عدالت کٹہرے میں

تاریخ کی عدالت میں انصاف کٹہرے میں ہو تو منصف آزاد کیسے ہو سکتے ہیں۔ غلط فیصلوں کا بوجھ قوم اُٹھا رہی ہے مگر اب شاید فیصلوں کا وقت آ گیا ہے۔ گویا یہ دسمبر نئے سال کی نوید ہے۔

کب نظر آئے گی بے داغ سبزے کی بہار؟ یہ دسمبر نہیں آسان بس اتنا سمجھ لیجیے۔ دسمبر کا درد جاتے نہیں جاتا، مشرقی پاکستان کا سانحہ ہو یا سانحہ آرمی پبلک سکول یا پھر بے نظیر بھٹو کا قتل۔۔۔ دسمبر کے ذمے بڑے حساب ہیں۔ ایک طرف اعلیٰ عدالت نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ’عدالتی قتل‘ کا مقدمہ کھول لیا ہے تو دوسری جانب ایک اور سابق وزیراعظم کا ’عدالت میں سیاسی قتل‘ یعنی نااہلی کا مقدمہ زیر غور ہے۔

قاضی کی عدالت میں خود سپریم کورٹ کٹہرے میں ہو گی۔ ذرا سوچیے کہ کیا منظر ہو گا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے قتل میں ملوث فوجی اور قاضی القضاۂ ہوں گے۔ بتایا جائے گا ایک منتخب وزیراعظم کو تختہ دار کی زینت کیوں بنایا گیا؟ بھٹو کے مقدمے کی گونج دہائی بعد پھر سُنائی دے گی۔ عدالت کو بتانا پڑے گا کہ بھٹو کا اصل قصور کیا تھا۔ جنرل ضیا الحق جیسا آمر آئین اور منتخب وزیراعظم کا قتل کیوں چاہتا تھا اور یہ کہ عدلیہ کیوں اور کیسے فوجی آمر کی سہولت کار بنی۔ آئین معطل کرنے اور توڑنے میں معاون و مددگار کون تھے۔ پاکستان کے خلاف کیا اصل عالمی سازش ہوئی۔

وطن عزیز کے اس تاریک باب کا آغاز کیا تھا انجام کیا ہو گا؟ کیا یہ محض مقدمہ ہو گا یا بھٹو کو انصاف بھی ملے گا؟ اس مقدمے کے ذریعے پاکستان کے عوام کو وہ عوامل، مقاصد اور نتائج سے آگاہی ملے گی یا پھر ادھورے سوالات اور آدھے وجود کے ساتھ تاریخ کو پیچھے چھوڑ دیا جائے گا۔

سابق صدر آصف علی زرداری نے اپریل 2011 میں ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سے متعلق پانچ سوال بھیجے تھے۔

صدارتی ریفرنس کا پہلا سوال تھا کہ کیا ذوالفقار بھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تھا؟

دوسرا یہ کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر تمام کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہوگا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟

تیسرا سوال کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا اور کیا یہ فیصلہ جانبدار نہیں تھا؟

چوتھے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ کیا سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟ اور کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟

سپریم کورٹ خود پر لگے الزامات دھوئے گی؟ خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد؟

دوسری جانب سابق وزیراعظم نواز شریف سے متعلق نا اہلی کا معاملہ بھی سپریم کورٹ میں آ چکا ہے۔ یہ احتساب بھی ہو گا کہ کس طرح اسٹیبلشمنٹ کے کرداروں نے سیاسی بساط بچھائی اور ایک وزیراعظم کو خارج دفتر کیا؟

کیا ہائبرڈ دور کی تخلیق کرنے والے سب کردار منظر عام پر آئیں گے؟ کیا گزرے چند برسوں میں پاکستان کے ساتھ کیے گئے ڈرامے کے سکرپٹ اور کرداروں کو بھی احتساب کے لیے پیش کیا جائے گا۔

یہ دسمبر عدالتی احتساب اور پاکستان کے مستقبل کے لیے اہم ہے۔ کیا تاریخ کی درستگی کا عمل شروع ہو چکا اور کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ جائے وقوعہ پر ہی انصاف بھی فراہم کر دیا جائے اور قاتلوں کو علامتی ہی سہی مگر سزا ضرور سُنائی جائے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں