اگر یہ مقدمے اصلی ہیں تو پھر سزا مکمل ہونے سے پہلے ختم کیسے ہو جاتی ہے؟ اگر یہ مقدمے انتقامی ہیں تو عدالت سزا کیسے سنا دیتی ہے؟
تو جس عدالت نے انھی مقدمات میں پہلے سزائیں سنائیں وہ انصاف تھا یا جو عدالتیں اب انھی سزا یافتگان کو انھی مقدمات میں بری کر رہی ہیں وہ انصاف ہے؟
جو احتسابی ادارہ کل دل و جان سے ایڑی چوٹی کا زور لگا کے اپنی ہی عائد کردہ فردِ جرم کی بنیاد پر ملزم کو زیادہ سے زیادہ سزا دلوانے پر کمر بستہ تھا وہی ادارہ آج اسی فردِ جرم کو پانچ منٹ میں کیسے یہ کہتے ہوئے واپس لے لیتا ہے کہ اگر عدالت ملزم کو بری کر دے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔
کیسے پتہ چلے کہ یہ ادارہ کل دباؤ میں تھا یا آج دباؤ میں ہے یا کل بھی تھا اور آج بھی ہے؟
پس ثابت ہوا کہ کوئی شے قائم ہے تو وہ الہ دین کا چراغ ہے۔ سیدھا رگڑو تو ہر ہر دروازہ کھلتا چلا جاتا ہے، چھینی عزت بحال ہوجاتی ہے، پیروں تلے سے کھینچا جانے والا سرخ قالین پھر سے خود بخود کھلتا چلا جاتا ہے۔
کل تک پیچھے دوڑنے والا، دیواریں پھاندنے والا، ہتھکڑیاں ڈالنے والا دستہ اچانک سے ہٹو بچو ٹائپ محافظوں میں بدل جاتا ہے۔ زمین پر کیل کی طرح گڑے مقدمات اور ان مقدمات کے نتیجے میں کڑی سزائیں، اسپانسرڈ تزلیلات، کردار کشیاں، غدارانہ الزامات، ضبطیاں، میڈیائی سنسریات، غرض جملہ منفیات روئی کے گالوں کی طرح اڑنے شروع ہو جاتے ہیں اور سب کے سب بارِ دگر ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔
گویا ہماری ریاستی ڈکشنری میں عروج کی جدید تعریف یہ ہے کہ ’پکڑ دھکڑ اور آزادی کے درمیانی وقفے کو عروج کہتے ہیں۔‘
یہی الہ دین کا چراغ الٹا رگڑا جائے تو دوڑتے اونٹ پر بیٹھے آدم کو بھی کتا کاٹ لیتا ہے۔ وہی انسان جسے قوم کی تقدیر بنا کے رائے عامہ کی منڈی میں جنسِ نادر کے طور پر اتارا جاتا ہے، پلک جھپک کے وقفے میں قومی خطرہ، جنسی کج رو، مال پیٹ تحریک کا سرغنہ، فاشسٹ، اقربا نواز، جھوٹا، بدتمیز، ریاست کا باغی، کسی بھی اعلی عہدے کے لیے ان فٹ اور جنتا کو گمراہ کرنے والا قرار پاتا ہے۔
ایسے خوش قسمت بدقسمت کا مقدر وہی کال کوٹھڑی بن جاتی ہے کہ جو خدا معلوم کب سے چراغِ الہ دین کے زخم خوردگان کا مسکن ہے اور اس کی سنگی دیواروں پر جلی حروف میں وقت سے نچڑی روشنائی نے لکھ دیا ہے،
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا (جالب)
پس ثابت ہوا کہ جس کے پاس الہ دین کا چراغ ہے وہی تخت کو تختہ اور تختے کو تخت بنانے پر قادر ہے۔ چاہے تو کٹھ پتلی میں حرکت پیدا کر دے نہ چاہے تو اسی کٹھ پتلی کو گودام میں رکھوا دے۔
فرض کریں جس کے پاس آج یہ چراغ ہے اس سے اگر کوئی چھین لے تو کیا ہم اس منحوس چکر ویو سے نکل آئیں گے؟ ہرگز نہیں۔ جس کسی کے پاس یہ چراغ ہو گا وہ اسے اپنے پسندیدگان و ناپسندیگان و پسماندگان کے لیے رگڑے گا اور اس کی بھی یہی خواہش ہو گی کہ سب کے سب کٹھ پتلیاں بن کے چراغ کی لو میں ناچیں اور انکار کریں تو اندھیر گودام میں پھینک دیے جائیں۔
یعنی چراغ کی اپنی کوئی سرشت نہیں ۔مظلوم کے ہاتھ لگ جائے تو اسے ظالم بنتے دیر نہیں لگتی۔ چھن جائے تو مظلوم بنتے دیر نہیں لگتی۔
اب ذرا ہمارے فیصلہ سازوں کی انفرادی و اجتماعی لفظیات ملاحظہ فرمائیے۔ میرے پاس کوئی جادوئی چھڑی نہیں کہ آنکھ بند کر کے ’اوبڑ دی گڑگڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف دی لالٹین‘ پڑھوں اور ڈالروں کی برسات ہونے لگے اور پاک سرزمین خوشحالی سے جل تھل ہو جائے۔
میرے پاس الہ دین کا چراغ نہیں کہ راتوں رات مسائیل حل ہو جائیں۔ یہ بحران میں نے پیدا نہیں کیا۔ اس گند کو صاف کرنے میں وقت لگے گا۔ جہاں آپ نے اتنا صبر کیا صرف چھہتر برس اور صبر کر لیں وغیرہ وغیرہ ۔
اور جب ان سے پوچھو کہ واقعی ان کے پاس جادو کی چھڑی یا الہ دین کا چراغ نہیں تو پھر وہ کون سی گیدڑ سنگھی ہے جس کے استعمال سے ایک شوگر مل بیس شوگر ملوں میں بدل جاتی ہے۔ پانچ لاکھ کے بیلنس میں پانچ اور صفر راتوں رات جڑ جاتے ہیں۔ گریڈ بائیس کے برابر تنخواہ میں اتنی برکت کیسے آ جاتی ہے کہ اندرون و بیرونِ ملک املاک کی تفصیل پیاز کے چھلکے کی طرح کھلتی چلی جاتی ہے۔
جنھوں نے نجات دھندہ، جادو کی چھڑی، گیدڑ سنگھی اور الہ دین کے چراغ سے نجات پالی وہ یورپ، امریکہ، جاپان، چین، برازیل، انڈیا اور بنگلہ دیش ہو گئے۔
ہم کیسے نجات پائیں اس چراغ سے جسے ہم نہیں بلکہ وہ ہمیں رگڑے جا رہا ہے اور رگڑے پر رگڑا لگتا ہی جا رہا ہے۔
شکستگی کا یہ درماں ہے تیرگی میں جئیں
چراغ ہو تو جلائیں لباس ہو تو سئیں