اب اسلام آباد کہاں اٹھا کے لے جانا ہے؟

یہ تو سب جانتے ہیں کہ انڈیا کا دارالحکومت تاریخی دلی سے جڑا ایک سو گیارہ برس پرانا نئی دلی ہے، افغانستان کا دارالحکومت صدیوں سے آباد کابل ہے، تہران کی اپنی ایک طویل تاریخ ہے اور پاکستان کا چوتھا ہمسایہ چین جب کمیونسٹ نہیں تھا تب بھی بیجنگ مرکز تھا، آج بھی وہی دارلخلافہ ہے۔

مگر پاکستان کو آخر اپنی پیدائش کے گیارہویں برس میں ہی ایک نئے دارالحکومت کی کیوں ضرورت پڑ گئی جبکہ اس کے پاس پہلے سے بنا بنایا کراچی موجود تھا اور نئے دارالحکومت کے مستقبل کی ضروریات پوری کرنے کے لیے نارتھ ناظم آباد اور گڈاپ کی ٹاؤن پلاننگ بھی ہو چکی تھی۔

تب پاکستان کی معیشت بھی اس قابل نہیں تھی کہ ایک پورے نئے شہر کی دور دراز مع لاؤ لشکر منتقلی کی عیاشی مول لی جا سکے۔ شاید اسی لیے جناح صاحب سے اسکندر مرزا تک کسی گورنر جنرل اور لیاقت علی خان سے آئی آئی چندریگر تک کسی وزیرِ اعظم کو نئے دارلحکومت کی ہنگامی تعمیر کا خیال تک نہ سوجھا۔

یہ اچھوتا خیال آخر ہمارے پہلے طاقتور ایوب خان کو ہی کیوں آیا اور انھوں نے خود کو ہی یہ کمزور دلیل دے کر اپنے تئیں کیسے فیصلہ کر لیا کہ انتہائی جنوب میں واقع دارلحکومت (کراچی) چونکہ باقی صوبوں سے دور ہے چنانچہ علاج یہ ہے کہ اسے انتہائی شمال میں منتقل کر دیا جائے۔

فیلڈ مارشل نے کیوں نہ سوچا کہ اس فیصلے سے ان کے آبائی صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) اور شمالی و وسطی پنجاب کی رسائی تو بڑھ جائے گی مگر سندھ، بلوچستان اور مشرقی پاکستان کے لوگوں کا کیا ہو گا۔ بلکہ ڈھاکہ سے کراچی کا دو ہزار ستر کلومیٹر کا فاصلہ شمال میں دارالحکومت منتقل ہونے کے بعد بڑھ کے تین ہزار سات سو کلومیٹر ہو جائے گا اور بنگالیوں کی نفسیاتی اجنبیت بھی سہہ چند ہو جائے گی۔

نئے دارالحکومت کی نصف پنجاب اور پورے صوبہ سرحد سے قربت کے باوجود بھی تلاشِ روزگار کے لیے عام آدمی کا انتخاب کراچی ہی رہا کیونکہ اسلام آباد اس کے لیے بنایا ہی نہیں گیا تھا اور راولپنڈی یا پوٹھوہاری و ہزاری گرد و نواح میں اتنی گنجائش ہی نہیں تھی کہ کراچی کے برابر روزگار پیدا ہو سکتا۔

راولپنڈی کی شناخت بس یہ تھی کہ پہلے یہ برٹش انڈین آرمی کی شمالی کمان کا ہیڈ کوارٹر تھا اور پاکستان بننے کے بعد یہ بری فوج کا ہیڈ کوارٹر بن گیا۔

ایوب خان کو سیاست سے نہیں سیاستدانوں سے نفرت تھی۔ عوام ان کے نزدیک محض ایک ہجوم کا نام تھا لہٰذا ایک آدمی ایک ووٹ کی جمہوری عیاشی سے پہلے انھیں کنٹرولڈ جمہوریت کا جلاب دینا ضروری ہے۔

اور کوئی بھی عقلِ کُل حکمران بھلا کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ بدتمیز طلبا، بدحال مزدور، منھ پھٹ صحافی، دکاندار اور ملازم آئے دن گنجان کراچی کے ایوانِ صدر (موجودہ گورنر ہاؤس) کے سامنے سینہ کوبی کرتے ہوئے فلانا فلانا ہائے ہائے کے نعرے لگانے کے لیے منھ اٹھائے جمع ہوتے رہیں اور پولیس کی لاٹھیاں اور گیس کھاتے رہیں۔

چنانچہ اس آدم بیزاری کا حل یہ نکالا گیا کہ دارالحکومت ہی اٹھا لو تاکہ عام آدمی وہاں تک رسائی سے پہلے اپنی جیب اور ارادہ دس بار ٹٹولے اور اگر پھٹے جوتوں سمیت گھس بھی آئے تو اس کی آواز شکر پڑیاں اور مارگلہ کے درمیان گونجتی رہ جائے اور اگر کوئی بددماغ سویلین کبھی پاور میں آ جائے تو اس کی سرکوبی کا مسلح تسلی بخش انتظام بھی شہرِ نو کے نکڑ پر ہی موجود ہو۔

نئے دارالحکومت کو جنم دینے کا فیصلہ جس کچن کیبینٹ نے کیا اس نے گویا واضح کر دیا کہ آخری فیصلہ کس کا چلے گا۔

اسلام آباد کی موزوں جگہ بھی ایوب خان کے دستِ راست جنرل یحییٰ خان نے تلاش کی اور اس کا نقشہ ایتھنز کے ایک ماہرِ تعمیرات کانسٹنٹینو ڈوکسیاڈس سے بنوایا۔

ڈوکسیاڈس نے شہر کا نقشہ قدیم ایتھنز سٹی اسٹیٹ کی طرز پر بنایا۔ اونچی جگہ پر قصرِ حکمرانی و قصرِ انصاف، آس پاس حکمران طبقے کے محلے، ان کے بعد متوسط طبقہ اور خوشحال کارندے، جی حضوری طبقات اور پھر عوامی سیکٹرز اور اردگرد نیم غلاموں کی بے قاعدہ بستیاں۔

سکون ہی سکون، ہریالی ہی ہریالی، سانس لینے کے لیے کارخانوں کی چمنیوں سے پرے صاف ستھری فضا اور امن و امان بھی قابو میں۔ ایک ایسی آئیڈیل جگہ جہاں وفاقی یونٹوں پر ہر طرح کے فیصلے نافذ ہو سکیں اور ان یونٹوں کے نمائندے اس راجدھانی میں اجنبیوں کی نفسیات کے ساتھ آئیں اور جائیں۔

سنہ 1980 تک یہ شہر اسی طرح چلتا رہا۔ پہلا پتھر جنرل ضیا کے نافذ کردہ زکاتی نظام کے خلاف ریڈ زون میں اہلِ تشیع کے دھرنے کی شکل میں گرا۔ اس کے بعد تو نظام کے ستائے ہوؤوں اور مطالباتی جتھوں نے گویا راستہ ڈھونڈھ لیا۔

جس کے پاس بھی پانچ سو بندے ہوتے اسلام آباد کا رخ کرتا۔ جو زیادہ دھمکاتا یا تشدد پر اتر آتا اس کی سن لی جاتی۔ جو شرافت سے پیش آتا اس کی سنی ان سنی ہو جاتی۔ جو نواح سے آن دھمکتا اس سے آدمیوں کی طرح بات چیت ہوتی۔ جو دور سے پاپیادہ آتا اس کو دھمکا کے یا قانون کے شکنجے میں کس کے طبیعت صاف کر دی جاتی۔

مگر وقت کے ساتھ ساتھ دباؤ بڑھتا چلا گیا۔ باقی پاکستان کی آبادی بھی جب اسلام آباد بنا تھا تو لگ بھگ پانچ کروڑ تھی، آج پچیس کروڑ ہے۔ چنانچہ اسلام آباد دی بیوٹی فل اب اسلام آباد دھرنا فل بن چکا ہے۔ اوپر سے شرپسند سوشل میڈیا بھی ہاتھ سے نکل چکا ہے۔

تریسٹھ برس پہلے اگر سب کو برابری سے حصہ مل جاتا تو شاید دارالحکومت جنوب سے اٹھا کے شمال میں لے جانے کی ضرورت بھی نہ ہوتی۔ آج زیادہ گھمبیر حالات ہیں۔ چہار جانب رعایا ہاتھ پھیلائے کھڑی ہے۔ آپ کے پاس گھڑی ہے مگر وقت رعیت کے پاس ہے۔

تو پھر کیا سوچا؟ رویہ بدلیے گا یا دارالحکومت دوبارہ بدلیے گا؟

ہر موڑ پے وا ہیں مری آنکھوں کے دریچے

اب دیکھنا یہ ہے کہ تو جاتا ہے کہاں سے

(جاوید صبا)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں