آپریشن پرائس کنٹرول
ملک میں ضروری اشیاء کی قیمتیں، ذیابیطس اور بلڈپریشر کی طرح خاموشی سےبڑھ رہی ہیں۔ کاروباری طبقہ اپنا ایک روپے کا بھی نقصان نہیں ہونے دیتا اور سارے کا سارا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر گرا دیتاہے۔ اکثر دکانداروں کو یہ کہتے بھی سنا ہے کہ جو چیز جتنی مہنگی ہوتی ہے لوگ اسے اتنا ہی زیادہ خریدتے ہیں۔کون جانے کہ ایسے خریداروں کا ذریعہ آمدن کیا ہے ؟ بڑھتی قیمتوں کو دیکھ کر تو ایسے لگتا ہے جیسے ملک میں کوئی حکومت ہی نہیں اگر ہے تو صرف بڑھتی مہنگائی کا راج ہے ۔ جب حکومت کی جانب سے ایک ریٹ لسٹ جاری کر دی جاتی ہے اور اس میں ہر گریڈ کی چیز پر ایک مناسب منافع رکھ دیا جاتا ہے تو پھر قیمتیں کنٹرول کیوں نہیں ہوتیں؟حکومت کو چاہئے کہ وہ اس معاملے کا فوری نوٹس لے، بجلی چوروں کے خلاف جس طرح فوج کے ساتھ ملکر ایکشن لیاتھا ایسے ہی اس معاملے میںبھی پیش رفت کرے ۔ایک طاقتور چیمبر بنائے اور اس کے ماتحت ٹاسک فورسز تشکیل دے ،ان فورسز کو براہ راست فوج کی مدد حاصل ہو بلکہ ہو سکے تو ہر ٹاسک فورس کے ساتھ فوج ہو ۔ ناپ تول کو بھی دیکھا جائے کہ صحیح ہے یا نہیں ۔ چیزوں کی کوالٹی پر بھی نظر رکھی جائے سسٹم ایسا ہو کہ عوام کو کسی کے خلاف شکایت درج کروانے کا موقع ہی نہ ملے اور ادارہ از خود ہی اپنا کام کرتا چلا جائے۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
قومی ایوارڈ شو
دنیا میں مختلف قسم کے ایوارڈ شو منعقد ہوتے رہتے ہیں ایک اندازے کے مطابق ان میں سب سے زیادہ توجہ کا مرکز شوبز سے منسلک ایوارڈ شوز ہوتے ہیں ،ان کا سیٹ بھی کافی پرکشش ہوتا ہے ہمارے ہاں جہاں شوبز کے ستاروں کو ایوارڈز سے نوازا جاتا ہے وہاں زندگی کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی اعزازات دیئے جاتے ہیں لیکن شوبز کے علاوہ دوسرے ایوارڈز کی تقاریب اتنی خاص نہیں ہوتیں ۔ یہ ہما ری قوم اور ملک کا المیہ ہے ،ہونا تو یہ چاہئے کہ معاشرے کےہیرے موتی اور جواہرات کے لئے بھی اعلیٰ طرز کے ایوارڈ شوز منعقد ہوں یہ ایوارڈ شوز چھوٹی عید کی مانند ہوں ان میں مذہب، تعلیم، صحت،ادب ،صحافت ،تجارت، زراعت، صنعت، عدلیہ، سیاست ، فوج، این جی اوز، یا فلاحی ادارے، کنسٹرکشن انڈسٹری، سرکاری و نجی ادارے نیز ملک کے ایسے تمام شعبے شامل ہوں جن سے معاشرے کا پہیہ چلتا ہے، ملک کے ایک مزدور سے لیکر سفری طیارے کے پائلٹ تک میںانعامات تقسیم ہوں ۔ فخر کائناتؐ نےفرمایا کہ مزدور اللہ تعالیٰ کا دوست ہے ۔
چونکہ شعبے کافی زیادہ ہیں اس لئے ان کو مختلف تقریبات میں تقسیم کر دینا ہی مناسب ہو گا یہ تقریبات مناسب وقت اور مہینے کو دیکھ کر منعقد کی جائیں ،تقاریب کے لئے مناسب وقت اور جگہ کا بندوبست کیا جائے ۔ تقریب کی انتظامیہ پہلےہی مہمانوں کی تقاریر اور چند بولے جانے والے الفاظ کی جانچ پڑتال کرے تاکہ تقریب کے معیار کو بہتر بنایا جا سکے۔تقریب معیاری اور تہذیب و تمدن کے دائرے میں ہو ۔ایوارڈ صرف ایک میڈل یا ٹرافی نہ ہو بلکہ اس کے ساتھ ایک مناسب رقم ، اچھی گاڑی یا اچھی جگہ پر گھر بھی شامل ہو۔ قدآور شخصیت کو ایسا گھر دیا جائے کہ پتہ چلے کہ کسی بڑی شخصیت کا گھر ہے۔جب بڑے بڑے علمائے دین، شاعر اور ادیب تقریب کو باوقار بنائیں گے توپھر تسبیح ہی تسبیح ہو گی شکر ہی شکر ہو گا ۔بڑے بڑے دانشوروں اور مقررین کی گفتار ہو گی اور فن کے شاہکاروں کا ساتھ ہو گا کہیں تعلیم و صحت کی بات ہو گی کہیں صحافت کا راج ہوگا کہیں فوج، عدلیہ و سیاست، کہیں زراعت، صنعت و تجارت۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
واٹر کلچ
جس طرح سے دنیا میں پانی کا بے دریغ زیاں ہو رہا ہے،خدا نخواستہ ایک دن ہر ملک کو پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا ،جب ہم اپنے استعمال کیلئے پانی کا نلکا کھول لیتے ہیں تو اس سے ضرورت کے علاوہ بہت سا را پانی ضائع ہو جاتا ہے ۔حدیث مبارکہ ہے کہ’’ اگر تم دریا کے کنارے پر بھی بیٹھے ہو تو پانی مت ضائع کرو‘‘۔ اگر ایک ایسا ہائیڈرلاک کلچ بنا لیا جائے جس کو پیر سے دبانے پر پانی نکلے اور چھوڑنے پر بند ہو جائے تو بہت سا پانی ضائع ہونے سے بچایا جاسکتا ہے یہ کلچ ہر اس جگہ پر نصب کیا جائے جہاں پانی عموماً زیادہ استعمال ہوتا ہے جیسے چہرہ اور ہاتھ دھونے والا سنک اور کچن کا سنک ایسے ہی گیراج اور لان کے پائپوں پر ایسی گن لگائی جائے جس کے ٹریگر دبائےجانے پر پانی آئے اور چھوڑنے پر آنا بند ہو جائے نیز ایسی گن کا استعمال گاڑیوں کے سروس سٹیشنوں پر بھی کیا جائے اور یہاں ٹریگر دبانے پر یا اس کے ساتھ ساتھ اس کا پریشر پمپ بھی ساتھ چلے گا جبکہ چھوڑنے پر بند ہو جائے گا ایسا کرنے سے دنیا کا بہت فائدہ ہو گا