارفین کے ساتھ شیئر کیا تھا

سیم بینک مین اپنی دولت کے بارے میں کبھی شرمندہ نہیں تھا: وہ امیر بننا چاہتا تھا۔

دو انتہائی قابل والدین کی اولاد سیم بینک مین اور ان کے چھوٹے بھائی کو کم عمری میں افادیت پسندی کے فلسفے کے بارے میں سکھایا گیا تھا۔ اس نظریے کے مطابق سب سے زیادہ اچھا اور اخلاقی عمل وہ ہے جو زیادہ تر لوگوں کے لیے فائدے کا موجب ہو۔

ایم آئی ٹی کے طالب علم سیم بینک مین ایک بار آکسفورڈ یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کے طالب علم ول میکاسکل کی تقریر سننے گئے جو ایک افادیت پسند فلسفے کے بانی ہیں اور ریاضی کا استعمال کرتے ہوئے یہ معلوم کرتے ہیں کہ کس طرح افراد اپنے رفاہی اثرات کو زیادہ سے زیادہ کر سکتے ہیں۔

میکاسکل نے سیم بینکمین سے کہا کہ وہ اپنی ذہانت کو منافع بخش وال سٹریٹ میں لے جا کر دولت رفاعی کاموں میں دے سکتے ہیں۔

سیم بینک مین کو یہ مشورہ پسند آیا۔ 2014 میں انھوں نے تعلیم سے فارغ ہو کر ہائی فریکوئنسی ٹریڈنگ فرم کے ساتھ کام شروع کیا اوراطلاعات کے مطابق انھوں نے اپنی آمدنی کا تقریبا آدھا حصہ رفاعی کاموں کے لیے دینا شروع کر دیا۔

تین سال بعد سیم بینکمین کو ایک ایسی صنعت ملی جو اسے عام ٹریڈنگ سے بھی زیادہ امیر بنا سکتی ہے اور وہ تھی کرپٹو ٹریڈنگ۔

25 سال کی عمر میں انھوں نے ایک کرپٹو سرمایہ کاری فرم المیڈا ریسرچ کی بنیاد رکھی، یہ دیکھنے کے بعد کہ بٹ کوائن کی قیمتیں مختلف ممالک میں کافی مختلف ہیں، اور صرف تین ہفتوں میں 20 ملین ڈالر کمائے۔

2019 میں انھوں نے ہانگ کانگ میں عالمی سرمایہ کاروں کے لیے ایف ٹی ایکس کی بنیاد رکھی۔ مہینوں کے اندر ایف ٹی ایکس پر روزانہ تجارتی حجم 300 ملین ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔

وہ بڑے سرمایہ داروں کو اپنی کمپنی میں سرمایہ لگانے پر رضامند کرنے میں کامیاب رہے اور2021 تک وہ فوربز 400 میں شامل ہو چکے تھے، جو میگزین کی امیر ترین امریکیوں کی سالانہ فہرست ہے، جن کی دولت 22.5 بلین ڈالر تھی۔

bankman with tony blair, bill clinton on stage
،سیم بینک مین سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر اورسابق امریکی صدر بل کلنٹن کے ہمراہ

کچھ لوگوں کے مطابق ان کی غیر معمولی کامیابی کی وجہ خطروں سے کھیلنے پر آمادگی تھی۔

ان کی سابق گرل فرینڈ اور المیڈا ریسرچ کی سابق سی ای او کیرولین ایلیسن نے مقدمے کی سماعت کے دوران کہا کہ ’وہ ایک ایسا ٹاس کر کے خوش ہوں گے جو وہ جیت جائیں خواہ دنیا تباہ ہو جائے۔ اگر وہ جیت جائیں تو دنیا بہت اچھی ہے۔‘

ایف ٹی ایکس کے اندرونی کہانیوں کے مطابق ایف ٹی ایکس میں زندگی کبھی کبھی ریاضی کے ایک بڑے کیمپ کی طرح ہو سکتی ہے، جہاں ذہین مگر غیر موزوں افراد کی بھرمار ہے اور اس کی قیادت سیم بینک مین کر رہے تھے۔

ایف ٹی ایکس کے ایک سابق ملازم نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ انتہائی غیر منظم تھے، وہ ہمیشہ کارگو شارٹس پہنتے تھے اور ننگے پاؤں دفتر میں گھومتے تھے۔‘

ملازم نے بتایا کہ کمپنی میں سب سے اوپر بیٹھے لوگوں کا ایک مضبوط گروپ تھا جو سیم کی باتیں آنکھیں بند کر کے سنتے تھے۔

نیٹلی ٹیئن نے، جنھوں نے ایف ٹی ایکس میں دو سال سے زیادہ عرصے تک تعلقات عامہ اور سیم بینک مین کے شیڈول کو سنبھالا، کہا کہ وہ کرشماتی شخصیت کے مالک تھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نے ان پر 100 فیصد بھروسہ کیا۔‘

یہ صرف کمپنی کے اندر کے لوگ ہی نہیں تھے جو ان کی کرشماتی شخصیت سے متاثر تھے۔

بل کلنٹن، ٹونی بلیئر اور کیٹی پیری کے شانہ بشانہ شارٹس اور ٹی شرٹس میں نظر آنے کے بعد وہ مجموعی طور پر کرپٹو انڈسٹری کے لیے ایک طرح کے سفیر بن گئے۔

سیم بینک مین کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اپنی کمائی ہوئی دولت کو عیش وعشرت پر خرچ سے گریز کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔ مقدمے کی سماعت کے دوران ان کے وکیل نے کہا کہ ان کے پاس تو کشتی بھی نہیں تھی، انھوں نے پرانی ٹویوٹا کرولا گاڑی چلائی۔

دریں اثنا انھوں نے کانگریس کے سامنے گواہی دی اور کرپٹو مارکیٹ کے لیے مزید ضابطوں کے لیے دلائل دیے، جس نے انھیں اپنے بہت سے ساتھیوں سے الگ کردیا۔

ایک تحقیقاتی صحافی زیک فاکس نے کہا کہ ’عجیب انداز میں، وہ کرپٹو کی دنیا کا ایک سمجھدار شخص لگ رہا تھا۔ اور، یقینا، اس کا بیان کردہ حتمی مقصد تھا: سیم بینک مین اپنی ساری دولت دینے جا رہا تھا۔‘

مسٹر فاکس کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک عظیم کہانی تھی، ہر کوئی اسے پسند کرتا تھا، کانگریس میں لوگوں نے اسے پسند کیا، وائس چانسلروں نے اسے پسند کیا، بینکرز نے اسے پسند کیا۔‘

انھوں نے کہا ’لیکن ان کی کہانی کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ سچ نہیں تھی۔‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں