ثقافتیں بے رنگ زندگی میں رنگ بھردیتی ہیں۔ خوشبوئیں گھیر لیتی ہیں۔اتوار 3دسمبر کو جب سندھی ثقافت کے دن پر اجرک اور ٹوپی نے دروبام کو۔ گلی کوچوں کو رنگا رنگ کردیا۔ محبت والہانہ رقص کرتی ہوئی صرف سندھ کے باسیوں سے ہی نہیں۔ پنجاب جنوبی پنجاب، خیبر پختونخوا،بلوچستان، آزاد جموں کشمیر، گلگت بلتستان کے درد مندوں سے بھی لپٹ رہی تھی تو میری خوشی کا عالم مت پوچھئے۔ مجھے پاکستان ایک لگ رہا تھا۔ واہگہ سے گوادر تک اجرک اور ٹوپی سے عقیدت کا اظہار کیا جارہا تھا۔ میں نے بھی اجرک اوڑھ کر ٹوپی زیب سر کرکے فیس بک لائیو کیا۔ امریکہ، برطانیہ،کینیڈا، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، فرانس میں مقیم پاکستانیوں نے، بھارت میں اُردو زبان کے عشاق نے کہا بہت پیارے لگ رہے ہیں شام صاحب۔
مجھے چناب نے پالا تو سندھ نے سینچا
مرے مزاج سے دریا دلی کبھی نہ گئی
اللہ سائیں ہم پر کتنا مہربان ہے۔ ہمیں جہاں ایک الگ ملک دیا۔ وہاں ثقافت، تہذیب، ادب، عشق صدیوں سے جلوہ گر رہے ہیں۔ تخلیقی صلاحیتیں بھرپور رہی ہیں۔ کوئی صوبہ ہو، علاقہ، کوئی ضلع شعر و ادب، علم و حکمت کی روایات ہزاروں سال پرانی ہیں۔ یہاں دس ہزار، آٹھ ہزار، پانچ ہزار سال پرانے شہر مل رہے ہیں۔ جہاں انسان بڑی شان سے رہتے تھے۔ یورپ جب اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں ماررہا تھا۔ امریکہ جب دریافت ہونا چاہتا تھا۔ اس وقت یہ خطّہ۔ یہ سر زمین جسے 14اگست 1947 سے ’پاکستان‘ کہا گیا۔ جسے محمد بن قاسم کی آمد کے بعد ’باب الاسلام‘ کہا گیا۔ یہاں تہذیب و تمدن اپنے عروج پر تھے۔ ہم سب کو بجاطور پر اس دھرتی کے فرزند اور اس میں آباد ہونے کا فخر ہے۔ میں خوش اس لیے ہوں کہ سندھی ثقافت کے دن بلوچ بھی مبارکباد دے رہے تھے، پشتون بھی،سرائیکی بھی، پنجابی بھی، بلتی بھی،کشمیری بھی اور مہاجر بھی۔ غور کیجئے کہ ان سب کا رہن سہن، لب ولہجہ،زبان و بیان جب آپس میں ملتے ہیں تو ایک پاکستان میں تہذیب کی کونپلیں کھلتی ہیں۔ ایک خوبصورت نقش جنم لیتا ہے۔یہی پاکستانی ثقافت ہے۔
اک نئی زندگی پاتا ہے تمدّن جب بھی
جذب کرتی ہے زمیں دوجی زمیں کی خوشبو
آئیے 2024 کے استقبال کی تیاری کریں۔ میں فیصل آباد میں ہوں۔ وہیل چیئر پر روشن ستارے کی مصنّفہ گل افشاں رانا۔ نہیں۔ پاکستان کا عزم ۔ امکان اور میرٹ بیٹھا ہے۔ اس نے معذوری کو اپنی تخلیقی صلاحیت کے اظہار میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ پاکستان کے دوسرے 100وہیل چیئر نشینوں سے آن لائن بات کر کے کتاب مکمل کی۔ ان میں ڈاکٹر ہیں۔ انجینئر ہیں۔ سافٹ ویئر ماہر ہیں۔ محترم اساتذہ ہیں۔ گل افشاں سے فون پر بات ہوتی رہی ہے۔ پہلی بار بالمشافہ مل رہے ہیں۔ میرے ساتھ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے آئی ٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عامرہیں۔ گل افشاں سے مل کر ہمت بڑھ رہی ہے۔ پورے پاکستانی نوجوانوں کیلئے ایک روشن مینار۔خاص طور پر ان کیلئے جن کے جسمانی اعضا مکمل ہیں۔ لیکن وہ مختلف بہانے بناتے ہیں کام سے گریز کرتے ہیں۔
میں دریا کنارے جھنگ سے لاہور ٹھہرتا ہوا اب سمندر کنارے کراچی میں 1967 سے مقیم ہوں۔ اس ساحلی شہر نے مجھ جیسے کتنے بے نوائوں کو پہچان دی ہے، تحفظ دیا ہے، طاقت دی ہے۔ جھنگ کے ایک خاندان سے تعلق رکھنے والے۔ سید سیدین رضا زیدی۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے چیئرمین کی ایک اعلیٰ مسند پر فائز کیے گئے ہیں۔ جھنگ شہر میں ہماری گلی کی نکڑ پر۔ بڑی سڑک پر ان کا گھر تھا۔ جھنگ ذہن میں روشنی دل میں محبت بکھیر دیتا ہے۔ سیدین رضا نے ایک مشاعرہ منعقد کر کے کے پی ٹی کے نیک نام چیئرمین ایڈمرل اسحٰق ارشد (1986-1978) کے دَور کی یاد تازہ کر دی ہے۔ ایڈمرل صاحب کے زمانے میں کے پی ٹی اسکولوں کالجوں۔ ادبی محفلوں میں بہت دلچسپی لیتے تھے۔ میرے ساتھ متحرک و فعال بزنس مین اُردو کے خیر خواہ فاروق افضل ہیں۔ 120 سال پرانی لفٹ بہت پیار سے ہمیں دوسری منزل پر لائی ہے۔ بلڈنگ بھی انگریزوں کے دَور میں لے جا رہی ہے۔ کراچی دنیا کے چند بڑے ساحلی شہروں میں سے ہے۔ ساحلی شہر اپنی ثقافت تمدن اور روزمرہ کے امین ہوتے ہیں۔ ان میں سانس لینے والوں کا مزاج عام شہروں کے رہنے والوں سے مختلف ہوتا ہے۔ گفتگو میں یہی ہمارا موضوع ہے۔ کراچی پر کام ہونا چاہئے۔ یہ غریب پرور شہر صرف بحیرہ عرب کا ساحل ہی نہیں ہے۔ یہ پاکستان کے 22 کروڑ شہریوں کی امیدوں کا ساحل بھی ہے۔ ملکی معیشت کا کنارہ بھی ہے۔ دیکھیں خوش لباس، خوش کلام سیدین اس عظیم مگر ان دنوں لاوارث شہر کے مزاج پر تحقیق کب تک کروالیتے ہیں۔ امید ہے کراچی کے میئر مرتضیٰ وہاب بھی اس کار خیر میں شامل ہوں گے۔ مرتضیٰ وہاب اتنے جوان رعنا ہیں کہ انہیں Father of City کہنا اچھا نہیں لگتا۔ ویسے بھی شہر ابھی پدری شفقت سے ویسے ہی محروم ہے۔ جیسے پورا پاکستان ماں جیسی ریاست کی مامتا کو ترس رہا ہے۔
ہو یہ رہا ہے کہ برسوں سے پنجاب، جنوبی پنجاب، سندھ کے جاگیردار، وڈیرے، کے پی کے کے خان، بلوچستان کے سردار خاص طور پر یہ اہتمام کرتے ہیں کہ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے عام لوگوں کو آپس میں لڑواتے ہیں۔مہاجر سندھی، پنجابی بلوچ، پشتون پنجابی، مختلف تنازعات پر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا رہتے ہیں۔ یہ اشرافیہ مقتدرہ جب دیکھتی ہے کہ عام پاکستانی اپنی محرومیوں کے ذمہ داروں کی طرف دہکتی آنکھوں کے ساتھ بڑھ رہے ہیں تو وہ لسانی علاقائی، صوبائی نفرتوں کے جال پھیلا دیتے ہیں اور اصل انقلاب کے راستے میں ناکے لگا دیتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں قومی ہیں مگر ان کی پالیسیاں علاقائی ہیں۔
8 ؍فروری نزدیک آرہی ہے۔ توقع یہی ہے کہ پاکستان کے سارے علاقوں کے ہر فرد کو ایک ووٹ کی طاقت ملنے والی ہے۔ با شعور پنجابی، محبت سے سرشار سرائیکی، انسانیت کے عاشق سندھی، جدو جہد کرنیوالے بلوچی، عالمی ذہن رکھنے والے پشتون، قدیم و جدید تہذیب کا امتزاج رکھنے والے مہاجر اپنی رائے کا درست ترین استعمال کریں گے۔ پاکستان میں اعلیٰ تہذیب و تمدن کا دلکش مرقع بنے گا