خاموشی

ماہرِ نفسیات کافی دیر تک خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور یہ کہا : عبد الطیف صاحب ، ہم ایک دوسرے کی شادیوں میں شریک ہوتے ہیں ۔ آپ کی بیوی میری رشتے دار ہے بلکہ میرے ہی ذریعے یہ شادی ہوئی۔ آپ دوصحت مند بچوں کے باپ ہیں ۔آپ ایک بہترین بیٹے، بہترین شوہر اور بہترین باپ ہیں۔ خاندان میں ہر جگہ آپ کی مثال پیش کی جاتی ہے ۔

آپ کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا سب کچھ میرے سامنے ہے ۔ آپ کا بات کرنے کا انداز ، باتوں میں ربط ، بات کرتے ہوئے reasoningاور منطق کو ملحوظ رکھنا سب کچھ میرے سامنے ہے ۔ابھی اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا ، جب آپ نے گاڑیوں کا کام کرنے کا ارادہ کیا ۔آپ کو اس کاروبار میں غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی۔ اس سے قبل بھی چینی مال کی خرید و فروخت کا آپ کا کاروبار کوئی ناکام نہیں تھا لیکن اب تو دیکھتے ہی دیکھتے آپ نے ایک ایمپائر کھڑی کر دی ۔ آپ کئی اداروں کے ممبر ہیں ۔ آپ کو ان میں مدعو کیاجاتااور آپ وہاں اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں ۔ آپ ہماری محلہ کمیٹی کے رکن اور مسجد کمیٹی کے چئیرمین بھی ہیں ۔ دن میں بے شمار لوگ آپ سے گفتگو کرتے ہیں ۔ ان میں سے کسی کو آپ میں کوئی دیوانگی نظر نہیں آتی ۔ اس کے باوجود آپ کا کہنا ہے کہ آپ کو ذہنی علاج کی ضرورت ہے ؟

غم زدہ شخص بولا :ہاں میرے دوست ۔ مجھے ذہنی علاج کی ضرورت ہے ۔ مجھے وہ چیزیں نظر آتی ہیں جو دوسروں کو نظر نہیں آتیں ۔ماہرِ نفسیات آگے کی جانب جھک کر بولا: مثلاً آ پ کو ایسا کیا نظر آتا ہے ، جو دوسروں کو نظر نہیں آتا؟ مریض کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ وہ بولا: میں دیکھتا ہو ں کہ بہت خطرناک جنگی طیارے گولہ بارود سے لیس کھڑے ہیں۔ پھر وہ بھاگ کر اڑان بھرتے ہیں۔ یہ دنیا کے انتہائی طاقتور جنگی جہاز ہیں ، کوئی جنہیں روک نہیں سکتا۔ پھر وہ ایسی عمارتوں کے اوپر بم گراتے ہیں ، جن کے مکین اپنی موت سے بالکل بے خبر ہیں ۔ مقابلہ کرنے کیلئے طاقتور جنگی جہاز تو رہے ایک طرف ، ا ن کے پاس کھانے کے لیے روٹی بھی نہیں ۔ ہزاروں پائونڈ وزنی بم ایک عمارت میں گرتا ہے ۔

اس عمارت میں ایک چھوٹی سی بچی ہے ، جو اپنے باپ سے ضد کر رہی ہے کہ اسے کھانے کیلئے کچھ لا کر دے۔ اس بچی کی ماں پہلے ہی قتل کی جا چکی ہے۔ اس کا دل گرفتہ باپ اپنی نورِ نظر کو اٹھا کر باہر نکلتا اور خوراک ڈھونڈنے لگتاہے۔ عین یہی وہ وقت ہے ، جہاز جب بم گرانے لگتے ہیں۔ ہزاروں پونڈ وزنی ایک بم اس عمارت پر گرتاہے اور وہ کچے گھروندے کی طرح ملیا میٹ ہو جاتی ہے۔ پلک جھپکنے میں سارے مکین موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ اسکے ساتھ ہی ان کے خالی پیٹوں کو قرار مل جاتا ہے۔ ملبے میں دبی بچی کا ہاتھ مگر اسمان کی طرف اٹھا ہے۔ ایسا لگتاہے، جیسے وہ ابھی تک روٹی مانگ رہی ہے۔ وہ روتا رہا، بولتا رہا۔ کہنے لگا: ایسی عمارتیں بے شمار ہیں۔ ایسے لاوارث بچے گلیوں میں جان بچانے کیلئے بھاگتے پھر رہے ہیں، جن کے ماں اور باپ دونوں قتل ہو چکے۔ قریب سمندر میں بحری جنگی جہاز ہیں، جو گولے پھینک رہے ہیں۔ گلیوں میں ٹینک گولے اگل رہے ہیں ۔

اس نے کہا :میں نے ایک اسپتال دیکھا ۔کمروں اور راہداریوں میں ہر طرف زخمی پڑے ہیں ۔ ادویات کب کی ختم ہو چکیں۔ اندر ایک کمرے میں بہت سے نومولود پڑے ہیں ۔ انہیں آکسیجن کی ضرورت ہے مگر وہ بھی ختم ہے ۔ ویسے بھی اسپتال میں بجلی ہی موجود نہیں ۔ ایندھن ختم ہو چکا اور جنریٹر کب کا بند ہے ۔نومولود تڑپنے لگتے ہیں اور تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے دیتے ہیں ۔ اتنے میں بندوقوں سے لیس ظالم حملہ آور ہوتے اور اسپتال سے سب کو نکل جانے کا حکم دیتے ہیں ۔ اپنے جگرگوشوں کی لاشیں اسپتال ہی میں چھوڑ کر وہ بلکتے ہوئے وہاں سے نکل جاتے ہیں ۔ اس نے کہا:میں پھول سے بچے دیکھتا ہوں ، جو زخمی ہیں اور بھوکے بھی ۔ ان کی مرہم پٹی کرنے والا ، انہیں کھانا کھلانے والا کوئی نہیں ۔ معصوم بچے بلکتے پھر رہے ہیں ۔ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں ظالموں کی حمایت میں کھڑی ہیں ۔ وہ اپنے بحری بیڑے اور ہوائی جہاز ان کی مدد کے لیے بھیجتی ہیں ۔ دوسری طرف کلمہ گو بھوکے کمزور وں کی مدد کرنے والا کوئی بھی نہیں ۔ ماہرِ نفسیات نے ایک لمبی سانس لی۔ کہنے لگا : عبد الطیف صاحب میں آپ کو کتنی بار بتا ئوں کہ یہ سب صرف آپ کو نظر نہیں آرہا بلکہ سب کو نظر آرہا ہے ۔ یہ فلسطین کے مناظر ہیں ، جہاں اسرائیل حملہ آور ہے ۔

عبد الطیف حیرت سے بولا: یہ سب کو نظر آرہا ہے ؟ ماہرِ نفسیات کہنے لگا: بالکل۔ جی ہاں، یہ واقعتا وقوع پذیر ہو رہا ہے اور سب کو نظر آرہا ہے ۔ آپ ذہنی طور پر بالکل ٹھیک ہیں۔ معالج کے کان میں مریض نے سرگوشی کی :اگر یہ سب کو نظر آرہا ہے تو پھر سب خاموش کیوں ہیں؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں