اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے

کیا کسی کی بھی سمجھ میں آ رہا ہے کہ ہونا کیا چاہیے ، ہو کیا رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ ہونی کو انہونی اور انہونی کو ہونی بنانے کے مشاقینِ کرام کے سوا سب کی سمجھ میں آ رہا ہے ۔میرے دوست عبداللہ پنواڑی اور خواجہ فرید فروٹ چاٹ والے سمیت ہر ماجھا ساجھا تک جانتا ہے۔ مگر جن افلاطونوں کو دیوار پر لکھا موٹا موٹا چھوڑ ، دیوار ہی نظر نہیں آ رہی ان کے ساتھ کوئی بھی سرکھپانا نہیں چاہتا۔

ضروری تو نہیں کہ دائیں بائیں اور نیچے ہر طرح کی زیادتیوں کے جواب میں خاموشی کا مطلب صرف بے حسّی بزدلی، مصلحت کوشی اور منافقت ہی ہو۔ خاموشی لاتعلقی و اکتاہٹ کا استعارہ بھی تو ہے، مزاحمت کی کم ازکم شکل بھی تو ہے، خاموشی معنی خیز بھی تو ہو سکتی ہے، دل و دماغ کے درمیان جاری کش مکش کو پوشیدہ رکھنے کا بھیس بھی تو ہو سکتی ہے۔ خاموشی سوچ بچار کی مہلت بھی تو ہو سکتی ہے اور خاموشی کسی طوفان یا جھکڑ سے پہلے کا سناٹا بھی تو ہو سکتی ہے۔

کوئی حالت نہیں یہ حالت ہے

یہ تو آشوب ناک صورت ہے

انجمن میں یہ میری خاموشی

بردباری نہیں ہے وحشت ہے

آج کا دن بھی عیش سے گذرا

سر سے پا تک بدن سلامت ہے

( جون ایلیا )

آئیڈئیل حالت تو یہی کہی جاتی ہے کہ کسی ایک ریاست میں بیک وقت ایک ہی حکومت ہو۔ جس کے حواسِ خمسہ سلامت ہوں۔ جو رعایا کو سن سکتی ہو دیکھ سکتی ہو اور محسوس کر سکتی ہو اور کسی بھی چیخ یا خامشی یا مطالبے پر فوری توجہ دے کہ اس کی تشخیص اور عقلی علاج سوچ سکتی ہو۔ مگر ایسا کہاں ہوتا ہے؟ ہوتا ہوگا کہیں۔۔۔ پر ہمارے ہاں کب ہوتا ہے؟

ہر ریاست کا بیانیہ جھوٹ اور سچ کے آمیزے سے تیار ہوتا ہے۔ کھوٹ ملائے بغیر نہ زیور بن سکتا ہے نہ ہی بیانیہ۔ یونیورسل سچائیاں اگرچہ ابدی ہیں انھیں کسی تعارف یا تفسیر کی ضرورت نہیں۔ مگر بیانیہ گھڑا جاتا ہے۔ قبولِ عام بنانے کے لیے اپنی مرضی اور پسند کے پتھر ، ہیرے موتی جڑے جاتے ہیں۔ اس میں ایسے باریک باریک منطقی سوراخوں سے گذارا جاتا ہے کہ اس عمل کے ذریعے بیانیہ لچکدار رہے اور حسبِ ضرورت موقع محل اور مفاد کے اعتبار سے اسے بدلنے میں آسانی رہے۔

سچ، جھوٹ، ڈھٹائی، غیرت، اصول پسندی، بے اصولا پن، چکنا گھڑا، دورخا پن، ایثار، قربانی، بے حسّی، تعصّب، دنیا دکھاوا، قول و فعل میں تضاد وغیرہ وغیرہ یہ سب انسانی خوبیاں اور خامیاں ہیں۔ ریاست بھی انسان ہی چلاتے ہیں۔ جیسی اقدار ورثے میں ملیں گی وہی تو نافذ ہوں گی وہی تو آگے بڑھیں گی۔

بس ایک عام آدمی اور کرسی نشین میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ عام آدمی کو نشہ کرنا پڑتا ہے۔ کرسی کا نشہ خود بخود ہوتا ہے۔ اس نشے پر قابو پا لیا جائے تو رعایا کے لیے رحمت، چڑھ جائے تو تہہ در تہہ عذاب ہے۔ مگر جیسے جیسے نام نہاد تہذیبی بیانیہ آگے بڑھ رہا ہے تُوں تُوں ریاستی سفاکی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ جب بڑی بڑی ذمہ دار ریاستیں سفاکی پر اترتی ہیں تو ان کی طفیلی ریاستیں اسے لائسنس سمجھ کے دس ہاتھ آگے بڑھ جاتی ہیں۔

ہمیں پسند آئے نہ آئے مگر انسانی جبلت ہے کہ جب وہ بے دست و پا ہوتا ہے تو اس سے زیادہ مظلوم کوئی نہیں ہوتا اور اسی کے ہاتھ میں طاقت آ جاتی ہے تو بتدریج ویسا ہی ظالم بنتا چلا جاتا ہے کہ جس سے وہ دورِ مظلومیت میں نفرت کرتا رہا ہے۔ روزِ گذشتہ کا یہ مظلوم اپنے ہر جائز ناجائز قدم کے لیے وہی منطق اور تاویل اپنا لیتا ہے کہ جس سے اسے دورِ مظلومیت میں انتہائی چِڑ ہوتی ہے۔ اور جب یہ فرد ایک گروہ اور پھر گروہ سے ریاست بنتا ہے تو غیر محسوس انداز میں کلر بلائنڈ ہوتا چلا جاتا ہے۔

سب کا حق لے کے بھی محروم نظر آتا ہے

اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے

( احمد نوید )

بلوچ

ایران شاہ کی استبدادئیت کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ آج کے ایران کو دیکھ لیں۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے تک یہودیوں سے زیادہ مظلوم کوئی نہیں تھا۔ آج کے اسرائیل کو دیکھ لیں۔

خود اپنے آپ کو دیکھ لیں۔ یہ کہہ کے آزادی لی تھی نا کہ ہندو اکثریت ہمارا تشخص، تاریخ، معیشت، سماجی شناخت، امنگیں ایسے نہ کچل سکے جیسے اکثریتی گروہ پوری انسانی تاریخ میں اقلیتی گروہ کو کچلتا آیا ہے؟

مگر ہوا کیا؟ ایک مظلوم اقلیت کو جب ملک مل گیا تو اس نے اپنے سے بھی زیادہ محکوم مذہبی، نسلی و علاقائی اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ اقلیتوں کو تو جانے دیں خود چھپّن فیصد بنگالیوں کے ساتھ کیا ہوا جو کسی بھی پنجابی، سندھی، بلوچ، پشتون سے زیادہ پاکستان سازی کے لیے پرجوش تھے۔

پوری انسانی تاریخ میں آپ کو ایسی کتنی ریاستوں کی مثال ملے گی جہاں چھپّن فیصد اکثریت اس قدر تنگ آ گئی کہ وہ چوبیس برس میں ہی چوالیس فیصد کے رویّے اور لاتعلقی کی رسّی تُڑا کے بھاگ گئی اور پھر پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔

مگر پھر کیا ہوا؟ آج بھی ہم خود کو ٹھیک کرنے کے بجائے تاویلیں اور دلائل کی اسی پناہ گاہ میں ہیں جہاں پندرہ دسمبر 1971 تک تھے۔اس واردات نے حکمران اشرافیہ کو کوئی جھٹکا نہیں دیا بلکہ مظلوموں کا مسلسل جھٹکا ہو رہا ہے۔ دیکھتے ہیں آخر میں کس کا جھٹکا ہوتا ہے۔

میں نے نواب خیر بخش مری سے پوچھا لوگ کہتے ہیں کہ آپ کو اس ریاست سے نفرت ہے ؟ فرمایا: ’نفرت چھوٹا لفظ ہے۔ ہم بیزار ہیں۔۔۔ مکمل بیزار !

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں