بلوچستان میں مبینہ ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کے خلاف آوازاُٹھانے کیلئے تربت سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کرنے والوں ،جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں ،سے جس طریقہ سے اسلام آباد پولیس نے رویہ رکھا، اُن پر ڈنڈے برسائے، اُنہیں گرفتار کیا ،یہ انتہائی قابل مذمت اور افسوسناک امر ہے۔ جب احتجاج پر امن تھا تو پھر یہ زور زبردستی کیوں کی گئی؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب یہ مارچ تربت سے چلا تو وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ذمہ داران لانگ مارچ کے شرکاء سے اُسی وقت رابطہ کرتے، بات چیت کرتے ، اُن کے جائز مطالبات تسلیم کرتے اور مسئلہ کا پر امن حل نکالتے۔ اب جب یہ لانگ مارچ اسلام آباد پہنچ گیا تو ضرورت اس امر کی تھی کہ ان مظاہرین کے ساتھ سنجیدگی سے مذاکرات کیے جاتے لیکن یہاں ان پر ڈنڈے برسائے گئے، خواتین اور بچوں سمیت بڑی تعداد میں احتجاج میں شریک افراد کو گرفتار کیا گیا۔ نگراں حکومت کے وزراء کی طرف سے کہا گیا کہ کچھ افراد منہ ڈھانپے اسلام آباد میں اس مارچ میں شریک ہوئے اور حکومت کے پاس مصدقہ اطلاعات تھیں کہ کوئی گڑ بڑ ہو سکتی تھی۔ یہ بھی کہا گیا کہ پولیس پر پتھراو مظاہرین کی طرف سے کیا گیا جس کے ردعمل میں گرفتاریاں کی گئیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ جلد ہی میڈیا کو یہ بھی بتا دیا جائے گا کہ مظاہرین پر ڈنڈے برسانے والا کون تھا اور یہ خبر شاید حیران کن ہو۔ اس حیران کن خبر کا اب بھی انتظار ہے اور یہ بھی ابھی تک معلوم نہ ہو سکا کہ منہ ڈھانپ کر اسلام آباد سے مارچ میں شامل ہونیوالے وہ افراد کون تھے ۔ وفاقی وزراء نے تمام خواتین اور بچوں کی فوری رہائی کی نوید بھی سنائی لیکن میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے بعد میں جو حقائق سامنے آتے رہے وہ وفاقی حکومت کے ذمہ داروں کے دعووں کے برعکس تھے۔ بلوچ مظاہرین پر پولیس ایکشن کے خلاف کئی اطراف سے سخت مذمت کی گئی، احتجاج بھی ہوئے جس کے بعد گرفتار کیے گئے مظاہرین کی رہائی اور لانگ مارچ کے شرکاء سے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا جس کیلئے گونر بلوچستان کو بھی بلایا گیا۔ بلوچستان کا مسئلہ بڑا گھمبیر ہے۔ ایک طرف گمشدہ افراد کا معاملہ ہے تو دوسری طرف دہشت گردی کے واقعات ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لیتے۔ بلوچستان کی محرومیوں اور ریاست کی طرف سے ماضی کی غلطیوں سے دہشت گردی کو جوڑا جاتا ہے جن کا مداوا کیا جانا چاہیے اور جس کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر بلوچستان میں امن اور ترقی و خوشحالی کیلئے متفقہ پلان تیار کرنا چاہیے۔ البتہ ماضی کی غلطیوں کی وجہ سے علیحدگی پسند دہشت گرد گروپوں اور اُن کے جرائم کو کوئی جواز فراہم نہیں کیا جا سکتا۔بلوچستان کی محرومی کے نام پر یہ علیحدگی پسند دہشت گرد گروپس آئے دن فوج، ایف سی ، سیکورٹی اداروں کے افراد کے علاوہ بلوچستان میں کام کی غرض سے گئے پنجاب سے تعلق رکھنے والے غریب مزدور وں تک کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ بلوچستان میں اعلیٰ تعلیمی ادارے، بہترین ہسپتال بننے چاہئیں لیکن بلوچستان کے عوام کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ کون ہیں جو ڈاکٹروں اور استادوں تک کو بلوچوں کے حقوق کے نام پر قتل کرتے ہیں۔ گمشدہ افراد کے معاملہ کا کوئی حل نکالنا چاہیے جس کیلئے ماضی میں سوچ بچار بھی ہوتی رہی لیکن عملی طور پر کچھ نہ ہوا۔ بلوچستان کے عوام کو خوشحال کریں، وہاں کرپشن کا خاتمہ کریں تاکہ عوام کا پیسہ عوام پر خرچ ہو، اُن کی جائز شکایات اور مطالبات کو اچھے طریقےسے سنیں اور اُن کا حل نکالیں، اُنہیں تسلی دیں، اُن کی امید بنیں۔ جو پر امن ہیں جو سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں اُن کی حوصلہ افزائی کریں۔ لیکن اگر پر امن احتجاج کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے گا اور اُن پر تشدد اسلام آباد میں ہو گا تو پھر اس سے تو علیحدگی پسند دہشت گرد گروپس ہی فائدہ اُٹھائیں گے۔
’موت سے پہلے صفائی‘: مرنے کے بعد پیچھے رہ جانے والوں کو مشکل سے بچانے کا سویڈش طریقہ
ہندو ماں اور مسلمان باپ کا بیٹا کیپٹن حنیف جس کی لاش اُٹھانے کے لیے انڈین فوج کو پاکستان کے خلاف آپریشن کرنا پڑا
برطانیہ میں پرتشدد مظاہرے اور جھڑپیں ، 147 افراد گرفتار، مساجد کی سکیورٹی کے لیے نئی سکیم متعارف
بنگلہ دیش میں مظاہروں کے باعث تین روزہ تعطیل کا اعلان، سراج گنج تھانے پر حملے میں 13 پولیس اہلکار ہلاک
بنگلہ دیش میں پرتشدد مظاہروں میں ہلاکتوں کی تعداد 76 ہو گئی، سابق آرمی چیف کی فوج سے ہجوم کا سامنا نہ کرنے کی اپیل
بنگلہ دیش: پرتشدد مظاہروں میں 80 سے زائد افراد ہلاک، مظاہرین کا سوموار کو لانگ مارچ کا اعلان،تخریب کاری کر نے والے دہشت گرد ہیں: شیخ حسینہ
ایک اور سقوط ڈھاکہ؟؟؟
عوام کھڑے ہو جائیں تو حکومت گھٹنے ٹیک دے گی، مفتی محمد تقی عثمانی
القاعدہ رہنما کی گرفتاری:’اسامہ بن لادن کو تورا بورا سے فرار کروانے والے‘ امین الحق کون ہیں؟
رومی دیوتا کا مجسمہ اور خاتون سیاح کی ’بیہودہ حرکت‘: فلورنس میں ایک تصویر نے طوفان کیوں مچا رکھا ہے؟