بظاہر ایک چھوٹی سی خبر ہمارے ہاں رائج نظام ِحکومت کی ناکامی کا طویل فسانہ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ ’’پنجاب حکومت نے چنگ چی اور غیر قانونی مال بردار رکشے بند کروانے کا فیصلہ کرلیا۔ 30دن کی مہلت۔‘‘ متبادل روزگار یا شہریوں کیلئے آمدورفت کی سہولت کے سوالات کی بحث سے قطع نظر بنیادی نکتہ یہ ہے کہ برسہا برس سے حکومت کس گوشہ عافیت میں محو استراحت تھی؟
المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سماج کو دیگر بیشمار کمزوریوں کیساتھ یادداشت کے ضعف کا عارضہ بھی لاحق ہے۔ مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے ہاں آمدورفت کیلئے بیشتر شہروں اور دیہات میں تانگہ گھوڑے استعمال ہوتے تھے یا پھر سائیکل رکشے دستیاب ہوا کرتے تھے۔ دو سواریوں کی گنجائش والے سائیکل رکشہ کو ایک آدمی پائوں سے پیڈل مار کر چلایا کرتا تھا۔ میاں نوازشریف وزیراعظم بنے تو انہوں نے یہ رکشے ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ ان کے بدلے تین پہیوں والے موٹر رکشے تقسیم کئے گئے۔ اس حکومتی اسکیم سے بہت سے لوگوں نے جائز ہی نہیں ناجائز فائدہ بھی اُٹھایا۔ دنیا بھر میں تین قسم کی سواریاں بہت پہلے سے زیراستعمال تھیں، چار پہیوں والی موٹر کاریں، تین پہیوں والے رکشے اور دو پہیوں والی موٹر سائیکلیں۔ بتایا جاتا ہے کہ پہلی بار1869ء میں جاپان کے شہر Yokohama میں Reverend Jonathan Scobie نامی شخص نے اپنی معذور بیوی کیلئے تین پہیوں والی سواری متعارف کروائی جو بعد میں رکشہ کہلائی۔ چونکہ جُگاڑ ہمارا قومی مشغلہ ہے اور ہم ہر شعبہ میں جگاڑ لگانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس حوالے سے بھی چین میں موٹر سائیکل اور رکشے بنانے والی کمپنی QINGQI کا نام مستعار لیکر ایک نئی سواری بنالی گئی۔جسے پہلے ’چاند گاڑی‘ بھی کہا جاتا تھا مگر پھر بتدریج اس کیلئے ’چنگ چی‘ کا نام مخصوص ہوگیا۔ اس ہائبرڈ سواری کو دراصل موٹر سائیکل اور رکشے کا امتزاج قرار دیا جاسکتا ہے جسے ویسے ہی متشکل کیا گیا جیسے گھوڑے اور گدھے کے ملاپ سے خچر جنم لیتا ہے۔ اس کا انجن موٹر سائیکل کی طرح 100سی سی کا تھا، سواریاں 6,7بیٹھ سکتی تھیں یعنی خرچہ موٹر سائیکل کا اور سواری تانگے جیسی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ چنگ چی رکشے نہ صرف مقبول ہوگئے بلکہ انہوں نے عوامی سواری کا درجہ حاصل کرلیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جہاں سی این جی لگوانے کی بھیڑ چال شروع ہوئی وہاں سوچے سمجھے بغیر ان چنگ چی رکشوں کو بھی فروغ دیا گیا۔ 2001ء میں باقاعدہ ’’پریزیڈنٹ روزگار اسکیم ‘‘ کے تحت یہ چنگ چی رکشے تقسیم کئے گئے۔ یہ ایک طرح کا جگاڑ تھا جو پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل کرنے کیلئے لگایا گیا۔ اگر آپ کمپیوٹر استعمال کرتے ہیں تو یہ بات جانتے ہوں گے کہ وائرس سے بچنے کیلئے اینٹی وائرس انسٹال کیا جاتا ہے جس سے سسٹم سلو ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں یہ جگاڑ لگایا جاتا ہے کہ سسٹم کی بینڈ وتھ بڑھا لی جائے۔ حکومت نے بھی یہی کیا۔ مسئلہ حل کرنے کے بجائے ’چنگ چی‘ نامی اینٹی وائرس متعارف کروا دیا۔ اب ہم سڑکیں کشادہ کرکے بینڈ وتھ بڑھا کر ٹریفک کے مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ اینٹی وائرس تمام کاوشوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔ بلاشبہ یہ چنگ چی رکشے آلودگی میں اضافے کے ہی ذمہ دار نہیں بلکہ سڑکوں پر حادثات کی سب سے بڑی وجہ بھی ہیں۔ یہ عجیب و غریب سواری جس پر موٹر کار سے زیادہ سواریاں بیٹھی ہوتی ہیں، اسے ڈرائیور موٹر سائیکل سمجھ کر بھگاتے ہیں، مسافر نظر آنے پر اچانک بریک لگاتے ہیں اور جہاں دل چاہتا ہے موٹر سائیکل کی طرح موڑ کاٹنے سے نہیں ہچکچاتے۔ ان کے دل میں تصادم کا کوئی خوف نہیں ہوتا کیونکہ اگر ٹکر ہوگی تو چنگ چی رکشے کا کچھ بگڑے گا نہیں اور کار یا موٹر سائیکل والے کا کچھ بچے گا نہیں۔ مسافر چنگ چی رکشہ کی کامیابی کے بعد اب اس طرح کے لوڈر رکشے مارکیٹ میں آچکے ہیں اور ان کی تعداد کسی طرح بھی موٹر سائیکلوں سے کم نہیں ہے۔
کیا کسی سے یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ کھمبیوں کی طرح ان چنگ چی رکشوں کو اُگنے کیوں دیا گیا؟ یہ کیسا نظام حکومت ہے کہ قبضہ کی گئی زمین پر کثیر المنزلہ عمارت بننا شروع ہوتی ہے، اس کا نقشہ منظور ہو جاتا ہے، پھر منظور کروائے گئے نقشے سے ہٹ کر تعمیر کا سلسلہ جاری رہتا ہے، تمام محکمے اپنا حصہ وصول کرنے کے بعد اپنی آنکھیں بند کرلیتے ہیں ۔یہاں تک کہ سرمایہ دار فلیٹ ،اپارٹمنٹ یا دکانیں فروخت کرکے کوئی اور منصوبہ شروع کرلیتا ہے۔ جب عام آدمی اپنی جمع پونجی سے خریدی ہوئی اس جگہ پر کاروبار شروع کرتا ہے تو کوئی چیف جسٹس اُٹھتا ہے اور کہتا ہے یہ عمارت خلاف قانون ہے اسے گرادو۔ دھماکہ خیز مواد نصب کرکے منہدم کر دو۔ رہائشی منصوبوں کا اعلان ہوتا ہے، تشہیری مہم چلتی ہے، سہانے خواب دکھائے جاتے ہیں،پلاٹ بکتے ہیں ،گھر فروخت کئے جاتے ہیں، لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ جب یہ سب کارروائی مکمل ہوجاتی ہے تو پھر قانون نام کا جن بوتل سے باہر آجاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ ہائوسنگ سوسائٹی غیر قانونی ہے۔
غریب اور امیر کی تفریق کو چھوڑیں ،قانون کا اطلاق سب پر یکساں ہونا چاہئے۔میں یہ نہیں کہتا کہ چنگ چی والے غریب لوگ ہیں، کدھر جائیں گے ۔بیچارے عام آدمی کیسے سفر کریں گے، خوار ہو جائیں گے۔ صرف اس بات کا جواب دیا جائے کہ گزشتہ 25برس کے دوران جب یہ عفریت پھیل رہا تھا تب اسے روکنے کے بجائے فروغ دینے کی کوشش کیوں کی گئی؟ اگر آپ کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے تو پھر یہ رکشہ چلانے والوں کو متبادل روزگار فراہم کرنا اور شہریوں کو آمد و رفت کی سہولت فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔کبھی ہمارے ہاں گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سسٹم (GTS) کے نام سے بہترین نیٹ ورک ہوا کرتا تھا،پاکستان ریلوے کا سفر نہایت آرام دہ اور قابل ترجیح ہوا کرتا تھالیکن پھر نجانے کس کی نظر لگ گئی؟ اس نظام کو کیوں اکھاڑ کر پھینک دیا گیا؟ ایسے افلاطون کیسے ٹپک پڑے جنہوں نے قوم کا شعور بیدار کرنے کے نام پراس مغالطے کا شکار کیا کہ قومیں سڑکیں بنانے سے ترقی نہیں کرتیں۔ یہ طرزعمل محض چنگ چی رکشوں تک محدود نہیں،ہم ہر میدان میں وائر س اور اینٹی وائرس انسٹال کرنے کے کھیل میں مصروف رہے ہیں۔