فلسطینی جوان نے کہا:گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں ، میں نے ہوش سنبھالا ۔ دشمن پہلے ہی کام تمام کر چکا تھا ۔ یہود بڑے طاقتور تھے ۔ان کے دلوں میں نفرت کی آگ دہک رہی تھی کہ چودہ سو سال پہلے مدینہ منورہ سے کیونکر نکالے گئے ۔ انہیں یہاں بسانے والے عیسائی ان سے بھی زیادہ طاقتور تھے۔ان کا کہنایہ تھا کہ ہزاروں برس پہلے یروشلم یہودیوں کا تھا۔آج بھی ان کا ہے ۔ ہٹلر کے ہاتھوں یہود پر بڑا ظلم ہوا ہے ؛چنانچہ انہیں ہزاروں برس پرانا وطن لوٹا دیا جائے گا… مسلمانوں سے چھین کر ۔آج دنوں میں ایک خالی مکان کسی اور کا ہو جاتاہے ، وہ اپنا ہزاروں برس پرانا قبضہ لینے آگئے تھے ۔چودہ صدیوں سے نسل در نسل مسلمان وہاں آباد تھے تو یہ ان کا مسئلہ نہیں تھا ۔
ہمارے بڑوں نے ان سے کئی جنگیں ہاریں ۔ مسلمان بکھرے ہوئے تھے اور ٹیکنالوجی سے تہی دست۔ عیسائیوں اور یہودیوں کے پاس دنیا کی بہترین جنگی مشینیں موجود تھیں ۔
انہی برستی گولیوں کے درمیان میری شادی ہوئی ۔ بہت عجیب لگ رہا تھا ۔ ہم فلسطینیوں کی شادیاں یونہی ہوتی ہیں ۔ڈھول پٹاخوں کی ضرورت نہیں پڑتی ۔کبھی کبھی میں سوچتا کہ اس جنگی ماحول میں ، کیا میں اپنا گھر آباد کروں گا ۔ میں پڑھنے لکھنے کا کا م کرتا تھا ؛چنانچہ بندوق اٹھانے کے قابل نہیں تھا ۔
پھر خدا نے مجھے وہ دن دکھایا، جب میرے گھر حمزہ پیدا ہوا۔ میری دنیا بدل کے رہ گئی۔ ننھا سا گول مٹول بچہ ، جس کے گال ٹماٹر کی طرح سرخ تھے ۔پتہ ہی نہیں چلا ، کب وہ میری زندگی کا محور و مرکز بنتا چلا گیا ۔ میں سدا کا بزدل تو تھا ہی، اب اور محتاط ہو گیا ۔آج بھی یا د ہے ، جب اس نے نیا نیا چلنا سیکھا تو کیا کرتب دکھایا۔ وہ چلتے چلتے ٹھوکر کھا کرنیچے گر پڑا اور رویا تو سب اٹھانے کو لپکے ۔ تب اس نے اپنی زندگی کی پہلی شرارت سیکھی۔ وہ خود ہی نیچے لیٹ جاتا اور شور مچا دیتا ، جیسے گرپڑا ہو ۔ سب اپنی اپنی ہنسی روکے اسے اٹھانے لپکتے ۔
رات گئےجب وہ سو جاتا تو میں پڑھنے لکھنے ساتھ والے کمرے میں چلا جاتا۔اکثروہیں سو جاتا۔ حمزہ جب سو کر اٹھتا اور مجھے پاس نہ پاتا تو کہتا : بابا دُم ( بابا گم گیا )۔ اسے بلیوں سے بہت محبت تھی ۔ سفید رنگ کی ایک بلی سے اس کی گہری دوستی تھی ۔ یہ الگ بات کہ اکثر بلی کی دم اس کے ہاتھ میں ہوتی اور پچھلے دو پائوں ہوا میں ۔
ہر بری چیز کا نام اس نے ببّو رکھ چھوڑا تھا۔ چند مہینے ہم اسے ببّو سے ڈراتے رہے ۔ پھر الٹا وہ ہمیں ببّو سے ڈرانے لگا۔ ایک دن ہمارے گھر میں ایک کالے رنگ کا ببّو(کیڑا ) مر ا ہوا پایا گیا ۔ حمزہ اس کے پاس بیٹھ کر اس سے باتیں کرتا رہا۔ اس کا کہنا تھا کہ ببّو سو رہا ہے ، شور نہ کرو۔ اس کے بعد جب بھی ہم باہر جاتے، وہ ببّو کو الوداع کیے بغیر نہ نکلتا۔
اس وقت اس کی عمر دو برس تھی ، جب اس نے میرا کان مروڑنا شروع کیا ۔ میں گاڑی چلا رہا تھا ، جب میں نے ننھے حمزہ سے کچھ کہا۔ڈانٹ کر بولا:بابا گاڑی چلائو اور میرا کان مروڑ دیا ۔ میں قہقہہ لگا کر ہنسا ۔ اس کے بعد اکثر وہ میرا کان مروڑنے لگا ۔ کبھی تنبیہ کیلئے اور کبھی ویسے ہی ۔اسے میرے کان مروڑنے میں بہت مزا آتا تھا۔ وہ پیچھے سے اپنے بازو میری گردن کے گرد لپیٹ دیتا ۔ اپنا منہ وہ میرے کان سے لگا لیتا اور کوئی فرمائش کرتا۔ اس کے منہ سے مجھے بہت پیاری خوشبو آتی تھی۔ اکثر میں اس کا منہ سونگھتا رہتا ۔
خبر تھی کہ یکے بعد دیگرے تمام عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے لگے ہیں ۔ ہماری لاشوں پہ وہ اپنے سہانے مستقبل کی منصوبہ بندی کر رہے تھے ۔ مجاہدین کے تن بدن میں آگ لگی ہوئی تھی ۔ موت تو ویسے ہی ان کا پیچھا کر رہی تھی ۔ انہوں نے ایک منصوبہ بنایا اور دشمن پہ ٹوٹ پڑے ۔ اربوں ڈالر مالیت کا ان کا میزائل شکن نظام اور جدید ترین سرحدی باڑ ناکارہ ثابت ہوئی۔ دشمن سکتے میں چلا گیا ۔ہوش آیا تو غزہ کو اس نے آگ لگا دی ۔
جہازوں کی گھن گرج اور دھماکوں کے ہم فلسطینی بچپن سے عادی ہوتے ہیں ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے ، اس دن حمزہ بلی سے کھیل رہا تھا۔ جی میں آیا کہ اٹھا لوں ۔ پھر سوچا ، باہر سردی ہے ۔ دبے قدموں عمارت سے باہر نکلا ۔ بمشکل سو قدم آگے گیا تھا، جب آسمان دھماکوں سے گونج اٹھا اور زمین لرز اٹھی۔ مڑ کر دیکھا،عمارت ملیا میٹ ہو چکی تھی ۔
کچھ دیر بعد مجھے پکڑ کر وہ اس کے پاس لے گئے ۔حمزہ سویاہوا تھا، ایک دائمی نیند۔ بلی بدستور اس کی گود میں تھی ۔ ایسا محسوس ہورہا تھا ، مرا نہیں ، سو رہا ہے یا ناٹک کر رہا ہے ۔ایسا لگا ، میرا حمزہ کالے ببّو کی نقل کر رہا ہے ۔ میر ا حمزہ ، میرے جگر کا ٹکڑا ۔
اس نے کہا : مسلمان دنیا کے پاس فوجوں کی کمی ہے ، بندوقوں اور نہ جہازوں کی ۔ بس کمی ہے تو حمیت کی۔اس نے کہا: اب میرے دل سے ڈر نکل گیا ہے ۔ میں موت بن کے دشمن پہ ٹوٹ پڑوں گا ۔ مسلمانوں کو بتا دو ، اگر وہ فلک شگاف قلعوں میں روپوش ہو جائیں ، مرنا انہوں نے پھر بھی ہے ۔حمیت کی موت مرو ، بزدلو!
فلسطینی مجاہد کے پنجابی دوست نے اپنے آنسو پونچھے اور ایک شعر اس کی نذر کیا
لے او یار حوالے رب دے ، اے میلے چار دناں دے
اس دن عید مبارک ہو سی ، جس دن فیر ملاں گے