اسلام آباد (عمر چیمہ) حال ہی میں ایک فیملی بیرون ملک جانے کیلئے ایئرپورٹ پہنچی۔ امیگریشن تو آسانی سے ہوگیا کیونکہ فیملی کا کوئی بھی رکن ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) پر نہیں تھا۔ جیسے ہی یہ لوگ ڈیپارچر لائونج پہنچے تو فیملی کے سربراہ کرنل (ر) لیاقت علی وسیم کے سوا باقی تمام افراد کو بیرون ملک جانے دیا گیا۔
لیاقت آئی ایس آئی اسلام آباد آفس کے سابق سربراہ ہیں اور وہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خاص آدمی تھے۔ معاملات طے کرنے کے حوالے سے ان کے پاس کل اختیار تھا۔ پارلیمنٹ سے لیکر پانامہ پیپرز کی تحقیقات تک اور نون لیگ کی قیادت کیخلاف احتساب کے دیگر کیسز تک، وسیم نے اہم کردار ادا کیا۔
مریم نواز نے ایک مرتبہ اُن کیخلاف ڈھکے چھپے انداز سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام آباد میں سبھی جانتے ہیں کہ ایک ریٹائرڈ کرنل پارلیمنٹ چلاتا ہے۔ آئی ایس آئی میں قیادت تبدیل ہوئی تو وسیم کو مستعفی ہونے کیلئے کہا گیا۔ اب تک یہ واضح نہیں کہ وسیم کو باہر کیوں نہیں جانے دیا گیا لیکن دی نیوز نے اس پوری کہانی کی تصدیق تین مختلف ذرائع سے کی ہے۔ واقعہ 15جنوری کو پیش آیا۔
حالات و واقعات سے آگاہ ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ انٹیلی جنس کا ایک افسر امیگریشن کیلئے اس فیملی کی سہولت کاری کیلئے ان کے ساتھ آیا تھا اور بعد میں یہی افسر لیاقت کو واپس لے آیا۔ وہ لندن جانا چاہتے تھے جہاں وہ ماضی میں پاکستانی ہائی کمیشن میں ’’سفارت کار‘‘ کے فرائض انجام دے چکے تھے۔ فیض حمید سے تعلق رکھنے والے وسیم ہی وہ واحد افسر نہیں جن کی اسکروٹنی ہو رہی ہے۔
کئی ایسے افسران ہیں جن سے کچھ کیسز میں پوچھ گچھ کی گئی ہے اور انہیں مستعفی ہونے کیلئے کہا گیا ہے۔ فیض نے جیسے ہی آئی ایس آئی کا چارج چھوڑا تو ایجنسی کے ایک سویلین افسر رحمت اللہ خان کو سعودی عرب میں تعینات کیا گیا۔ دو ماہ قبل ہی انہیں ریاض سے واپس بلا کر پوچھ گچھ کی گئی اور بعد میں انہیں پاکستان کے دور افتادہ علاقے میں تعینات کر دیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر یہ افواہیں گرم ہیں کہ جس وقت عمران خان وزیراعظم تھے اس وقت رحمت اللہ نے عمران خان کی بیوی بشریٰ بی بی کے روحانی رہنما کا بھیس اختیار کر رکھا تھا۔ تاہم، اس الزام کی جب تحقیقات کی گئی تو یہ بات غلط ثابت ہوئی۔ اس کی بجائے یہ بات سامنے آئی کہ رحمت کو اُن روحانی شخصیات پر نظر رکھنے کیلئے کہا گیا تھا جو بشریٰ سے جڑے تھے۔
لیفٹیننٹ کرنل (ر) آصف محمود ایک اور افسر ہیں جنہیں پاکستان کرکٹ بورڈ میں تعینات کیا گیا تھا۔ وہ بھی احتساب کی کارروائیوں میں شامل رہ چکے ہیں۔ پی سی بی سے قبل، وہ نیب میں انٹیلی جنس اور ویجیلنس افسر تھے۔ پی سی بی میں آصف گزشتہ ماہ تک ڈائریکٹر سیکورٹی اینڈ اینٹی کرپشن تھے۔
23؍ جنوری کو انہیں مستعفی ہونے کیلئے کہا گیا لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ نتیجتاً، انہیں برطرف کر دیا گیا۔ تین دیگر ریٹائرڈ کرنلز ان کے ماتحت کام کر رہے تھے۔ انہیں بھی مستعفی ہونے کی ہدایات ملیں جس پر انہوں نے فوراً استعفیٰ دیدیا۔ پی سی بی کے ایک عہدیدار نے اس بات کی تصدیق کی لیکن انہیں وجوہات کا علم نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ پی سی بی سے کہا گیا کہ ان افراد کو ہٹایا جائے اور ایسا ہی کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کرکٹ لیگ کی رجسٹریشن کے معاملے پر کوئی تنازع تھا جس کی وجہ سے آصف اور ان کی ٹیم کو ہٹایا گیا ہوگا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ایک کرکٹ ٹیم (کشمیر سُپر لیگ) کی رجسٹریشن اُس وقت کی گئی تھی جب فیض حمید عہدے پر تھے۔ اب تجویز ہے کہ نئی ٹیم (کشمیر پریمیئر لیگ) رجسٹر کی جائے جس کی ملکیت دوسرے شخص کے پاس ہے۔
آصف اس پر مزاحمت کر رہے ہیں اور معاملہ کورٹ میں ہے۔ فیض دور کے دو بریگیڈیئرز کو بھی باہر کا راستہ دکھا دیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک ریٹائرڈ اور ایجنسی میں ڈی جی کے عہدے پر تعینات تھے۔ انہیں سینیٹ انتخابات میں ہونے والی ہیرا پھیری کا معمار کہا جاتا ہے۔ ایک اور افسر ایجنسی سے باہر تعینات تھا لیکن وہ سابق آئی ایس آئی چیف کے منظور کردہ دیگر منصوبوں میں ملوث تھا۔
ان کی قسمت کا حال بھی وہی ثابت ہوا۔ یہ تمام تر صورتحال سمجھنے کیلئے ایک دفاعی تجزیہ کار سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ معمول کی بات ہے۔ نئی قیادت آتی ہے، اپنی ٹیم بناتی ہے جن کے ساتھ وہ اطمینان بخش محسوس کرتی ہے، لہٰذا اس پورے میں معاملے میں کچھ بھی غیر معمولی نہیں۔