سیڑھی

لوگ کہتے تھے کہ اس کے سر پہ سات پیروں کا ہاتھ ہے ۔خوش بختی اس کی کنیز ہے ۔ ان دیکھی مخلوق اس کی حفاظت کرتی ہے ۔ ایک بار ایک خونخوار کتا اچانک اس پر حملہ آور ہوا۔ قریب بیٹھے ایک آوارہ کتے نے اپنی جان دے کر اس کی حفاظت کی ؛حالانکہ وہ اس کا پالتو بھی نہ تھا ۔بھلا ایسا بھی کبھی ہوتا ہے۔ اس کے چہرے پر نورانی ہالہ تھا۔

میں نے اس سے یہ کہا : درماندہ ہوں ، قسمت کا مارا ۔ اپنی خوش بختی کا راز مجھے بتا ۔ قہقہہ لگا کر بولا : پیدا میں بدقسمت ہی ہوا تھا ۔تین برس کا تھا، جب مشفق باپ دل ہار گیا۔ ماں چٹی ان پڑھ تھی ۔و ہ خوف کا شکار ہو گئی ۔ ایک کمرے کا مکان تھا ، اس پہ قرض لیتی رہتی ۔ مجھے سامنے بٹھا لیتی، محبت پاش نظروں سے دیکھتی رہتی۔قریب چچی کا گھر تھا۔ پڑھا لکھا ،فصیح و بلیغ اورمحنتی خاندان ۔ چچی میری ماں سے کہتی : محنت اور دعا سے تقدیر بدلتی ہے ۔اپنے بیٹے کیلئے ہاتھ اٹھا ، جملے بدل بدل کر دعا مانگ ۔ ماں حیرت سے اسے دیکھتی رہتی ۔ گھر آتی تو مجھے سامنے بٹھا لیتی ۔کئی بار دعا مانگنے کی کوشش کی ۔ لفظ سے لفظ نہ جڑتا ۔ درحقیقت اس بیچاری کے پاس کوئی لفظ تھا ہی نہیں ،دعا وہ کیا مانگتی۔میں بڑا ہو رہا تھا ۔کئی بار کام کرنے کی کوشش کی ۔بدقسمتی کی شدت ایسی تھی کہ جس چیز کو ہاتھ لگاتا مٹی ہو جاتی۔نقصان کمر توڑ دیتا۔کچھ عرصہ مستری کے ساتھ اینٹیں جوڑتا رہا ۔اب ایک بار پھر پیسے جمع کر رہا تھا، ارادہ تھا کہ شہر سے برتن لا کر بیچوں ۔ایک دن قرض داراکھٹے ہوکر آئے اور گھر سے ہمیں نکال باہر کیا۔ہمارے ٹین ڈبے باہر پھینک دیے۔ قیامت کا سماں تھا ۔ بے گھر ماں بیٹا کبھی ادھر بھاگیں ، کبھی ادھر ۔رات ہونے سے قبل سر تو کہیں چھپانا تھا ۔ آخر ماسی رضوانہ کو رحم آیا۔ اوپر والا کمرہ خالی تھا مگر سیڑھی نہ بنی تھی ۔ بانس والی سیڑھی پہ خوف کی ماری ماں چڑھنے سے انکاری ۔ ایک زینہ اوپر جائے ، ایک نیچے ۔ بڑی مشکل سے میں تقریباً اٹھا کر ایک ایک زینہ چڑھتے ہوئے اوپر پہنچا۔ خوف کی ماری ماں پھر نیچے نہ اترسکی۔ کوئی دلاسا ، کوئی منت کام نہ آئی۔ جسم کانپنے لگتا۔ کہتی : میں اوپر ہی ٹھیک ہوں ۔تین دن گزر گئے ۔ میں جانتا تھا کہ وہ دھوپ کو ترس رہی ہے ۔ میں جانتا تھا، وہ تازہ مکئی کے گرم دانے کھانے کو ترس رہی تھی ۔ کنویں پر عورتوں سے بات کرنے کو وہ بے تاب تھی ۔خوف کا عالم یہ تھا کہ پانی گلے سے نہ اتر رہا تھا۔

شام ڈھلے وہ سوگئی ۔میں خوفزدہ تھا کہ نیچے اترنے کی کوئی سبیل نہ ہوئی تو یہیںٹنگی ٹنگی وہ جان کی بازی ہار جائے گی ۔ میری زندگی میں پھر کیا بچے گا؟ پہلی بار میرے اندر کا مرد انگڑائی لے کر بیدار ہوا۔

میں چپکے سے نیچے اترا ۔ماسی رضوانہ سے بات کی ۔جتنی رقم میرے پاس تھی ، اس سے اینٹیں اور سیمنٹ خریدلایا۔ خاموشی سے رات بھر اینٹ پہ اینٹ رکھتا رہا ۔پو پھٹنا شروع ہوئی تو سیڑھی مکمل ہوئی ۔ میرا کل سرمایہ، مستقبل کے سارے خواب اس سیڑھی کی نذر ہو گئے تھے ۔پیسے ختم ہو چکے تھے ۔ تین ہزار ابھی باقی تھا۔دل میں مگر ایک ترنگ تھی ۔ سوچ رہا تھا ماں کو نیچے اتار کر دھوپ میں بٹھائوں ۔مکئی کے گر م دانے کھلائوں ۔کنویں کا تازہ پانی پلائوں۔آخر میں اوپر گیا اورماں کو اٹھایا۔نیچے جانے کا سن کر وہ پھر کانپنے لگی۔ جیسے ہی باہر نکلی تو اس کی پہلی نظر سیڑھی پہ پڑی۔وہ ہکا بکا رہ گئی ۔بے یقینی کے عالم میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر وہ دیکھتی رہی ۔ گومیرے ہاتھ میں صفائی نہیں تھی ۔ ٹوٹی پھوٹی آٹھ دس فٹ کی سیڑھی کو مگر وہ یوں دیکھ رہی تھی ، جیسے کوئی شاہ جہاں اپنا تاج محل دیکھ رہا ہو ۔ خواب کے عالم میں ایک ایک قدم اٹھاتی ہوئی وہ نیچے اتری۔ اینٹوں کو ہاتھ لگا لگا کر دیکھتی رہی ۔کبھی وہ سیڑھی پر بیٹھتی کبھی کھڑی ہوجاتی ۔کبھی اوپر جاتی ، کبھی نیچے آتی۔ پھر اس نے میرا ہاتھ دیکھا ۔ رات بھر اینٹیں جوڑتے جوڑتے وہ برف ہو گیا تھا۔وہ جانتی تھی کہ یہ کوئی معمولی سیڑھی نہیں ۔اسے معلوم تھا کہ اپنے مستقبل کے سارے امکانات میں نے اس کی نذر کردیے ہیں ۔ تب اس کے ہاتھ اٹھے ۔ پہلی بار چٹی ان پڑھ عورت پہ ایک دعا نازل ہوئی ۔ بہتے ہوئے آنسوئوں کے درمیان بولی ’’میڈا پتر جیویں تیں میکوں پوڑی لائی اے ، اللّٰہ تیکوں پوڑی لاوے ۔‘‘ (میرے بیٹےسلامت رہو ، جس طرح تو نے مجھے سیڑھی لگائی، اللّٰہ تجھے سیڑھی لگائے )۔میرا سارا خوف یہ سیڑھی کھا گئی تھی ۔ مجھ پر توکل نازل ہو رہا تھا۔ مجھ پر دانائی نازل ہو رہی تھی ۔ مجھ پر عجیب طرح کا اعتماد نازل ہو رہا تھا ۔میں سرمستی کے عالم میں تھا ۔میں اپنے آپ میں نہیں تھا ۔ گائوں کی عورتیں اکھٹی ہو چکی تھیں ۔سب کو معلوم تھا کہ کلثوم تین دن سے اوپر ٹنگی ہوئی ہے ۔ایک دوسرے سے وہ کہہ رہی تھیں ، راتوں رات کلثوم کے بیٹے نے یہ سیڑھی بنا دی۔میری ماں یوں فخر سے سر بلند کیے کھڑی تھی ،جیسے اس کا بیٹا کوئی جرنیل ہو اور بہت بڑا محاذ فتح کر کے لوٹا ہو ۔ راتوں رات ایک حواس باختہ لڑکا کڑیل جوان بن گیا تھا۔ راتوں رات ایک بچہ مرد بن گیا تھا۔اس رات گویا میں نے نیا جنم لیا تھا ۔ مائی سکینہ اپنے بیٹے کو حکماً بولی :کلثوم کے لڑکے کو کام پر لگا ۔میری بدقسمتی کا دور ختم ہو چکا تھا ۔ مجھے سیڑھی لگ چکی تھی ۔ اس نے کہا: قسمت اگرساتھ نہیں دیتی توکوئی سیڑھی ڈھونڈ، سیڑھی!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں