شہیدوں بھری اسلام آباد پولیس

ان دنوں اسلام آباد پولیس نشانے پر ہے۔ ہر طرف سے سنگ باری جاری ہے۔ بیچار ی کیا کرے۔ اسلام آباد شہر ہی ایسا ہے کہ پورے ملک میں کسی کو احتجاج کرنا ہو وہ اسلام آباد پہنچتا ہے۔ کیوں نہ پہنچے آخر یہ شہر دارالحکومت ہے۔ یہاں صدر ہائوس، وزیر اعظم سیکریٹریٹ ہے۔ سپریم کورٹ ہے ۔طاقتورترین بھی یہیں ہیں۔ آئی جی اسلام آباداکبر ناصر کافی عرصہ سےاس شہر میں امن برقرار رکھنے کے معاملات کامیابی سے چلاتے آرہے ہیں مگر بلوچستان کے احتجاجیوں کو سنبھالنے کے معاملہ میں ان پرتھوڑا سا دبائو بڑھ گیا ہے ۔ دراصل چیف جسٹس آف پاکستان بھی بلوچستان سے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان بھی بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں۔

چیئرمین سینٹ بھی اسی صوبے کے ہیں۔ جہاں تک میرا ذاتی خیال میں اس سے بہتر انداز میں اس مسئلہ کو حل نہیں کیا جاسکتا تھا جیسا آئی جی پولیس نے کیا۔ جہاں تک گمشدہ لوگوں کا معاملہ ہے تو وہ لوگ پہلے صرف بلوچستان کے ہوا کرتے تھے اب پورے پاکستان کے ہوتے ہیں۔ پولیس اس معاملہ میں کچھ نہیں کر سکتی۔ عدالتیں بھی ایک عرصہ سے کچھ نہیں کر سکیں۔ بلوچستان بھر میں اس واقعہ پر احتجاج کیا گیا ہے۔ بے شک پشاور سے لیکر کوئٹہ اور کراچی تک احتجاج جاری رہے مگر اسلام آباد کا معاملہ اور ہے۔ پی ٹی آئی کے بانی کے دھرنوں کےوقت سے اسلام آباد پولیس خاصی خائف ہے اور اب ہر لمحہ اسے خدشہ رہتا ہے کہ دفعتاً کوئی آتش فشاں نہ پھٹ پڑے۔

اسلام آباد پولیس پاکستان کی سب سے تہذیب یافتہ پولیس ہے۔ لوگوں سے اس کا حسن ِسلوک ملک کے دوسرے صوبوں کی پولیس سے بالکل مختلف ہے، اس کے باوجود انیس سو پچانوے سے لے کر اب تک اس کے اکسٹھ نوجوان شہید ہو چکے ہیں ۔یہ کوئی چھوٹی تعداد نہیں۔ اسلام آباد کا امن بحال رکھنے کیلئے اتنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے ادارے کو میں سلام پیش کرتا ہوں۔ خاص طور پر اکبر ناصرکی ہمت و شجاعت کو داد دیتا ہوں ۔ اس رات جب بلوچستان کے احتجاجی دھرنے کے شرکاء کو سڑک کھولنے کیلئے اٹھایا جا رہا تھا اور پولیس پر شدید پتھرائو ہو رہا تھا۔ میں بھی وہاں موجود تھا۔ ایک اے ایس پی بھی گاڑی کے ٹوٹے ہوئے شیشے سے زخمی ہوا۔ یہ کوئی رات تین بجے کا وقت تھا ۔ میں نے دیکھا کہ آئی جی اسلام آباد بھی وہاں پہنچ چکا تھا۔

تربت سے شروع ہونے والے بلوچ یک جہتی مارچ کی جتنی خواتین گرفتار کی گئی تھیں، ہائی کورٹ کے حکم پر تمام رہا کردی گئیں۔ آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر نے کہا کہ گزشتہ رات بلوچ مظاہرین سے 7 گھنٹے مذاکرات کیے، گرفتار کی گئیں تمام خواتین کو رات ہی رہا کر دیا تھا۔ پولیس کے خلاف طاقت کا استعمال ہوا تو اپنی حفاظت کیلئے اپنی طاقت کو بروئے کار لانا پڑا۔ انہیں رہا کرنے کے عمل کے دوران تھانہ بنی گالا کے ایس ایچ او اشفاق وڑائچ اور حامد میرکے درمیان کچھ تلخی بھی ہوئی، مجھے نہیں معلوم کہ اس کی اصل وجہ کیا تھی۔

اس مارچ کا بنیادی ہدف بلوچستان سی ٹی ڈی ہے۔ ان کے خیالات کے مطابق اس ریاستی ادارے نے کچھ لوگوں کو گرفتار کرنے کے بعد قتل کیا ہے۔ اس ادارے کا مقصد دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ہے جس میں ان کی حیرت انگیز کامیابیوں سے کسی کو انکار نہیں۔ بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں بھارت کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت پاکستان کے پاس ہیں۔اس سلسلے میں کلبھوش یادیو کے اعترافات کی تفصیل اخبارات میں شائع ہو چکی ہے ۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ وہ معصوم اور سادہ بلوچ نوجوانوں کو کیسے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے آئے ہیں۔ یکجہتی مارچ کا ایک اورمطالبہ گم شدہ لوگوں کی برآمدگی تھی۔ گمشدہ لوگوں کا معاملہ عجیب و غریب ہے ۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ سات آٹھ ہزار لوگ ریاستی اہلکاروں نے غائب کیے ہیں۔

ان میں سے دوہزار کے قریب واپس آچکے ہیں مگر ان میں سے ایک شخص نے بھی یہ تسلیم نہیں کیا کہ ہمیں ریاستی ایجنسیاں اٹھا لے گئی تھیں۔میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ایجنسیاں اٹھاتی نہیں، غائب نہیں کرتیں ۔وہ سب کچھ کرتی ہیں ،ملک وقوم کے تحفظ کیلئے، دہشت گردوں سے ۔بے شک دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں بے شمار لوگ ہلاک ہوئے ۔دو نوں طرف سے مگر ریاستی اہل کار یہ جنگ مسلسل قانون کے دائرے کے اندر رہ کرلڑ رہے ہیں۔ اگر وہ قانون سے ماورا ہو جائیں تو تمام دہشت گردوں کو چند دنوں میں زمین کی تہہ میں اتارا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد پولیس کےمتعدد جوان دہشت گردی کے خلاف قانون کے مطابق لڑی جانے والی اسی جنگ میں شہید ہوئے ۔اور جو قومیں اپنے شہیدوں کو بھول جاتی ہیں،ان کے پیروں کے نیچے سے زمین نکلنا شروع ہو جاتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں