ڈاکٹر یاسمین راشد اور غلام محمود ڈوگر کی مبینہ آڈیو لیک: ’میرا مسٹر ڈوگر سے براہ راست کنسرن ہے‘

’یہ پرائویسی ایکٹ کے تحت پرائویسی کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔ میں اس کے پیچھے تمام لوگوں کو ذمہ دار ٹھہراؤں گی۔ ہم ان کے ارادوں سے واقف ہیں۔‘

تحریک انصاف رہنما اور پنجاب کی سابق وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کا یہ ردعمل اس وقت سامنے آیا جب پاکستان میں ہفتے کے دن سوشل میڈیا پر ایک ایسی آڈیو لیک سامنے آئی جس میں ڈاکٹر یاسمین راشد اور سابق سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کی مبینہ گفتگو ہو رہی تھی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جمعے کے دن پنجاب کی نگران حکومت کا وہ حکم معطل کر دیا تھا جس کے تحت غلام محمود ڈوگر کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔

اس مبینہ آڈیو لیک کی تصدیق کیے بغیر ڈاکٹر یاسمین راشد نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ’میرا مسٹر ڈوگر کے ساتھ براہ راست کنسرن (تعلق) ہے۔‘

ڈاکٹر یاسمین راشد اور اے آئی جی پولیس غلام محمود ڈوگر کی مبینہ آڈیو لیک

سوشل میڈیا پر منظر عام پر آنے والی مبینہ آڈیو میں ڈاکٹر یاسمین راشد اور غلام محمود ڈوگر کی تصویر لگائی گئی ہے جس میں ہونے والی گفتگو میں ایک خاتون پنجابی زبان میں سوال کرتی ہیں کہ ’کوئی اچھی خبر سنائیں، آرڈر ہو گئے ہیں؟‘

اس کے جواب میں دوسری جانب سے مردانہ آواز میں جواب دیا جاتا ہے کہ ’ابھی تک آرڈر نہیں ملے۔‘

خاتون سوال کرتی ہیں کہ ’ان کے ارادے کیا ہے؟ میں ویسے پوچھ رہی ہوں۔‘

ان کو جواب ملتا ہے کہ ’وہ تو سپریم کورٹ سے آرڈر ملنے ہیں، وہ تو انشا اللہ جیسے ہی ہوں گے، ہمیں مل جائیں گے، ہمارے بندے وہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔‘

’وہ ڈاک جاتی ہے جج صاحبان کو، وہ سائن کرتے ہیں اس پر۔ کورٹ ٹائم میں تو نہیں کرتے ناں، وہ تو کورٹ ٹائم کے بعد ہی کرتے ہیں۔‘

خاتون کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ ’خان صاحب کافی کنسرنڈ تھے۔ میں نے کہا کہ میری اطلاع کے مطابق تو اب تک ان کو نہیں ملے۔‘

جواب میں آواز آتی ہے کہ ’وہ آ جائیں گے رات کو، ڈاک سائن ہو کے آ جاتی ہوتی ہے۔‘

خاتون کی جانب سے پھر کہا جاتا ہے کہ ’آج ہماری رات خاموشی سے گزر جائے گی؟ میں ویسے ہی پوچھ رہی ہوں آپ سے۔‘

ان کو جواب دیا جاتا ہے کہ ’اللہ تعالی خیر کرے گا۔ الہ تعالی کرم کرے گا۔‘

خاتون کہتی ہیں کہ ’میں نے کہا مشکل سوال ڈال دیا آپ کو آتے ساتھ ہی۔‘

ڈاکٹر یاسمین راشد کا ردعمل

اس مبینہ گفتگو کے منظر عام پر آنے کے بعد ڈاکٹر یاسمین راشد کی جانب سے یہ نہیں کہا گیا کہ یہ گفتگو جعلی ہے۔

سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر یاسمین راشد نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بیان دیا کہ ’یہ پرائویسی ایکٹ کے تحت پرائویسی کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں اس کے پیچھے تمام لوگوں کو ذمہ دار ٹھہراؤں گی۔ ہم ان کے ارادوں سے واقف ہیں۔‘

ڈاکٹر یاسمین راشد نے مذید کہا کہ ’میرا مسٹر ڈوگر کے ساتھ براہ راست کنسرن ہے کیوں کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت انھوں نے چارج لینا ہے اور میں چاہتی ہوں کہ جے آئی ٹی کی تفتیش گذشہ چند دنوں کی سرکس کے بعد جاری رہے۔‘

واضح رہے کہ غلام محمود ڈوگر تحریک انصاف چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان پر وزیر آباد میں ہونے والے حملے کے بعد بنائی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ تھے۔

غلام محمود ڈوگر کون ہیں؟

پنجاب میں 2021 کے آغاز میں لاہور کے اس وقت کے سی سی پی او عمر شیخ کو عہدے سے ہٹا کر ان کی جگہ غلام محمود ڈوگر کو سی سی پی اور لاہور تعینات کیا گیا۔

گذشہ سال ستمبر میں جب مسلم لیگ نواز کے سینیئر رہنماؤں مریم اورنگزیب اور جاوید لطیف کے خلاف لاہور کے ایک تھانہ میں انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تو اگلے ہی روز وفاقی حکومت نے سی سی پی او لاہور کو واپس اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کے احکامات جاری کیے تاہم پنجاب حکومت نے انھیں کام جاری رکھنے کی ہدایت کی۔

اس کے بعد سامنے آنے والی ایک ویڈیو میں غلام محمود ڈوگر کو اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہی سے گلے ملتے دیکھا گیا جس میں پرویز الہی ان کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اپنا کام جاری رکھیں اور یہ کہ انھیں کہیں نہیں جانے دیا جائے گا۔

پاکستان

تاہم اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے غلام محمود ڈوگر کو معطل کیا تو انھوں نے پہلے لاہور ہائی کورٹ اور پھر فیڈرل سروس ٹریبونل (ایف ایس ٹی) سے رجوع کیا۔

ان کا کیس سپریم کورٹ تک پہنچا جہاں ان کی عہدے پر بحالی کے احکامات ہوئے تاہم پنجاب میں نگران حکومت کی آمد کے بعد ایک بار پھر ان کو بطور سی سی پی او لاہور ہٹا دیا گیا۔

گذشتہ روز سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے پنجاب کی نگران حکومت کے احکامات کو معطل کرتے ہوئے ان کو بطور سی سی پی او کام جاری رکھنے کی ہدایت کی اور ریمارکس دیے کہ ’سپریم کورٹ میں پولیس افسران کی ٹرانسفر پوسٹنگ کا معاملہ پہلے ہی پانچ رکنی بینچ سن رہا ہے اور غلام محمود ڈوگر کی ٹرانسفر کا کیس بھی پانچ رکنی بینچ سنے گا۔‘

سوشل میڈیا ردعمل: ’پاکستان میں کوئی پرائویسی نہیں‘

ڈاکٹر یاسمین راشد کی مبینہ آڈیو لیک حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آنے والا پہلا سکینڈل نہیں ہے۔

اس سے قبل سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت سیاست دانوں اور ججوں کی مبینہ آڈیو لیکس کا سلسلہ ملک کے سیاسی بحران کے آغاز سے ہی شروع ہوا تھا۔

تاہم سوشل میڈیا پر حالیہ آڈیو لیک پر دلچسپ تبصرے دیکھنے کو ملے۔

ایک صارف نے ڈاکٹر یاسمین ارشد کو مشورہ دیا کہ ’پاکستان میں کوئی پرائویسی نہیں ہوتی، آپ فون کال کرنا ہی چھوڑ دیں۔‘

کائنات نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’آپ کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستانی معاشرے میں پرائویسی کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔‘

’لوگ اس بات کا خیال کیے بغیر کہ کسی کی بات ان کو کیسے معلوم ہوئی، ذاتی چیزوں پر کھلے عام بات کرتے ہیں۔‘

انھوں نے ڈاکٹر یاسمین راشد سے کہا کہ ان کو محتاط رہنا چاہیے۔ ’ایسا پہلی بار نہیں ہوا، ماضی کی غلطیوں کو دہرانا نہیں چاہیے۔‘

ایک اور صارف نے مشورہ دیا کہ ’پیغام رسانی کے لیے کبوتر کا استعمال کریں۔‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں