تم سا بے خبر نہیں دیکھا !

میں بہت بے خبر ہوں اور مجھ سے زیادہ اگر کوئی بے خبر ہے تو وہ بھی میں ہوں۔میری بے خبری کا یہ عالم ہے کہ کرکٹ میچ بہت باقاعدگی سے دیکھتا ہوں اور اس دوران اپنے بیٹے سے مسلسل پوچھتا رہتا ہوں کہ یہ کون ہے ؟یہ کون ہے ؟میں ہاکی کے میچ بھی دیکھنے کا بہت شوقین ہوں مگر مجال ہے مجھے معلوم ہو یہ کون لوگ ہیں جو گیند پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اسے مار مار کر دو بانسوں کے درمیان ٹینٹ نما زندان میں دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں ایک اکیلا شخص اس یلغار کو روکنے کی کوشش میں جان کی پروا کئے بغیر سینہ سپر کھڑا نظر آتا ہے ۔ایک دفعہ میرا ایک بھانجا ایک خوبصورت شخص کے ساتھ میرے دفتر میں آیا میں نے چائے وغیرہ سے انہیں خوش آمدید کہا لیکن میرے بھانجے کو محسوس ہوا کہ میں نے اس کے ہمراہ آنے والے شخص کو پہچانا نہیں اور محض کرٹسی کے تحت اس کی آئو بھگت کر رہا ہوں چنانچہ اس نے پوچھا کہ آپ نے انہیں پہچانا ؟میں نے ڈپلومیٹک جواب دیا ’’لو انہیں کون نہیں جانتا‘‘ مگر میرا بھانجا مجھے جانتا تھا چنانچہ اس نے میری اور اپنے ہمراہی کی لاج رکھنے کیلئےحیلے بہانے سے اس کا نام لینا شروع کر دیا مگر اس کی ہر کوشش ناکام ہوئی کہ مجھے اس کا نام تو معلوم ہو گیا مگر آخر تک مجھے پتہ نہیں چلا کہ یہ شخص ہے کون!

اس حوالے سے میرا دیرینہ دوست سلو علی خان مجھ سے دو نہیں چار ہاتھ آگے ہے کوئی ربع صدی قبل جہاز میں سفر کے دوران اس نے برابر والی نشست پر بیٹھے مسافر سے ہم کلام ہونے کیلئے پوچھا آپ کا نام کیا ہے اس نے جواب دیا کہ عمران خان۔مسعود کا دوسرا سوال تھا آپ کیا کرتے ہیں اب وہ اس مشکل سوال کا کیا جواب دیتا ؟خیر مجھے امریکی پہلوانوں کا ریسلنگ شو دیکھنے کا بھی بہت شوق ہے ان کا نام جاننے کی مجھے کوئی خواہش نہیں ہوتی لیکن وہ میدان میں اترنے کے بعد اپنے حریف کو ’’یرکانے‘‘کیلئے جورجزیہ خطا ب فرماتے ہیں وہ سننے کے قابل ہوتا ہے مگر جب ان کا حریف اکھاڑے میں اس کے ر جزیہ کلام کا جواب اپنے ہاتھوں سے دیتے ہوئے یعنی مار ما ر کر اس کی مت مار دیتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ گفتار اور کردار میں کتنا فرق ہوتا ہے چنانچہ جب میں الیکشن کے دنوں میں سیاسی پہلوانوں کے دعوے اور ارادے سنتا ہوں تو انکی سابقہ کارکردگی کے باعث میں دوستوں سے پوچھتا ہوں کہ یہ کون ہے اور کیا کہہ رہا ہے ؟ جس پر میرے دوست مجھے بے خبر سمجھ کر ہنستے ہیں اور میں ان کی بے خبری پر کف افسوس ملنے لگتا ہوں ،اس پر مجھے وہ سنی سنائی بات یاد آتی ہے کہ پیرس کے ایک ریستوران میں ایک کپل بیٹھا بے تحاشہ رومانی گفتگو کر رہا تھادوران گفتگواس کے ساتھی نے جیب سے ایک رقعہ نکالا ور اس حسینہ کو دیا، جسے پڑھتے ہی وہ آپے سے باہر ہوگئی، اس نے اسے ایک تھپڑ جڑ دیا اور رقعہ وہیں میز پر چھوڑ کر پائوں پٹختی ہوئی ریستوران سے باہر نکل گئی، وہاں ایک پاکستانی بھی دوسری میز پر بیٹھا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا، ہر پاکستانی کی طرح اسے بھی ایسے معاملات کی کھوج لگانے کی عادت تھی، چنانچہ اس نے وہ رقعہ اٹھایا جو فرانسیسی زبان میں تھا، وہ یہ رقعہ ہاتھ میں پکڑے باہر آیا اور یہ جاننے کیلئے کہ ’’وچلی گل‘‘ کیا ہے ،راہ جاتے ایک فرنچ نوجوان سے کہا پلیز مجھے پڑھ کر بتائیں، اس میں لکھاکیا ہے؟ اس نے رقعہ پڑھتے ہی پاکستانی کو تھپڑدے مارا، اس کے بعد اس نے جس جس کو رقعہ دیا اور اس کے متن کے بارے میں پوچھا اس نے پڑھتے ہی اس کے منہ پر تھپڑ رسید کیا اور بڑ بڑ کرتا آگے چل پڑا، اس پر اسے یاد آیا کہ اس کا ایک پاکستانی دوست برس ہا برس سے فرانس میں مقیم ہے اور فرنچ جانتا ہے، وہ اس کے گھر گیا تو پتہ چلا کہ وہ کسی دوسرے شہر جانے کیلئے بندرگاہ گیا ہے، متجسس شخص نے کار میکسیمم سپیڈ پر دوڑائی اور جب بندرگاہ پہنچا، شپ چلنے کو تھا اور دوست اس کے عرشے پر کھڑا سمندر کی موجوں کا نظارہ کر رہا تھا۔ اس نے چیخ کر دوست کو اپنا مسئلہ بتایا، تو اس نے کہا اس رقعہ کو گول مول کرکے میری طرف پھینکو، اس نے ایسے ہی کیا مگر رقعہ سمندر میں گر گیا اور یوں آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ آخر اس میں لکھا کیا تھا؟ خط کے متن سے بے خبری کا یہ انوکھا واقعہ نہیں، میں تو بے خبر ہوں ہی، لیکن میری پوری قوم اپنے آئین سے بے خبر ہے، اپنے حقوق سے بے خبر ہے ،اسے علم ہی نہیں حقوق ’’ترلے منتوں‘‘ سے یا دم ہلانے سے نہیں ملتے اس کیلئے جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔

بعض اوقات یہ بے خبری مالی نقصان کا باعث بھی بنتی ہے گزشتہ روز ایک دوست میرے پاس آیا وہ روہانسا ہو رہا تھا، میں نے پوچھا کیا ہوا ، بولا میں ہمیشہ سے اپنے محلے کے حجام سے فیشل کرواتا تھا، مجھے کسی نے بتایا کہ محلے میں فیشل ہوتا تو ہے مگر یہ اپنے چہرے کو مزید خراب کرنے کے مترادف ہے کہ یہاں مضر صحت لوشن وغیرہ لگائے جاتے ہیں، تم ایک دفعہ میرے بتائے ہوئے پارلر پر جائو تمہیں پتہ چلے گا کہ فیشل کیا ہوتا ہے۔ چنانچہ میں وہاں گیا اور فیشل کے ساتھ پیڈی کیور بھی کروایا تو مجھ بے خبر کو ایک جھٹکا سا لگا جب میرے ہاتھ میں پچیس ہزار روپے کا بل تھما دیا گیا، اس دن سے میرا یہ دوست بھینگی آنکھوں سے آنے جانے والوں کو دیکھتا ہے، تاہم جاتے جاتے وہ مجھ ایک شعر سنا گیا، میں وہ شعر آپ سے بھی شیئر کرتا ہوں، تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ ؎

تم میرے ہو چکے ہو مدت سے

تم سا بھی بے خبر نہیں دیکھا

اکثر عشاق ایسی بے خبری ہی میں مارے جاتے ہیں۔ دعا کے لئے ہاتھ اٹھائیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں