جب مداری خود تماشہ بن جاتا ہے

الیکشن کے بعد نتائج کی آمد کا معاملہ زلزلے کے بعد اس کے آفٹر شاکس والی صورتحال جیسا ہی ہے۔ تاہم حیران کن بات یہ ہے کہ زلزلے والا دن یعنی الیکشن ڈے تو کسی نقصان کے بغیر گزر گیا‘ لیکن اس زلزلے کے آفٹر شاکس اس سارے انتخابی عمل پر اتنے بھاری پڑ رہے ہیں کہ اس کے سامنے ”ایک زرداری سب پہ بھاری‘‘ والا نعرہ بھی ماند پڑ گیا ہے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت اور اس کے کارکنان کے خلاف گزشتہ کئی ماہ سے جاری کریک ڈاؤن‘ گرفتاریوں اور مقدمات سے جو فضا قائم ہوئی تھی‘ـ وہ الیکشن سے پہلے والی رات تک صاف دکھائی دے رہی تھی‘تاہم دیگر بہت سے لوگوں کے برعکس مجھے یقین تھا کہ الیکشن والا دن بہرحال اس سارے ماحول سے مختلف ہوگا کیونکہ روشن دن میں ساری دنیا کے سامنے ہونے والے اس عمل کے دوران کسی قسم کی دکھائی دی جانے والی مداخلت سے بدنامی‘ رسوائی اور جگ ہنسائی کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہ ہو گا۔ دل میں گزشتہ کئی ماہ سے چھپے ہوئے غصے اور بے بسی کے اظہار کو ووٹ کے ذریعے ڈبے میں ڈالنے کے منتظر لوگوں کو اس روز اس عمل سے روکنے کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہوگا کہ اس سارے انتخابی عمل کو سرے سے ہی لپیٹ دیا جائے‘ لیکن یہ کسی طور ممکن نہ تھا۔ میں اپنے دوستوں کو بڑے یقین سے کہتا تھا کہ یہ تو ممکن ہے کہ تحریک انصاف کو پولنگ کیمپ نہ لگانے دیں، انہیں اپنے ووٹروں کو گھر سے پولنگ سٹیشن تک لانے کے لیے ٹرانسپورٹ کا بندوبست نہ کرنے دیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے ووٹرز کو اپنے ووٹ کی پرچی کے حصول میں دقت ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ الیکشن کے عمل کو مختلف حربوں سے سست اور آہستہ کرنے کی کوشش کی جائے‘ لیکن یہ ممکن نہیں ہو گا کہ کسی کو پولنگ سٹیشن پر روکا جائے اور اسے ووٹ نہ ڈالنے دیا جائے۔ اس حد تک میرا اندازہ 100فیصد درست ثابت ہوا۔
تاہم مجھے یہ شک ضرور تھا کہ اگر بارہ بجے دن تک پولنگ سٹیشنوں پر پی ٹی آئی کے نوجوان ووٹرز کا بہت زیادہ رَش دیکھنے میں آیا تو پھر ہنگامہ آرائی وغیرہ کے ذریعے خوف و ہراس کی فضا قائم کرکے لوگوں کو گھروں تک محدود رکھنے کی کوشش کی جائے گی‘ مگر میرا یہ شک بے جا ثابت ہوا اور اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ووٹ ڈالنے کے اوقات کے سلسلے میں ملا جلا رجحان دیکھنے میں آیا اور بہت سی جگہوں پر ووٹ ڈالنے کے عمل میں تیزی ہی بارہ بجے کے بعد دکھائی دی۔ تاہم یہ بات قابلِ ستائش ہے کہ بہت سے لوگوں کی توقع کے برعکس الیکشن والا دن نہ صرف عمومی طور پر پُرامن اور پُرسکون تھا بلکہ کہیں بھی اس عمل میں ریاست کی جانب سے رکاوٹ یا مداخلت دکھائی نہ دی‘ مگر یہ سب کچھ صرف اور صرف صبح الیکشن کے عمل کے آغاز سے لے کر شام پانچ بجے تک الیکشن کے اختتام کے دوران تک تھا۔ جونہی ووٹ ڈالنے کا عمل یعنی زلزلے کا روز ختم ہوا تو آفٹر شاکس کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اور یہ آفٹر شاکس ایسے حیران کن تھے کہ انہوں نے سارے دن میں قائم ہونے والے ایک اچھے تاثر کو اس طرح تہس نہس کیا کہ سب کچھ ”کھوہ کھاتے‘‘ چلا گیا۔
ویسے تو بقول شاہ جی جس طرح الیکشن والے دن پانچ بجے سے اگلے روز صبح چار بجے تک موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بند کی گئی تو شکوک و شبہات کے سائے اسی وقت منڈلانا شروع ہو گئے تھے‘ تاہم جب رات نو بجے کے لگ بھگ موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس ایک بار جزوی طور پر کھلنے کے بعد دوبارہ بند ہوئی تو یہ شکوک و شبہات یقین میں بدلنے لگ گئے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ امن و امان اور حفاظتی نقطۂ نظر کے حکومتی بیان پر یقین کر بھی لیں تو انتخابی عمل کے بند ہو جانے اور پولنگ سٹیشنز پر لوگوں کا ہجوم ختم ہو جانے کے گیارہ گھنٹے بعد تک موبائل اور انٹرنیٹ سروس کی بندش کا کوئی بھی منطقی جواز اور جواب سمجھ میں نہیں آیا۔ سوائے اس کے کہ اس کے ذریعے ممکنہ طور پر ہونے والی کسی بھی قسم کی ہینکی پینکی کی بروقت اطلاع کے امکانات اور ذرائع کو ختم کیا جا سکے۔ اگر یہ وجہ بھی نہیں تھی تو پھر اس گناہِ بے لذت کا اس سے علاوہ اور کیا مقصد تھا کہ اس سارے دن کے صاف شفاف عمل کو بلا وجہ داغدار کیا جائے اور اچھی بھلی مزیدار کھیر پر ”سواہ‘‘ ڈال دی جائے۔
میں دوستوں کو کہتا تھا کہ امکانی انتخابی دھاندلی کو مکمل طور پر روکنا تو شاید ہمارے بس کی بات نہیں‘ تاہم ووٹر اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے اگر بیلٹ باکس کو ممکنہ حد تک بھر دے تو اس کی گنتی میں ہیر پھیر کرنا اگر ناممکن نہیں تو بھی بہت مشکل ضرور ہو جاتا ہے‘ لیکن اس بار ایک دو جگہیں تو ایسی تھیں جہاں اس عاجز کا یہ یقین بھی ریت کی دیوار ثابت ہوا اور بھرے ہوئے بکسوں کو ایک طرف رکھ کرفارم 47 کی توپ سے سب کچھ اُڑا کر رکھ دیا۔خبروں کے مطابق ایسا ہی ایک فارم47 لاہور کے حلقہ این اے 130کا ہے جو اس ملک کے سارے انتخابی عمل کی شفافیت پر سوال اٹھاتا پھر رہا ہے۔ یہ میاں نواز شریف بمقابلہ ڈاکٹر یاسمین راشد والا حلقہ ہے جس کے فارم47 کے مطابق اس حلقے میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی تعداد دا لاکھ 93ہزار 693 ہے۔ ان ڈالے گئے ووٹوں میں سے 650ووٹ کسی وجہ سے مسترد ہونے کے باعث اس گنتی سے نکل گئے۔ یعنی کل ڈالے گئے درست ووٹوں کی تعداد دو لاکھ 93ہزار 43رہ جاتی ہے جبکہ اس فارم47 پر درست ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد دو لاکھ 94ہزار 43ہے‘ یعنی ڈالے گئے ووٹوں سے ایک ہزار زیادہ۔ دوسری حیران کن بات یہ ہے کہ اس حلقے سے جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار سلیم اللہ اور جماعت اسلامی کے امیدوار صوفی خلیق احمد بٹ کے علاوہ دیگر جماعتوں اور آزاد امیدواروں‘ جن کی کل تعداد چودہ ہے‘ نے ایک بھی ووٹ حاصل نہیں کیا۔ کسی امیدوار نے خود‘ اس کے گھر والوں نے‘ اس کے تائید اور تصدیق کنندہ کے علاوہ اس کی پارٹی کے کسی شخص نے بھی اسے ووٹ نہیں ڈالا۔ اس حلقے کے انتخابی عملے کی پھرتی‘ نالائقی اور حساب کے مضمون میں دسترس پر دل کھول کر داد دینے کو دل کرتا ہے کہ اس ملک میں کیسے کیسے نابغے موجود ہیں۔
ملتان کے حلقہ این اے 151میں جہاں سے شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی مہر بانو امیدوار تھیں۔ اس حلقے کے ووٹرز جو نہ صرف گزشتہ پانچ سال میں تیسری دفعہ انتخابی عمل سے گزرے ہیں، بلکہ ووٹ ڈالنے کے طریقہ کار سے بخوبی آگاہ بھی ہیں۔ 2018ء میں جنرل الیکشن اور 2022ء میں ضمنی الیکشن کے عمل میں تجربہ کار اس حلقے کے ووٹرز نے اس بار ساڑھے سولہ ہزار ووٹ ضائع کیے ہیں اور اس طرح آزاد (پی ٹی آئی کی) امیدوار 7431 ووٹ سے ہار گئی ہے۔ سیالکوٹ سے خواجہ آصف کی کامیابی اور ریحانہ ڈار کی جیتتے جیتتے اچانک ہار کے بارے میں تو سارا ملک ہی ششدر ہے تاہم وہاڑی کے طاہر اقبال چوہدری کی ہزاروں ووٹوں کی برتری کا اچانک خاتمہ‘ ملتان کے حلقہ این اے 148سے سید یوسف رضا گیلانی کی 293ووٹوں سے جادوئی جیت‘ اویس لغاری کی یقینی ہار کا فتح میں تبدیل ہونا اور مظفر گڑھ و رحیم یار خان کے بعض حلقوں میں اسی قسم کی رات گئے ڈالی جانے والی وارداتوں نے سارے انتخابی عمل کی شفافیت پر صرف سوالات ہی نہیں اٹھائے بلکہ اسے مکمل طور پر گہنا کر رکھ دیا ہے۔ ایک یونانی کہاوت ہے کہ جب مداری کے ہاتھ کی صفائی تماشائیوں پر کھل جائے تو پھر اس کا کرتب‘ کرتب نہیں رہتا بلکہ مداری خود تماشا بن جاتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں