گزشتہ چند ہفتوں سے پاکستانی سیاست میں عمران خان اور نواز شریف کا موازنہ کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے۔ ہمارے کچھ دانشور دوست یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو لانے کیلئے جو کچھ نوازشریف کیساتھ کیا گیا، آج وہی عمران خان کیساتھ کیا جارہا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ نوازشریف کا پاکستان کے موجودہ کسی بھی سیاستدان سے موازنہ کرنا مناسب نہیں ہے۔ عمران خان کا تو خیر پاکستان کے کسی بھی سیاستدان سے موازنہ کرنا عمران نہیں اس سیاستدان کیساتھ زیادتی ہوگی۔ جب اسے وزیراعظم بنایا گیا تو میں نے لکھا تھا کہ’’یہ وزیراعظم والا Stuffہی نہیں ہے‘‘ اور پھر وقت نے یہ ثابت بھی کیا۔ جس صوبے کو شہباز شریف نے دس سال محنت کرکے ترقی کا گہوارہ بنایا، عمران خان اور ان کے بزدار نے پنجاب تو کیا لاہور کے عوام کی چیخیں نکلوا دیں۔ نواز شریف نے پنجاب کو شہباز دیا اور عمران نے بزدار۔ فرق واضح ہے۔آج جو دوست عمران خان کو جمہوریت کا استعارہ بنا کر پیش کررہے ہیں۔
کیا جمہوری لیڈر سانحہ 9مئی کی منصوبہ بندی کرتےہیں؟۔ میانوالی ائیر بیس پر یا دہشت گردوں نے حملہ کیا ہے یا پھر عمران خان کی تیار کردہ نوجوان نسل نے۔یادرہے کہ دہشت گرد میانوالی ائیربیس کے طیاروں تک نہیں پہنچ سکے تھے مگر عمران خان کے بلوائی رن ویز پر دوڑتے پھر رہے تھے اور ریاست نے برداشت کا مظاہرہ کیا، وگرنہ ریاست کی بندوقیں اگر دہشت گردوں کو روک سکتی ہیں تو تحریک انصاف جیسی انتہا پسند جماعت کے لوگوں کو روکنا کوئی مشکل نہیں تھا۔ کیا عمران خان کا نوازشریف سے موازنہ کرنے والے بتا سکتے ہیں کہ عمران خان نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کیساتھ کیا سلوک کیا؟ سعودی عرب، چین اور ترکی سمیت درجنوں ممالک سے پاکستان کے سالہا سال کے تعلقات پر کاری ضرب عمران نے لگائی۔ عمران اور نوازشریف کی خارجہ پالیسی کا کیا موازنہ؟ چین، سعودی عرب اور ترکی سے نواز شریف کے مثالی تعلقات تو اپنی جگہ مگر نوازشریف کے دور میں تو آپکے روایتی حریف بھارت کا وزیراعظم دو مرتبہ لاہور آیا۔
یہ نواز شریف کی ٹھوس خارجہ پالیسی کا ہی شاخسانہ تھا کہ نریندر مودی اور واجپائی بدترین اختلافات کے باوجود نواز شریف سے ملنے لاہور آئے۔ عمران دور میں بیک ڈور ڈپلومیسی کی کوشش کی گئی مگر بھارت کا نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر نیوٹرل مقام پر ملاقات کرتے ہوئے بھی ہزار بہانے بناتا رہا۔ اور آپ کررہے ہیں نواز شریف اور عمران کا موازنہ۔ نوازشریف نے متعدد مرتبہ عملی طور پر ثابت کیا کہ انکی اولین ترجیح صرف اور صرف جمہوریت کی مضبوطی ہے۔ جنرل کیانی، جنرل راحیل شریف کو صرف اسلئے توسیع نہ دی کہ اس کا جمہوری نظام پر منفی اثر پڑے گا، حالانکہ دونوں صاحبان نوازشریف کی ذات کو فائدہ دینا چاہتے تھے مگر نوازشریف نے اپنی ذات پر جمہوریت کی مضبوطی کو ترجیح دی اور دوسری طرف عمران نیازی جنرل باجوہ کو تاحیات توسیع دینے کے خواہشمند تھے، وجہ صرف یہ تھی کہ جنرل باجوہ ان کی اور ان کی بیگم کی اربوں روپے کی کرپشن پر آنکھیں بند کئے رکھیںاور انہیں بزدار کو تبدیل کرنے کا نہ کہیں۔ میں پاکستان کی سیاسی، معاشی، خارجی، انتظامی بنیادیں تہہ و بالا کردوں مگر عمران پروجیکٹ دس سال تک چلتا رہے۔ کیا ایسے تضادات کے مجموعے کا نوازشریف کی سیاست سے موازنہ کرنا کوئی انصاف ہے؟
عمران خان کو جب زبردستی بزور طاقت اقتدار میں لایا گیا اور نوازشریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم پر سپریم کورٹ کے ایک متنازع فیصلے کے ذریعے نکالا گیا۔ تب کے معاشی اعدادو شمار،ترقی کی شرح،دہشت گردی،سی پیک اور لوڈ شیڈنگ کا موازنہ اپریل 2022ء سے کرلیں۔ عمران کی کارکردگی کی قلعی کھل جائیگی۔ جب پوری ریاست نوازشریف کیخلاف کیسز بنانے پر لگی ہوئی تھی،150سے زائد مرتبہ نوازشریف عدالتوں میں پیش ہوتے رہے،مگر ہزاروں قومی رازوں کے امین نواز شریف نے ایک لفظ بھی ایسا اپنی زبان سے نہیں کہا، جس سے قومی مفاد کو دھچکا پہنچتا اور دوسری طرف لاڈلے کیخلاف صرف عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور اس نے سائفر اور امریکی مداخلت کا ایسا بیانیہ تیار کیا کہ قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا۔ اس نے یہ تک پروا نہیں کی کہ میرے اس سائفر ڈرامے کی وطن عزیز اور بیرون ملک مقیم پاکستانی سفارتکاروں کو کتنی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔
آج جو دوست عمران نیازی کا نوازشریف سے موازنہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں اس پر ازسر نو غور کرنا چاہئے۔ سانحہ 9مئی اور توشہ خانہ کیس کو ایک لمحے کیلئے سائیڈ پر رکھ دیں، تب بھی عمران خان کیخلاف اتنے مضبوط اور ٹھوس کرپشن کیسز موجود ہیں کہ اسکا سزاؤں سے بچنا ناممکن ہے۔ پی پی پی القادر کرپشن کیس میں رکاوٹ بنی رہی، وگرنہ گزشتہ ہفتے فائل ہونے والا نیب ریفرنس کئی ماہ پہلے احتساب عدالت میں دائر ہوچکا ہوتا۔ اسی طرح پنجاب میں کھربوں روپے کے کرپشن کیسز، چینی ایکسپورٹ اسکینڈل میں تو عمران خان مبینہ طور پر براہ راست ملوث ہیں۔ اسی طرح ادویات اسکینڈل،خیبر پختونخواکا ہیلی کاپٹر اور بلین ٹری اسکینڈل۔ یہ سب وہ کرپشن کیسز ہیں،جن کا آغاز آج نہیں بلکہ اس وقت ہوا تھا، جب عمران خان خود وزیراعظم تھے۔اس لئے یہ بیانیہ بنانا کہ لیول پلینگ فیلڈ کے نام پر ایک کرپٹ شخص کو آزاد کردیں ،کیونکہ وہ ایک سیاسی جماعت کا سربراہ ہے اور اس نے مخالفین کی پگڑیاں اچھال کر انتخابی مہم چلانی ہے، یہ انصاف نہیں ہے۔عمران خا ن پر کھربوں روپے کرپشن کے الزامات ہیں، انہیں بہرحال ان کیسز کا سامنا کرنا پڑے گا۔