محمد بن قاسم سندھ فتح کرنے کے بعد گئے تو گئے کہاں؟

کہا جاتا ہے کہ سندھ کے حکمران راجہ ڈاہر کو جب اُموی سالار محمد بن قاسم کے ہاتھوں شکست ہو گئی تو اُن کی دو بیٹیوں سوریا اور پریمل کو محمد بن قاسم نے راجہ کی ہلاکت کے بعد خلیفہ ولید بن عبدالملک کے پاس دارالخلافہ بغداد روانہ کر دیا۔

خلیفہ ولید بن عبدالملک نے جب بڑی بیٹی سوریا سے خلوت کا ارادہ کیا تو سوریا نے چال چلی اور خلیفہ سے کہا کہ محمد بن قاسم پہلے ہی اُن کے ساتھ خلوت اختیار کر چکا ہے چنانچہ وہ اب خلیفہ کے شایانِ شان نہیں رہیں۔

غصے میں خلیفہ کو تحقیق کا ہوش نہیں رہا اور اُنھوں نے اسی وقت محمد بن قاسم کے نام پروانہ جاری کیا کہ وہ جہاں کہیں بھی ہیں خود کو کچی کھال میں سلوا کر دارالخلافہ کو واپس ہوں۔

محمد بن قاسم نے ایسا ہی کیا اور دارالخلافہ کے راستے میں ہی دو دن بعد اُن کی موت ہو گئی۔

یہ کہانی کتاب فتح نامہ سندھ عرف چچ نامہ میں بیان کی گئی ہے۔

روایت کے مطابق اس کے بعد راجہ ڈاہر کی بیٹی کا ایک طویل خطاب ہے جس میں وہ محمد بن قاسم کی عادل حکمرانی کی گواہی دیتی ہیں مگر اُن کی ہلاکت کی سازش رچنے کو اپنے والد کا بدلہ قرار دیتی ہیں۔

اسی خطاب میں وہ محمد بن قاسم کے بارے میں بھی کہتی ہیں کہ اُنھیں فرمانبرداری میں بھی عقل سے کام لینا چاہیے تھا اور خلیفہ کو بھی کہتی ہیں کہ اُسے بھی سنی سنائی بات پر اتنا سخت حکم جاری کرنے سے قبل تحقیق کر لینی چاہیے تھی۔

چچ نامہ کے مطابق راجہ ڈاہر کی بیٹی نے کہا: دانا بادشاہِ وقت پر واجب ہے کہ جو کچھ بھی دوست یا دشمن سے سنے، اسے عقل کی کسوٹی پر پرکھے اور دل کے فیصلوں سے اس کا موازنہ کرے۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ پاک دامنی کے اعتبار سے محمد بن قاسم ہمارے لیے باپ اور بھائی جیسا تھا اور ہم کنیزوں پر اس نے کوئی دست درازی نہیں کی۔ لیکن چونکہ اُس نے ہند اور سندھ کے بادشاہ کو برباد کیا تھا اس لیے ہم نے انتقاماً خلیفہ کے سامنے جھوٹ بولا تھا۔

اس پر خلیفہ نے غضبناک ہو کر دونوں بہنوں کو دیوار میں چُن دینے کا حکم دیا۔

بنو اُمیہ کے دور میں سندھ فتح کرنے والے نوجوان سالار محمد بن قاسم اور مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے دور کی ’مبینہ‘ کنیز انارکلی کی موت کی کہانیوں میں خواتین کے دیوار میں چُنوائے جانے کی قدر مشترک ہے۔

انارکلی کے بارے میں کہانی یہ منسوب ہے کہ اکبر بادشاہ نے اُنھیں شہزادہ نور الدین محمد سلیم (بعد میں جہانگیر) سے معاشقے کی وجہ سے دیوار میں چُنوا کر ہلاک کروا دیا تھا۔

مگر انارکلی کے وجود کے بارے میں ہی مؤرخین کو شبہ ہے اور اُن کے بارے میں تاریخی ثبوت دستیاب نہیں ہیں۔ چنانچہ اُن کی موت کی کہانی تو دور کی بات ہے۔

اور محمد بن قاسم اور راجہ ڈاہر کی بیٹیوں کی ہلاکت سے متعلق اس پوری کہانی پر بھی مؤرخین کو اعتراضات ہیں۔

سندھ

تو پھر محمد بن قاسم کی موت واقعتاً کیسے ہوئی اور مندرجہ بالا واقعے کی تاریخی حقیقت کیا ہے، اس پر بات کریں گے لیکن اس سے پہلے کچھ محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد اور فتوحات کا تذکرہ کرتے ہیں اور پھر یہ دیکھیں گے کہ محمد بن قاسم سندھ فتح کرنے کے بعد گئے تو گئے کہاں؟

محمد بن قاسم کے سپاہیوں کی ’مبینہ‘ قبریں بلوچستان میں

اگر آپ کراچی سے گوادر جانا چاہتے ہیں تو آپ پہلے تو آر سی ڈی ہائی وے پر کوئی دو گھنٹے کی ڈرائیو کریں گے جس کے بعد بائیں جانب مکران کوسٹل ہائی وے کا آغاز ہوتا ہے جو اپنے آپ میں حیرتوں سے بھرپور سڑک ہے۔

یہیں پر تھوڑا آگے جا کر بائیں جانب ایک پتھر کی تختی پر لکھا ہے کہ یہاں فاتحِ سندھ محمد بن قاسم کے سپاہیوں کی قبریں موجود ہیں۔

نامور مصنف و محقق سلمان رشید کے مطابق یہ قبریں محمد بن قاسم کے ساتھیوں کی نہیں ہیں کیونکہ آٹھویں صدی میں عرب سندھ کے چوکنڈی قبرستان جیسی نقش و نگار سے مزیّن قبریں نہیں بنایا کرتے تھے، اور ویسے بھی قبروں کا یہ طرزِ تعمیر تقریباً سولہویں صدی کا قرار دیا جاتا ہے۔

ایک اور تحقیق کے مطابق یہ قبریں اٹھارہویں صدی کے وسط سے تعلق رکھتی ہیں اور اس کا تذکرہ منان احمد آصف نے اپنی کتاب ’اے بُک آف کونکوئسٹ‘ میں بھی کیا ہے۔

مگر پاکستان میں محمد بن قاسم سے متعلق متنازع باتوں میں سے یہ صرف ایک بات ہے۔

مطالعہ پاکستان کی درسی کتب میں اکثر و بیشتر یہ پڑھایا جاتا ہے کہ پاکستان کی بنیاد اُسی دن پڑ گئی تھی جس دن محمد بن قاسم نے سندھ کی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔

سندھ

محمد بن قاسم اُموی دورِ حکومت کے وہ سالار تھے جنھوں نے 712 سنِ عیسوی میں سندھ پر حملہ کیا اور یہاں کے راجہ ڈاہر کو شکست دی۔

کچھ لوگوں کے نزدیک محمد بن قاسم کے آنے سے جنوبی ایشیا میں اسلامی دور کا آغاز ہوا، سندھ فتح ہوا اور یوں واقعات کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہوا جو بالآخر پاکستان کے قیام پر منتج ہوا۔

مگر مختلف تاریخی حوالوں کے مطابق پیغمبرِ اسلام کی آمد سے قبل بھی عرب تاجر برِصغیر میں رہائش پذیر تھے اور کچھ کے نزدیک یہاں کی مقامی خواتین سے شادیاں تک کر رہے تھے۔

کتاب ’دی گریٹ مغلز اینڈ دیئر انڈیا‘ میں مصنف ڈرک کولیئر اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ انڈیا کے جنوب مغرب میں مالابار کے ساحلی علاقے (موجودہ کرناٹک اور کیرالہ) میں عرب تاجر یہاں پہلے سے مقیم تھے اور جب خطہ عرب میں اسلام آیا تو ممکنہ طور پر ان عربوں نے بھی اسلام قبول کیا ہو گا۔

اپنی کتاب کے ابتدائیے میں اُنھوں نے خطہ برِصغیر میں اسلام کے پھیلنے کے حوالے سے متعدد نظریات کا ذکر کیا ہے جس میں ہجرت، تلوار، خوف، صوفیا کے عمل اور تبلیغ، سماجی رتبے کے حصول اور پرامن روابط مثلاً تجارت اور باہمی شادیاں شامل ہیں۔

وہ لکھتے ہیں کہ جبری طور پر مذہب کی تبدیلی کے (چند) واقعات کا انکار تو نہیں کیا جا سکتا، تاہم کئی دیگر علاقوں مثلاً مالابار کے ساحلوں میں اسلام کی کامیابی کا تعلق جبر یا مسلمانوں کی عسکری اور سیاسی برتری سے نہیں تھا۔

اس کے علاوہ اُن کے نزدیک نئے مذہب کے مضبوط اور مساوات پر مبنی پیغام کا اثر بالخصوص نچلی ذات کے افراد پر ضرور ہوا ہو گا۔

چنانچہ وہ اس علاقے میں پہلے سے عربوں کی موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے 712 عیسوی میں محمد بن قاسم کی آمد سے کہیں قبل برِصغیر میں اسلام کی آمد کا عرصہ متعین کرتے ہیں۔

لہٰذا پاکستان کی درسی کُتب میں عام طور پر پڑھائے جانے والے بیانیے کے برعکس تاریخی بیانیے بھی موجود ہیں۔

سندھ

کتاب فُتوح البلدان نوویں صدی عیسوی میں عباسی دورِ حکومت میں تحریر کی گئی اور اسے اسلامی فتوحات کی تاریخ کی اہم ترین اور مستند کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

اس کتاب میں مصنف احمد بن یحییٰ البلاذری نے محمد بن قاسم کی ہلاکت کے بعد کے واقعات خصوصی تفصیل سے بیان کیے ہیں اور یہ بھی بتایا ہے کہ کیسے بہت سے مفتوحہ علاقے مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلے، واپس فتح ہوئے، کسی نے واپس اپنا پچھلا مذہب اختیار کر لیا تو کسی نے مسلمانوں سے اپنا معاہدہ توڑ لیا۔

پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محمد بن قاسم سے پہلے کوئی مسلمان مہم سندھ میں آئی تھی یا نہیں۔

بلاذری کے مطابق خلیفہ دوم حضرت عمر بن الخطاب کے دور میں 15 ہجری میں اُنھوں نے عثمان بن ابوالعاص الثقفی کو بحرین اور عمان پر گورنر مقرر کیا، تو عثمان نے ایک فوج تھانہ (یا تانہ) کی جانب بھیجی۔ اس کے علاوہ اسی کتاب میں مصنف نے لکھا ہے کہ عثمان کے بھائی الحکم نے اپنے بھائی المغیرہ ابن ابوالعاصی کو خلیجِ دیبل کی جانب بھیجا جہاں اُنھوں نے دشمن پر فتح پائی۔

فتوح البلدان کا اردو ترجمہ سید ابوالخیر مودودی نے کیا ہے جس میں اُنھوں نے دیبل کو تو دریائے سندھ کے قریب واقع ایک بڑا تجارتی شہر قرار دیا ہے مگر تھانہ کا تذکرہ نہیں کیا کہ یہ کون سا شہر ہے۔

اس کا تذکرہ ہمیں ابنِ بطوطہ کے سفرنامے میں ملتا ہے جب اُنھوں نے یمن کی بندرگاہِ عدن کے بارے میں بتایا ہے کہ یہاں انڈیا کے کئی شہروں بشمول ’تھانہ‘ سے بھی جہاز آتے ہیں۔

چنانچہ یہ شہر ’تانہ‘ انڈین ریاست مہاراشٹر کا شہر تھانے یا تھانہ ہے جو ممبئی کا پڑوسی شہر ہے اور یہاں تک وسائی کھاڑی (ندی) کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے جو اس شہر کو ساحل سے کافی دور ہونے کے باوجود بحیرہ عرب سے ملا دیتی ہے۔

راجہ داہر
،راجہ ڈاہر

خطہ سندھ اور بلوچستان میں اوّلین اسلامی مہمات

موجودہ پاکستان کے دیگر خطوں میں محمد بن قاسم سے پہلے مسلمانوں کی آمد کے بارے میں ایک اور روایت فتوح البلدان سے ہی ملتی ہے جس کے مطابق سنہ 38 یا سنہ 39 ہجری میں حضرت علی کے دور میں اور پھر سنہ 44 ہجری میں حضرت امیر معاویہ کے دورِ خلافت میں قیقان (موجودہ قلات) اور بنہ (موجودہ بنوں) پر حملے کیے گئے۔

اگر محمد بن قاسم کی سندھ پر لشکر کشی پہلی فوجی مہم نہیں تھی اور اس سے قبل بھی اس علاقے پر حملے کیے جاتے رہے تھے تو پھر اس واقعے کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے جس کے مطابق عراق کے گورنر حجاج بن یوسف نے ایک مظلوم عورت کی پکار پر محمد بن قاسم کو سندھ کی جانب بھیجا؟

یہ کہانی بھی چچ نامہ میں کافی تفصیل سے موجود ہے۔

چچ نامہ یا فتح نامہ سندھ، خطہ سندھ کی فتح پر لکھی گئی پہلی کتاب تصور کی جاتی ہے کیونکہ اس سے قبل مؤرخین نے سندھ اور ہند کی فتح پر باب تو باندھے ہیں لیکن مکمل کتابی صورت میں صرف چچ نامہ ہی ملتی ہے۔

چچ نامہ تیرہویں صدی میں علی کوفی کی فارسی میں ترجمہ کردہ کتاب ہے جو اُن کے مطابق اُنھوں نے ایک عربی کتاب سے فارسی میں منتقل کی، تاہم وہ عربی کتاب اب تک باقاعدہ دریافت نہیں ہو سکی ہے نہ ہی اس حوالے سے معلومات ہیں کہ وہ کس کی تصنیف تھی۔

تاہم اس کتاب میں موجود روایات اور تاریخی حوالوں کو محققین پرکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔

چچ نامہ میں بیان کیے گئے دیگر واقعات کے برعکس مسلمان قیدیوں کے بارے میں تحریر اس واقعے کی شروعات میں اس کی سند موجود نہیں ہے۔

مایہ ناز مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی اور محقق و مصنف منان احمد آصف کی تحقیق کے مطابق یہ واقعہ درست نہیں ہے۔

اس کے علاوہ تاریخ ابنِ خلدون میں بھی دیبل کی فتح کے باب میں اس واقعے کا تذکرہ نہیں ہے۔

مذکورہ واقعے کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ یہ حجاج کے گورنر محمد بن ہارون بن ذراع النمری کے دور میں پیش آیا تاہم بلاذری اور چچ نامہ، دونوں ہی نے وہ سال نہیں لکھا جب یہ واقعہ پیش آیا۔

محمد بن ہارون النمری کا تقرر چچ نامہ کے مطابق سنہ 86 ہجری میں ہوا اور محمد بن قاسم کا سندھ پر حملہ 93 ہجری یا 712 عیسوی میں ہوا۔ اس حوالے سے تاریخ خاموش ہے کہ اگر یہ واقعہ پیش آیا تو کس سال میں ہوا اور یہ کہ اس واقعے کے کتنے عرصے بعد محمد بن قاسم نے سندھ پر لشکر کشی کی۔

اس کے علاوہ اگر حضرت عمر کے دور سے لے کر ولید بن عبدالملک کے دور تک کا جائزہ لیں تو کہہ سکتے ہیں کہ سندھ پر محمد بن قاسم کی لشکر کشی کئی دہائیوں طویل سلسلے میں تازہ ترین کوشش تھی جس میں اُنھیں کامیابی بھی حاصل ہوئی۔

پھر تاریخ کی کتب میں یہ بھی تذکرہ ہے کہ اس وقت علافی یا علوی گروہ کے کئی لوگ مکران میں آ بسے تھے۔ اُن میں سے ایک کو حجاج کے عملدار سعید بن اسلم کلابی نے قتل کیا تھا، چنانچہ بدلے میں علافیوں نے بھی سعید بن اسلم کو قتل کر دیا، جس پر حجاج بن یوسف نے علافیوں کی سرکوبی کا فیصلہ کیا تھا۔

جب خلافتِ اُموی کی طرف سے مکران میں بسے ان علافیوں کے خلاف بار بار مہمات کی گئیں تو یہ لوگ سندھ میں راجہ ڈاہر کے پاس چلے گئے چنانچہ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ خود حجاج بن یوسف کے دور میں مکران اور سندھ کی طرف بنو اُمیہ کے مخالفین موجود تھے۔

اس کے علاوہ سندھ کی فتح کی اس مہم پر بلاذری کے مطابق چھ کروڑ درہم خرچ ہوئے اور اس کے بدلے میں 12 کروڑ درہم کا مالِ غنیمت حاصل ہوا۔

چنانچہ منان احمد آصف اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:

’جب السند (سندھ) پر حملہ ہوا تو اس کا تعلق بنو امیہ کی شاخِ مروان کے مالیاتی اُمور یا باغیوں کے خلاف سرحدی خطے پر قبضے سے تھا، نہ کہ قزاقوں کی کسی رومانوی داستان سے۔‘

محمد بن قاسم کی ہلاکت کے بارے میں مشہور افسانہ

چچ نامہ میں کہا گیا ہے کہ محمد بن قاسم کی ہلاکت راجہ ڈاہر کی دو بیٹیوں کی سازش کی وجہ سے ہوئی مگر اس حوالے سے ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ کا دعویٰ ہے کہ یہ کہانی من گھڑت اور افسانوی ہے۔

سندھ کے معروف محقق اور دانشور ڈاکٹر نبی بخش خان (این اے) بلوچ نے چچ نامہ کی صحت اور اس میں موجود تاریخی حوالوں کے بارے میں جرح کی ہے۔

ڈاکٹر این اے بلوچ کا چچ نامہ پر تحریر کیا گیا مقدمہ بھی اپنے آپ میں ایک پوری کتاب ہے جس میں اُنھوں نے محمد بن قاسم کی ہلاکت اور پھر راجہ ڈاہر کی بیٹیوں کے بغداد کی کسی دیوار میں چُن دیے جانے کی کہانی کو کہانی ہی قرار دیا ہے، حقیقت نہیں۔

سب سے پہلے تو اس کہانی کے مطابق خلیفہ نے محمد بن قاسم کو دارالخلافہ بغداد بلوایا۔ حالانکہ اُس زمانے میں بغداد کا وجود نہیں تھا، بلکہ دارالخلافہ دمشق تھا۔

اس کے بعد اس میں لکھا گیا ہے کہ محمد بن قاسم کی موت خلیفہ ولید بن عبدالملک کے حکم پر ہوئی تاہم بلاذری اور دیگر مؤرخین کے مطابق یہ واقعہ خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کے دور میں پیش آیا۔

بلاذری کے مطابق ولید بن عبدالملک کی موت کے بعد سلیمان بن عبدالملک حکمران ہوئے تو اُنھوں نے صالح بن عبدالرحمان کو عراق کا والی اور یزید بن ابی کبشہ کو سندھ کا عملدار مقرر کیا۔

یزید نے محمد بن قاسم کو گرفتار کر کے صالح کے پاس عراق بھیج دیا جہاں اُنھیں حجاج بن یوسف کے سابقہ انتظامی ہیڈکوارٹر واسط کے ایک عقوبت خانے میں قید کر کے ایذا رسانیاں کی گئیں اور وہ ہلاک ہو گئے۔

اسی بیان کی تصدیق تاریخ ابنِ خُلدون سے بھی ہوتی ہے۔

فُتوح البلدان میں لکھا ہے کہ جب محمد بن قاسم قید میں تھے تو اُنھوں نے اپنے ساتھ ہونے والے سلوک پر یہ اشعار کہے:

ہر چند کہ میں واسط میں بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہوں

مگر کبھی میں نے ایران کے کتنے ہی شہ سوار زیر کیے

اور اپنے جیسے کتنے ہی پہلوانوں کو پچھاڑا ہے

ایک اور شعر جو محمد بن قاسم سے منسوب کیا گیا ہے وہ کچھ یوں ہے:

اُنھوں نے مجھے ضائع کر دیا، جوان بھی ایسا کہ مردِ نبرد اور سرحد کا محافظ تھا۔

چنانچہ محمد بن قاسم کی معزولی اور ہلاکت سے اُس دور میں ہونے والی سیاسی سازشیں اور آپسی دشمنیاں بھرپور انداز میں عیاں ہو جاتی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں